برما کے وزیر اعظم تھائی سین جب
یہ کہتے ہیں کہ یہ روہنگیا مسلمان ہمارے باشندے نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں ۔
ان پر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کوئی
دوسرا ملک انہیں قبول کر لے یا اقوام ِ متحدہ ان کی دیکھ بھال کرے تو وہاں
کے مسلمانوں کو اس پر حیرت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ ان مقامی لوگوں کے مطابق
۶۸۰ میں ان کے جد ّامجدمحمد ابن الحنفیہ نےاس علاقہ میں قدم رنجا فرمایا
جن کا تعلق خانوادۂ حضرتِ علیؓ سے تھا ۔ محمد ابن الحنفیہ کی مزار اب بھی
مونگڈاوپہاڑی کی چوٹی پر موجود ہے ۔اس کے بعد مسلمان ائیر وادی ندی کی
ترائی میں نویں صدی میں آن بسے جبکہ برما کی مشہور سلطنتِ بگان کا قیام
۱۰۵۵ کے اندر عمل میں آیا ۔گویا نام نہاد قوم پرست برمیوں سے قبل
مسلمانوں نے اس سرزمین کو آباد کیا اس کے باوجود ان سے کہا جارہا ہے بقول
بہادر شاہ ظفر(ترمیم کے ساتھ) ؎
کہہ دو یہ مومنوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
برما کے لوگوں کی جذباتی نفسیات کا ترجمان خود انہیں کی تاریخ کا ایک واقعہ
ہے ۔راجہ انوارتھا نے اپنے شہزادے ساولو کی تعلیم و تربیت کیلئے ایک عرب
استاذ کا تقرر کیا ۔اس کا لڑکا رحٰمن خان اور شہزادہ ساؤلو بچپن کے دوست
اور دودھ شریک بھائی تھے ۔ساؤلو جب تخت نشین ہوا تو اس نے رحمٰن خان
کوباگو کاعلاقہ جاگیر میں دے دیا ۔ایک مرتبہ شطرنج کھیلتے ہوئے جب رحمٰن
خان جیت گیا تو وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگا ۔اس پر ساؤلو کو بہت غصہ آیا
اس نے رحمٰن کو للکار کر کہا کہ اگر اس کے بازو میں دم ہے تو اپنےصوبہ باگو
سمیت اعلانِ بغاوت کر کے اس سے دو دوہاتھ کر لے ۔ رحمٰن نے یہ چیلنج قبول
کرکے ساؤلو سے مقابلہ کیا اور اسے شکستِ فاش سے دوچار کردیا ،ساولو فوج
سمیت بھاگ کھڑا ہوا گرفتار ہوکرمارا گیا۔ آگے چل کر ساولو کے ایک تیز
اندازنے رحمٰن خان کو ہلاک کر دیا اس طرح ایک ہزار سال قبل یہ دوستی ایک
عبرت ناک انجام کو پہنچی ۔ اس کے بعد سلطنت باگان کی باگ ڈور کیانزیٹا کے
ہاتھوں میں آئی جس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی خاطر ہندوستانیوں اپنی
فوج میں شامل کیا اور وسطی برما میں بسایا۔ اس دوران مسلمان شاہی مشیر اور
فوجی سپہ سالار جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز ہوئے ۔
مسلمانوں کی برما میں آمد اور ان کی تعذیب و آزمائش کی تاریخ دونوں ہی
قدیم ہیں ۔مون قبیلہ کا راجہ تھاٹون ۱۰۵۰ میں اپنا شیش محل تعمیر کررہا
تھا اس وقت اس نے بیطوی نامی ایک فرد کو اس لئے قتل کروا دیا کہ وہ مسلمان
تھا اورراجہ اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتا تھا ۔اس کے دونوں بیٹوں کو جب محل کی
تعمیر میں بندھوا مزدور کے طور پر کام کرنے کیلئے کہا گیا تو انہوں اپنی
خودداری کے سبب انکار کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کو سولی پر چڑھا دیا گیا
۔برمی بودھوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان ۱۴۳۰ میں دوستانہ تعلقات
استوار ہوئے جبکہ راجہ نارامیخلا نے ۲۴ سالہ جلاوطنی کی زندگی بنگال کے
سلطان کےپاس گزاری اور اس کے بعد دوبارہ اراکان پر اپنی حکومت قائم کی ۔
نارامیخلا نے اپنا کچھ علاقہ سلطان کے حوالے کیا اور وہاں کےمسلمانوں کو
خودمختاری دی ۔نارامیخلا کے سکوں میں ایک جانب برمی زبان اور دوسری طرف
فارسی میں لکھا ہوتا تھا لیکن سلطان جلال الدین شاہ کی موت کے بعد نارا
میخلا کے وارثین نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۱۴۳۳ میں ریاستِ
بنگال کےرامو اور چٹا گانگ پر قبضہ کرلیا جو ۱۶۶۶ تک جاری رہا۔ ۱۵۵۹ کے
بعدراجہ بائیٹناگ نے اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا اور نہ صرف
حلال ذبیحہ کو ممنوع قراردے دیا بلکہ عیدالاضحیٰ کی قربانی پر بھی پابندی
لگا دی۔وہ مسلمانوں کوجبراً تبدیلیٔ مذہب پر مجبور کرنے کی خاطربودھ اشلوک
سنواتا تھا ۔
سترہویں صدی کے وسط میں شاہجہاں کا دوسرا بیٹا شاہ شجاع اپنے بھائی سے شکست
کھانے کے بعد اپنی فوج اور خاندان سمیت اراکان پہنچ گیا جہاں راجہ سندا
تھدامہ کی حکومت تھی ۔ راجہ نے اول تو شجاع کا خیرمقدم کیا لیکن جب شجاع نے
حج کی غرض سے جہاز خریدنے کی کوشش کی تو راجہ دولت کی حرص کا شکار ہو گیا
اوربعد میں اس نے شجاع کی بیٹی سے شادی کی پیشکش کی ۔ اس کے نتیجہ میں جنگ
چھڑ گئی شجاع اور اس کے فوجی مارے گئے لیکن اس کا غصہ عام مسلمانوں پر
اتارا گیا اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کا قتل عام کیا
گیا عورتوں کو جیل میں ڈال دیا گیا جہاں فاقہ کشی کا شکار ہو کر وہ ہلاک
ہوگئیں ۔ ۱۷۸۲ میں تخت نشین ہونے والے بوداوپایا نامی راجہ نے چارمعروف
علماء کو خنزیر کا گوشت کھانے کیلئے کہا اور جب انہوں نے انکار کیاتو شہید
کردیا ۔ اس تاریک دور ِستم میں تقریبا۳۵۰۰۰ مسلمان بنگال ہجرت کرنے کیلئے
مجبور ہوگئے جہاں انگریزی سامراج قائم ہو چکا تھا ۔بعد میں انگریزوں نے
اراکان کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیا ۔
۱۸۴۲ میں برطانوی سامراج نے سارےبرما کو اپنا غلام بنا لیا اور شمالی ا
راکان کے علاقہ کو جزوی خودمختاری عطا کر دی ۔ اس دوران بنگال اور اراکان
میں لوگوں کا کافی آنا جانا رہا۔ برما کی حکومت اسی کا بہانہ بنا کر یہ
کہتی ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ہیں اور برما کے شہری نہیں ہیں
حالانکہ برمی دستور کے مطابق وہ تمام لوگ شہریت کے حقدار ہیں جو ۱۹۴۸ میں
وہاں موجود تھے ۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ۱۹۴۲ میں جاپان نے برما پر حملہ
کر دیا اور برطانوی فوج کو پسپاہو کر پیچھے ہٹنا پڑا ۔ انگریزوں نے
جاپانیوں کے خلاف مسلمانوں سے مدد طلب کی اور بدلے میں ان سے آزاد ریاست
قائم کرنے کا وعدہ کیا ۔ ۱۹۴۸ میں جب برما آزاد ہوا تو انگریزاپنا عہد
بھلا کر بھاگ کھڑے ہوئے اس کے بعد مسلمانوں نے اپنے طور پر آزادی کی
جدوجہد کی مگر ناکام رہے لیکن اس کا نتیجہ میں برما کی حکومت اور اراکان کے
مسلمانوں میں بے اعتمادی کا فضا پیدا ہو گئی۔
دوسری جنگ ِ عظیم سے قبل جنرل اونگ سان کی قیادت میں اینٹی فاشسٹ پیوپلس
فریڈم پارٹی (اے ایف پی ایف ایل)نے آزادی کی جدو جہد کا آغاز کر دیا تھا
۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے بھی اپنے آپ کو برما مسلم کانگریس (بی ایم
سی)کے تحت منظم کرلیا تھا ۔دسمبر ۱۹۴۵ میں یو رزاق بی ایم سی کے صدر منتخب
ہوگئے ۔ انہوں نے آگے چل کر اپنی جماعت کو اے ایف پی ایف ایل میں ضم کردیا
۔ اس کے بعد انہیں دستور ساز اسمبلی میں شامل کیا گیا اور جنرل اونگ سان کی
قیادت والی حکومت میں وہ وزیر تعلیم اور منصوبہ بندی کے عہدے پر فائز ہوئے
۔بعدمیں فوجی بغاوت کے نتیجہ میں جنرل اونگ سان سمیت یو رزاق بھی ہلاک کر
دئیے گئے ۔یو نو نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پہلے تو برما مسلم کانگریس
کو حکمراں جماعت سے الگ کیا پھر اسے تحلیل کروایا اور بودھ مت کو قومی مذہب
قرار دے دیا ۔
جنرل نے وِن۱۹۶۲ نے اقتدار سنبھالنے کے بعدمسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ
جاری رکھا ۔ ۱۹۷۸ میں قومی رائے شماری سے قبل آپریشن ڈراگن کنگ کے نام سے
ایک مہم چلائی تاکہ غیر ملکیوں کو الگ کرنےکابہانہ بنا کرروہنگیا مسلمانوں
کو اس ہراساں کیاجائے اس کے نتیجہ میں دو لاکھ لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے ۔اس
دوران فوج کے ذریعہ قتل و غارتگری اور عصمت دری جیسے سارے ظالمانہ ہتھکنڈے
اپنائے گئے۔اس سانحہ کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت اور اقوام ِ متحدہ کی جانب
سے مہاجرین کوواپس لینے کامطالبہ کیا گیا جسے برما کی حکومت نے تسلیم کیا
یہ اور بات ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ حیرت کی بات یہ ہے نے ونگ کے
ظالمانہ فوجی اقتدار نے جس حقیقت کو تسلیم کیا تھا موجودہ جمہوری حکومت کے
وزیر اعظم تھائی سین اس سے صاف انکار کرر ہے ہیں بلکہ خود اراکان کے اندر
رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو شہری تسلیم کرنے کی روادار نہیں ہیں اور
نہایت بے شرمی کے ساتھ اقوام متحدہ سے یہ کہتے ہیں اس مسئلہ کا واحد حل یہ
ہے کہ وہ کسی اور ملک میں ہجرت کر جائیں یا اقوام متحدہ ان کی ذمہ داری لے۔
روہنگیا رہنما محمد نور کے مطابق حقیقت یہی ہے کہ وہ برمی نہیں ہیں بلکہ
آزاد ریاست اراکان کے رہنے والے ہیں ۔ روہنگیا نسل کا تعلق برما سے نہیں
اراکان سے ہے ۔ برما کے لوگ ان کی سر زمین پر غیر ملکی ہیں انہوں اراکان پر
جارحیت کی مدد سے غاصبانہ قبضہ کیا ہواہے ۔
روہنگیا مسلمان آج کل جس مصیبت میں گرفتار ہیں اسی طرح کی آزمائش سے
۱۹۹۱ میں گزر چکے ہیں جب شمالی ا راکان کی ریاست میں فوجیوں کی تعینانت
بڑھا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کی گھیرا بندی کر دی گئی اور سڑکوں وغیرہ کی
تعمیر کیلئے ان سے جبری مزدوری کا کام لیا گیا ان کی زمینوں پر قبضہ کیا
گیا اور مساجد تک کو نشانہ بنایا گیا۔عوام طرح طرح کی ایذا رسانیاں کا شکار
ہوئے اور ان کی تمام مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ۔روہنگیا
رہنماؤں کو خوفزدہ کیا گیا ۔ اس وقت تقریباً ڈھائی لاکھ لوگوں نے ہجرت کی
لیکن ان میں سے بڑی تعداد واپس اپنے وطن لوٹ گئی لیکن اس کے باوجود ان کے
ساتھ کیا جانے والا امتیازی سلوک جاری رہا انہیں غیر ملکی قرار دے کر
بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتارہا اور ان کی نقل و حرکت پر مختلف قسم کی
پابندیاں عائد رہیں ۔
برما کی حکومت چونکہ تقریباً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری
تسلیم نہیں کرتی اس لئے یہ لوگ خود اپنی ہی سرزمین پر بے وطن ہیں ۔بنگلہ
دیش کے اندر تقریباً دو لاکھ مہاجر روہنگیا آباد ہیں جن میں سے صرف ۲۸
ہزار کا باقائدہ طور پر مہاجر کیمپوں میں اندراج پایا جاتا ہے ۔تھائی لینڈ
کی سرحد کے ساتھ واقع ۹ مہاجر کیمپوں میں تقریباً ایک لاکھ گیارہ ہزار
مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ملیشیا میں پناہ گزین ۹۰ ہزار بے
خانماں لوگوں میں ۹۱ فیصد کا تعلق برما سے ہے ۔ ان میں مختلف قبائل کے
مسلمان اور عیسائی بھی ہیں جو تھائی لینڈ سے ہو کر وہاں پہنچے ہیں ۔ ان میں
تقریباً ۳۰ ہزار روہنگیا مسلمان ہیں ۔ماضی کے اندرشاہ فیصل نے مشکل کے وقت
میں روہنگیا مسلمانوں کا اپنے سعودی عرب میں خیر مقدم کیا تھا جس کے باعث
ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ روہنگیا مسلمان سعودی عرب میں آباد
ہیں جبکہ سرکاری اعدادو شمار سےصرف ایک لاکھ بیس ہزار کی تصدیق ہوتی ہے ۔
یہ لوگ حجاز کے شہروں مکہ ،مدینہ یا جدہ میں آباد ہیں ۔ عرب ممالک میں ان
کی کل آبادی سات لاکھ ہے ۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم"ایمنسٹی انٹرنیشنل" کے مطابق مغربی صوبہ اراکان
میں مسلمان آبادی پر حملوں کے دوران سنگین نوعیت کے جنگی جرائم کا ارتکاب
کیا گیا ہے۔ برمی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں
کو مسلمانوں کی محصور بستیوں پر حملوں کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ ان حملوں
میں سیکڑوں مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیے
گئے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے برما کی حکومت اور انتظامیہ کو کڑی
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسےقتل عام کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ برما کی
حکومت کی طرف سے پیش کئے جانے والےقتل عام کے جواز کو مسترد کردیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ برما کی ریاست
اراکان میں سینکڑوں مسلمان حراست میں ہیں، انہیں کہاں رکھا جا رہا ہے، اس
بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔
برما میں گزشتہ مہینے پھوٹنے والی تشدد کی اس لہر میں گو کہ اب کسی حد تک
کمی واقع ہوئی ہے تاہم انسانی حقوق کے عالمی ادارے اب بھی یہ رپورٹس دے رہے
ہیں کہ تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کو اب بھی قتل کیا جا رہا ہے۔
برما کے بودھی قبائل مسلمانوں کے خون کے پیاسے معلوم ہوتے ہیں اور دہشت گرد
گروپوں کی جانب سے مسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا جاتا
ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق انتظامیہ نے
مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث عناصر کے خلاف نہ صرف کسی قسم کی کارروائی
نہیں کی ہے بلکہ مسلمانوں کے تعاقب میں سرگرم عناصر کو روہینگیا شہر میں
محصور مسلمان آبادی پر حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔نہ جانے کیوں انگریزوں
نے آخری مغل بادشاہ کو جلا وطن کرنے کیلئے برما کا انتخاب کیا تھا لیکن
ظفر نے وہاں جو اشعار اپنے بارے میں کہے تھے وہ اب عام مسلمانوں کی حالت پر
صادق آتے ہیں مثلاً ؎
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو ، دل میں شرمایا تو ہوتا
ترکی کے محکمہ مذہبی امور کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
حالیہ فسادات کے دوران برما میں دو ہزار مسلمان بچوں، مرد، خواتین اور
بوڑھوں کو شہید کیا گیا ہے جبکہ نوے ہزار افراد ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ترک حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں برما میں مسلمانوں کے خلاف ماگ
قبائل کی دہشت گردی پر اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور
دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی متوجہ کیا گیا ہے۔ بیان میں ان
تمام عالمی اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ برما میں مسلمانوں کےخلاف جاری تشدد
بند کرانے کے لیے ٹھوس کردار ادا کریں۔
برما میں مسلمانوں کےخلاف جاری بودھی دہشت گردی کےخلاف مسلم ممالک کی جانب
سے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ مصر کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ الازہر نے
بودھی قبائل کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف دنیا بھر میں
موجود برمی سفارت خانوں کے گھیراؤ کا مطالبہ کیا ہےتاکہ برمی حکومت پر دباؤ
ڈالا جا سکے۔جامعہ نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے
کہا کہ اراکان صوبے میں مسلمان آبادی کو ہولناک تشدد کا سامنا ہے لیکن
عالمی اور اسلامی سطح پر برما کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی
قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس اعلان کے بعد قاہرہ میں واقع برمی
سفارتخانہ کے سامنے مظاہرہ ہوا اور اس میں عہد کیا گیا کہ جب تک بین
الاقوامی برادری توجہ نہیں دیتی احتجاج جاری رہے گا ۔اسی کے ساتھ تیونس میں
اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے مظاہرہ ہوا برما کی حکومت کے خلاف اقدام کرنے
کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس مظاہرے میں ایک وزیر نے حکومت کی نمائندگی کی ۔برما
کے مظلوم مسلمانوں سے یکجہتی کا اعلان کرنے کی خاطر دنیا بھر کے مسلمانوں
نے صدائے احتجاج بلند کی جن میں خاص طور پر ہندوستان، پاکستان ،ایران،ترکی
،غزہ ،انڈونیشیا ، ملیشیا، تھائی لینڈ،جاپان اور برطانیہ قابلِ ذکر ہیں ۔
برما کے مسلمانوں نے شہنشاہیت کے مظالم سہے ۔ انگریزوں کی دغابازی کا شکار
ہوئے ۔جمہوری حکومت کو دیکھا اور فوجی آمروں کو بھگتا لیکن ان تمام
تبدیلیوں کے باوجودان کی حالتِ زار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ۔
گزشتہ دنوں برما میں ہونے والے انتخابات میں آنگ سوچی کی جماعت کے بائیکاٹ
کے نتیجے میں فوجی حکمرانوں کی حمایت یافتہ جماعت برسراقتدار آگئی۔انتخابات
کے ۲ہفتہ بعد اچانک سوچی کو ملکی اور عالمی دباؤ کے نتیجہ میں طویل نظر
بندی سے رہا کردیا گیا۔ ۶۵سالہ سوچی مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا کے عدم
تشدد کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہیں اوردنیا بھر میں جمہوری جدوجہد کی علامت
کے طور پر ابھرکر سامنے آئی ہیں۔انہوں نے برما کے عوام کو”خوف سے آزادی“ کا
نعرہ دیا ہے۔لیکن ۲۱ سال قیدو بند کی صعوبت اٹھانے والی سوچی نے بھی
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے حوالے سے گول مول بیان دے کر
مسلمانوں کو مایوس کیا ہے ۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کو پر زور دیا ۔ امن
کے قیام کی بات کی لیکن روہنگیا مسلمانوں کو برمی شہری تسلیم کرنے کے
معاملہ ٹال گئیں ۔ حقیقت تو یہ ہے امت کو خوف سے نکال کر آزادی کی نعمت سے
سرفراز کرنے کا کام کوئی اور نہیں کرے گا ۔اگر اراکان کا علاقہ تیل کی دولت
سے مالامال ہوتا یا اس سے مغرب کا کوئی سیاسی مفاد وابستہ ہوتا تو اس
معاملہ میں خوب ہنگامہ آرائی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے اس کیلئےامت مسلمہ کو
خود اپنے بل بوتے پر کمر بستہ ہو کر اللہ کے نام پر جدو جہد کا آغازکرنا
ہوگا ۔اس لئے کہ بقول حالی ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا |