دنیا کی چکا چوند کرنیں ،چمکتی
دمکتی چیزیں ،راحتوں آسائشوں سے مزین خوبصور ت معاشرے ،سائنس وٹیکنالوجی کے
حیر ان کرنے والے نت نئے کرشمے ،بلندوبالا دیدہ زیب عمارتیں ،آسمانوں پر
کمندیں ڈالنے والے اور انسانیت کی خدمت کرنے والے یہ شاہین یونہی نہیں بنے
بلکہ اس کے لیے صدیوں آگ کی بھٹی میں جلنا پڑ ا ،طر ح طرح کی آزمائشیں
جھیلنا پڑیں ،علمی تشنگی دور کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں پھر
جاکر آ ج کی رنگارنگ اورتیز دنیاوجود میں آئی۔دنیا میں جتنے قومیں ترقی
یافتہ بنیں اورجتنے لوگ عظیم کارنامے سر انجام دے کر سر خرو ہوئے ان کی
ترقی اور کامیابی کا راز محنت اور علم دوستی میں مضمر ہے۔یہ دونو ں ایسے
ہتھیا ر ہیں جن کے بغیر انسان نامکمل نظر آتا ہے۔
محنت اورعلم کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ،یہ ایک ایسی دولت ہے جسے پانے کے
لیے غریب بھی جدوجہد کرتاہے اور امیر بھی سر دھڑکی بازی لگاتاہے،مسلما ن
بھی اپنی پیاس بجھانے کے لیے اس بحرِبیکراں میں غوطہ زنی کرتاہے اور کافر
بھی جواہرات ڈھونڈنے کے لیے دن رات ایک کرتاہے۔علم ایک ایسا فن ہے جو زندگی
بھر انسان کا ساتھ دیتاہے،مشکل میں کام آتاہے اور انسانیت کی تعمیر
کرتاہے۔پرامن ،خوبصورت معاشرے کی بنیاد اسی سے پڑتی ہے اور جہاں سے ظلمتوں
اور تاریکیوں کے بادل بھی اسی سی چھٹتے ہیں۔دنیا کی امامت اور کائنات کی
تسخیر علم کے بغیر ناممکن ہے یہی وجہ ہے علم کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا
بلکہ وہ کاالانعام شمار ہوتاہے۔ جن قوموں کا اورڑھنا بچھونا علم ہے وہ آج
زمانے کی زمام ِاقتدار سنبھالے ہوئے ہیں ۔ایک چائنا ہی کی مثال دیکھ لیں!آپ
کودنیا کے ہر کونے ،ہرملک ،ہر شہر ،ہرمحلے اورہر دوکان پر” میڈاِن چائنا
“سے کنندہ پروڈکٹ ضرور ملیں گیں۔اعلی سے اعلی اور گھٹیا سے گھٹیا ،معیاری
اور غیر معیاری ،اسلامی غیر اسلامی ہر طرح کی چیزیں چین پید اکر رہا ہے ۔مسلمان
ہوں یا عیسائی ،یہودی ہوں یا ہندوں ہر مذہب اور ہر رنگ کے لوگ ان اشیاءمیں
چین کے غلام ہیں ،دنیا کے امیر ترین ممالک اورامریکہ جیسے نام نہاد”سپر
پاور“اپنی آزادی جیسے اہم دن کے موقع پر جشن منانے کے لیے آتشبازی کا سامان
چین سے منگواتے ہیں۔مختصر عرصہ میں بلکہ یوں کہنا باالکل بجاہے کہ راتوں
رات آسمانوں پر پہنچنے والے اس ملک نے اتنی بڑی کامیابی” علم “کے ذریعہ
حاصل کی ،یہی وجہ ہے چین کا شمار دنیا کی پڑھی لکھی قوموں میں ہوتاہے۔محنت
اور علم دوستی کی بدولت چینی قو م مستقبل میںدنیا کے بڑے بڑے فرعونوں کو
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردی گی۔
دنیا کے اکثر ممالک تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ،بہتر سے بہتر سہولیات
مہیا کرتے ہیں ،دنیا میں دو شعبے ایسے ہیں جن پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے اور
بجٹ کا وافر حصہ خرچ کیا جاتاہے ”دفاع اور تعلیم“، اگر یہ دونوں شعبے مضبوط
ہوں تودشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ نکالنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔ بد
قسمتی سے! ہمار ے ہا ں تعلیم پر خصوصی توجہ تو درکنار” توجہ“ بھی نہیں دی
جاتی یہی وجہ ہے 64سال گزرنے کے باوجود بھی ہمار اتعلیمی نظام غیر معیاری
ہے ،سرکاری سکولوں اورکالجز میں بھاری بھر کم تنخواہ لینے والے اساتذہ کے
ہوتے ہوئے سرکاری اداروں کی کارکردگی ہر سال تشویشناک ہوتی ہے۔ اگر کبھی
کسی کو خیال آ بھی جائے تو وہ تعلیم کے نام پر فضول چیزوں کی ترویج اور
اغیار کی سوچ کو ملک میںنافذکرنا چاہتاہے،اس کااندازہ اسلامی نصاب کے اخراج
کے معاملے اور لیپ ٹاپ سکیم سے لگایا جاسکتا ہے۔جہاں تک رقم خرچ کرنے
کامعاملہ ہے ،تو وہ اول پر شدومد کے ساتھ خرچ کی جاتی ہے لیکن ثانی پر
مناسب خرچ نہیں کی جاتی اگر کچھ کی بھی جائے تو وہ کرپشن کی نظر ہوجاتی
ہے۔یہی وجہ ہے آج امیر غریب میں تضاد اور دوریاں بڑھتی جارہی ہیں ،صلاحیتیں
ضائع ہورہی ہیں ،بیروزگاری اور جرائم میں اضافہ ہورہاہے ،ملک زبوں حالی کا
شکار ہے ۔لوڈشیڈنگ ،مہنگائی جسیے اذیت ناک مسائل بڑھ رہے ہیں،نااہل اور
کرپٹ لوگ اہم اور معزز عہدوں پر براجمان ہیں ۔حکومت کی ناقص تعلیمی پالیسوں
کے باعث اس سال میٹرک امتحانات میں کامیاب ہونے والے 135674امیدواروں میں
سے 55674امیدارسرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہیں گے اور
پرائیوٹ اداروں کے” مہنگی چھری تلے “کٹتے رہیں گے کیونکہ سرکاری ادارے اتنے
طلبہ کی کھیپ سمونے کی طاقت نہیں رکھتے،یہ توآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے
صوبہ کاحال ہے باقی ماندہ علاقوں میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
پاکستان میں جتنا ٹیلنٹ غریب طلباءکے پاس ہے اتناصاحب ِثروت طلبا ءکے پاس
نہیںاس خبر سے اس کا اندازہ بخوبی ہوجاتاہے کہ کچرہ چننے والے طالبعلم نے
میٹرک امتحان میں دوسری پوزیشن لی اورفیصل آباد میں سماعتوں سے محروم طالبہ
نے بھی ٹاپ کیا۔لیکن وسائل اورمسائل کے باعث ان غریب طلبہ کی صلاحیتیں ضائع
ہوجاتی ہیںاور یہ ملک کے لیے کچھ کرنہیں پاتے ۔
اگرآج بھی حکومت علم دوست پالیسیاںبنانے کا اہتمام کرے ،سستی بس سروسسز،لیپ
ٹاپ سکیموں کی بجائے سستے او ر معیاری سکول،کالجز بنانا شروع کردے۔، سرکاری
اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کی کڑی نگرانی شروع کردے اورملک میں یکساں
نظام تعلیم رائج کردے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے،پاکستان دنیا کی
امامت کرسکتاہے، دنیاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتاہے ،اپنی
ضروریات میں خود کفیل ہوسکتاہے لیکن۔۔۔۔۔ملک کے ”معزز“لوگوں کوعدلیہ سے
محاذآرائی اورمفادات کی خاطر ایک دوسرے کو نیچادکھانے سے ”فرصت “تو
ملے!ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہیے !جوہم سے ۱یک سال بعد آزاد ہو ا ،لیکن
مختصر عرصے میں دنیاکی مضبوط شہ رگ بن گیا۔ |