اسلام سے دوسرے مذا ہب کی مخاصمت
ایک تاریخی حقیقت ہے ۔ دنیا میں ویسے تو کئی مذاہب ہیں اور ان کے ماننے
والے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذا ہب کے
امتیازی سلوک اور مخا صمت کی کوئی تو خاص وجہ ہو گی جسکی وجہ سے وہ
مسلمانوں کو اپنی جارحانہ کاروائیوں کے نشانے پر رکھتے ہیں۔ کیا دنیا کے
دوسرے تمام مذاہب اسلام کے علاوہ آپس میں بھی اسی طرح کی مخاصماتی اور جنگی
کیفیت رکھتے ہیں جیسی وہ اسلام کے ساتھ رکھتے ہیں تو جواب نفی میں ہو گا۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلام کا قلع قمع کرنے کےلئے سارے مذا ہب باہم متحد ہیں
اور اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے کے خلاف در گزر کا
مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک سچا دین ہے اور دنیا کے
دوسرے مذاہب سچائی کے اس جوہر سے خالی ہیں جو اسلام کا طرہِ امتیاز ہے۔
سرکا رِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے عشق کی جو کیفیت اسلام کے شیدائیوں
میں ہے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔مسلمان سرکارِ
دوعالم ﷺ کی محبت میں موت کو یوں گلے لگاتے ہیں جیسے کسی تحفے کو گلے لگا
یا جاتاہے ۔اسلام سے دوسرے مذاہب کی مخا صمت کی بنیادی وجہ عشقِ رسول ﷺ کی
وہ شدت ہے جسے دوسرے مذا ہب سمجھنے سے قاصر ہیں۔اگر ہم اقبال کی ارمغانِ
حجاز کی طویل نظم ابلیس کی مجلسِ شوری کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو اس
حقیقت کے منکشف ہونے میں ایک ثانیا بھی نہیں لگے گا کہ اسلام سے دوسرے
مذاہب کی دشمنی کی بنیادی وجہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی وہ محبت ہے جو مسلمانوں
کو ہر شہ سے زیادہ عزیز ہے اور جسکی خاطراپنی قیمتی ترین متاع کو قربان
کرنا وہ اپنے لئے باعثِ صد ا فتخار سمجھتے ہیں۔ دوسرے مذاہب مسلمانوں سے
اسی محبت کو چھیننے کی کوشش میں ہیں اور بقولِ اقبال جس دن محبت کی یہ دولت
چھن گئی اس دن اسلام کی عظیم الشان عمارت زمین بوس ہو جائےگی کیونکہ اسلام
کی ساری عظمتیں ، شان و شوکت اور حقا نیت سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت سے
مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کے مغربی میڈیا سرکارِ دوعالم ﷺ کی ذات کے خلاف دریدی
د ہنی کا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن جب خدا نے خود کہہ دیا کہ جس نے میرے
محبوب محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور پھر رَفَعنا لَکَ ذِکرَک
کی قرآنی آئیت کی وساطت سے سرکارِ دو عالم ﷺ کو معراجِ انسانیت کی وہ مسند
عطا کی جو وہم گمان و خیال کی سرحدوں سے ماورا ہے۔ابلیس اپنے مشیروں سے
مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اگر مسلما نو ں کو ختم کرنا ہے تو پھر روحِ محمد اس
کے بدن سے نکال دو ۔ابلیس کے چیلے چانٹے حیلے بہانوں سے اسی کوشش میں جٹے
ہو ئے ہیں لیکن سرکارِ دو عالم ﷺ کے چاہنے والے ان کے مکروہ عزائم کو ناکام
بنانے میں لگے ہو ئے ہیں۔ ابلیسی سوچ کے حامل مسلمانوں کو جبر ا ´ مذہب کی
تبدیلی پر مجبور کرتے رہتے ہیں اور ان کے انکار پر ان پر ظلم و تشدد کا
بازار گرم کرتے ہیں۔برما کی موجودہ سفاکیت کو بھی اسی پسِ منظر میں
دیکھاجانا ضروری ہے ۔۔
نائن الیون کے بعدمسلما نوں پر دوسرے مذاہب کی یلغار اور مہم جوئی ایک
حقیقت ہے جس کا واحد مقصد مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنا ہے۔مذ اہب ِعالم کے
درمیان جنگوں کا ذکر میرے آج کے کالم کا موضوع نہیں ہے لہذا ا س پر اظہارِ
خیال نہیں کرونگا ۔میرا آج کا موضوع یہ ہے کہ اس کرہِ ارض پر مسلمانوں کے
ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف شدت پسندی
اور ظلم و جور میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بہانے عراق،
افغانستان اور پھر لیبیا میں جسطرح امریکی مداخلت نے خون کی ندیاں بہائی
ہیںو ہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔ انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بھارت
کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کا جسطرح بے رحما نہ قتل کر رہا
ہے اس پر عالمی ضمیر کو بیدار ہو کر بھارت کو اس گھناﺅنے جرم سے روکنا
چائیے لیکن دنیا کا کوئی ملک بھی نہتے کشمیریوں کی اس جنگ میں انکا ساتھ
نہیں دے رہا۔حریت پسند کشمیری بھارتی ظلم و جبر کا شکار ہو رہے ہیں اور
دنیا کا ضمیر خا موش ہے۔پاکستان گاہے بگاہے اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو
اٹھا تا رہتا ہے لیکن سپر پاور کی منشا اور مرضی کے بغیر دنیا کی دیگر
اقوام اس مسئلے پر کوئی سخت موقف اختیار کرنے سے گریزاں ہیں جس سے بھارت کے
حوصلے مزید بلند ہو تے جاتے ہیں اور اسکی سفاکیت میں شدت آتی جا رہی
ہے۔سوال صرف کشمیر کا ہی نہیں بلکہ خود بھارت میں مسلمانوں کو کوئی تحفظ
حاصل نہیں ۔ بہت سی ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتلِ
عام معمول کے وا قعات بن چکے ہیں۔اس معاملے میں گجرات ساری ریاستوں پر بازی
لے چکا ہے جس میں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوئی
ضمانت نہیں ہے ۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھار ت میں مسلمانوں
کے ساتھ امتیازی سلوک میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے لیکن بھارتی میڈیا اس
امتیازی سلوک کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا بلکہ ایک ایسے جمہوری اور
سیکو لر بھارت کا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جس میں سارے شہریوں کو
برابر کے حقوق حا صل ہیں جو کہ با لکل جھوٹ اور حقائق کا منہ چرٓانے کے
مترادف ہے۔ دنیا کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ بھارت منافقانہ روش کا اظہار
کر رہا ہے کیونکہ اسکے ہاں اقلیتوں کے ساتھ ظلم و جبر ہو رہاہے اور یہی
بھارت کا اصلی چہر ہ ہے۔
بھارت کے اسی مکروہ اور بیہمانہ کردار سے شہ پا کر برما بھی اسی راہ پر چل
نکلا ہے جسے بھارت کئی دہائیوں سے اپنائے ہوئے ہے۔مسلمانوں کے خلاف برما نے
جسطرح ننگی بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اسکی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔
ہزاروں انسانوں کا قتل ایک ایسا شرمناتک فعل ہے جس پر انسانیت تڑپ اٹھی ہے۔
امن پسندی، انسان دوستی، عدمِ تشدد اور انصاف پسندی جیسے خوشنما نعروں کے
پیچھے چھپا بدھ مت مذہب بالکل ننگا ہو گیا ہے۔بدھ مت کا روحانی پیشوا بدھا
اپنے پیرو کاروں کی طرف سے انسانیت کو شرما دینے والے جرائم کے ارتکاب کے
بعد اپنا چہرہ چھپائے رو رہا ہو گا کہ اس نے امن و محبت کا جو پیغام دیا
تھا اسکے پیر و کاروں نے اسکی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔بے گناہوں کے خون
سے ہاتھ رنگنے والی قومیں کبھی بر گ و بار نہیں پاتیں لہذا برما کی تباہی
بھی یقینی ہے۔ یہ کس طرح عمل میں آئےگی ابھی اسکے بارے میں کچھ بھی کہنا
قبل از وقت ہے لیکن تاریخ کا فیصلہ یہی ہے کہ معصوموں کا لہو بہانے والی
قومیں ایک دن صفحہِ ہستی سے مٹ جا یا کرتی ہیں۔عالمی ضمیر اس بے رحمانہ قتل
پر مکمل طور پر خاموش ہے کیونکہ قتل کا نشانہ بننے والے مسلمان ہیں۔اقوامِ
متحدہ نے بھی اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ امریکہ کو جب اپنے مقاصد کے
مراحل درپیش ہوتے ہیں تو اس وقت وہ یو این او کے کان مر وڑ کر قرار دادیں
منظور کروا لیتا ہے لیکن آج جب نہتے مسلمان برمی فوجیوں کی سفاکیت کا شکار
ہو گئے ہیں اور ہزاروں مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں تو یو این او
کوبے گناہوں کے قتلِ عام پر سخت قرار دار کی منظوری سے برمی حکومت کو سبق
سکھانے کےلئے اس طرح کاروائی کرنی چائیے جیسی اس نے لیبیا میں کی تھی تا کہ
اسطرح کی سفاکیت کا مظاہرہ کو ئی دوسرا ملک نہ کر سکے۔بھارتی حکومت اور
میڈیاکی اس سفاکیت پر خا موشی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستانی میڈیا نے
اس واقعہ پر جسطرح مجرمانہ خا موشی اختیار کر رکھی ہے یہ بات میرے ادراک سے
ماورا ہے۔ پوری قوم میڈیا کی اس بے حسی پر ماتم کنا ں ہے اور اس کی مجرمانہ
غفلت پر اسے برا بھلا کہہ رہی ہے۔۔
چھوٹے چھوٹے واقعات پر بریکنگ نیو ز کے سٹکرز چلانے والا میڈیا اس قیامتِ
صغری پر نجانے کہاں رو پوش ہو چکا ہے جس پر پوری قوم میں اس کی توقیر ختم
ہوتی جا رہی ہے۔ کیا مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں ہے کہ اس پر کسی احتجاج کی
بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ وقت آگیا ہے کہ میڈیا کاروباری معا ملات سے بالا
تر ہو کر انسانی حرمت کی پاسدای کےلئے انسانی ضمیر کو جھنجوڑے اور برمی فوج
کے ہاتھوں زندگیوں کے چراغ گل کئے جانے کی کاروائی کی مذمت کرے تا کہ
انسانیت مز ید تباہی سے بچ جائے۔ امتِ مسلمہ کو برما کی اس ناپاک جسارت پر
کھل کر سامنے آنا ہو گا۔ کیا اسلامی کانفرنس کا مقصد صرف گفتند،نشستند اور
بر خا ستند تک محدود ہے یا اسے مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کا حساب بھی
رکھنا ہے۔ قدرت نے اسلامی دنیا کو بے شمار وسائل سے نواز رکھا ہے لہذا یہ
اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ
کرے اور مسلمانوں کی حفاظت کےلئے اپنے تمام ذرائع برو ئے کار لائے۔دنیا کی
پہلی ایٹمی قوت اور خادم الخرمین کے سامنے امتِ مسلمہ کے افراد سے مقتل کو
سجایا جا رہے لیکن وہ احتجاج تک بھی نہیں کر رہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے
کہ راجہ داہر کے ظلم و ستم کے خلاف اسلام کی ایک بیٹی کی پکار پر حجاج بن
یوسف نے محمد بن قاسم کی سر براہی میں ایک فوجی دستے کو سندھ روانہ کیا تھا
تاکہ اسلام کی اس بیٹی کو بت پرستوں اور ظا لموں سے رہا کروایا جائے۔ محمد
بن قاسم کی سندھ میں آمد شرک و بت پرستی کے اس گہوارے میں اسلام کی آمد کی
نوید بنی جس سے یہ دھرتی توحید کے نعروں سے گونج اٹھی۔ایک بیٹی کی پکار
سننے والی امت آج ہزاروں لوگوں کی موت کی چیخیں سننے سے اندھی اور بہری
کیوں ہو گئی ہے۔ کیا ہما رے سینوں میں اسلام کی محبت گہنا گئی ہے یا ہمارے
دلوں نے اسلام کے نام پر دھڑکنا بند کردیا ہے؟ |