کسی زمانے میں ہمارے معاشرے میں
ڈاکٹرہونا بہت فخر کی بات ہوا کرتی تھی اور لوگ اپنے بچوں کو بچپن سے ڈاکٹر
بنانے کے سپنے دکھایا کرتے تھے- خود مجھے یاد ہے جب میں نے آٹھویں جماعت کا
امتحان پاس کیا تو میرے مرحوم والد کی بڑی خواہش تھی کہ میرا بیٹا سائنس
پڑھ کر ڈاکٹر بنے جب میرے نمبر کم آئے تو والد نے اس دن باقاعدہ چپل سے
میری وہ " عزت افزائی " سے کی جو برسوں گزرنے کے بعد بھی آج تک مجھے یاد ہے
-- بات کہاں سے کہاں تک نکل گئی ہمارے معاشرے میں ڈاکٹروں کی اب بھی بہت
عزت ہے چونکہ اب تو ان کے پاس پیسہ بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن عزت وہ نہیں رہی
جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی کیونکہ اب دیگر شعبے بھی آگئے ہیں اسی باعث
اب والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنوانے کے بجائے دیگر شعبوں کی طرف بھیجنے کی
ترغیب دیتے ہیںجبکہ اب جس صورتحال سے ہم دوچار ہیں پاکستانی والدین اپنے
بچوں کو باہر بھجوانے کے چکر میں ہیں کہ کم از کم امن و سکون کے ساتھ ان کے
بچے تو رہ سکیں گے اور انہیں روزگار کے مواقع بھی مل سکیں گے-جس طرح ہمارے
دیگر شعبوں کے لوگ عوام کی خدمت کررہے ہیں ایسے ہی ہمارے ڈاکٹر برادری نے
بھی عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیا ہے ہم اپنے صوبے میں ڈاکٹرمریضوں کا کیا
حال کرتے ہیں اس کا اندازہ آپ کو اس وقت ہوتا ہے جب آپ کسی سرکاری ہسپتال
میں علاج کیلئے جاتے ہیں جہاں پرمریض صاحب بہادر کا انتظار کرتے نظر آتے
ہیں اور اگر خوش قسمتی سے کوئی ڈاکٹر ہسپتال میں نظر آتا ہے تو ان کے پاس
میڈیکل ریپس کی فوج ظفر موج دکھائی دیتی ہیں جو انہیں اپنے مختلف دوائیوں
کے سمپل غریب غرباء پر آزمانے کیلئے اپنی کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں-
گذشتہ رات ایک افطاری میں میڈیسن فروخت کرنے والی ایک ادارے کے ریجنل مینجر
سے گفتگو ہوئی بقول ان کے ہمارے میڈیکل رپیس کے شعبے میں سب سے بھوکے
ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ان
کیلئے کلینک لیا جائے اوراگر کلینک ہے تو کلینک کی فرنشنگ فارما کمپنیوں سے
کرائی جاتی ہے کلینک میں اے سی سے لیکر میز اور دیگر اشیاء تک میڈیسن
کمپنیاں فراہم کرتی ہیں جس کے بدلے میں یہی ڈاکٹرز ہمیں یہ کہتے ہیں کہ آپ
اس سے بے غم ہو جائیں کہ آپ کی میڈیسن کیسی ہے ہم آپ کی "سیلز " آسمان تک
پہنچائیں گے لیکن ہمیں آپ "خوش رکھیں " بقول ان صاحب کے کاغذوں کے پیڈ سے
لیکر بال پوائنٹ اور دیگر اشیاء تک یہ سب چیزیں لیتے ہیں -ان صاحب کے بقول
اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر لیول کے ڈاکٹرز یہ ڈیمانڈ فارما کمپنیوں سے غیر
ملکی دوروں کی ڈیمانڈ کرتے ہیںاور اب تک یہ دورے برطانیہ ` امریکہ اور
مختلف یورپی ممالک تک پہنچ گئے ہیں ریجنل مینجر صاحب نے مجھے یہاں تک بتایا
کہ پہلے ڈاکٹرفارما کمپنیوں سے صرف اپنے لئے ٹورز ارینج کرنے کا مطالبہ
کرتے تھے جبکہ اب تک پوری فیملی وزٹ کا مطالبہ ہوتا ہے اور ہم ان کا مطالبہ
پورا کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمارے مطالبات پورے کرتے ہیں اسی طرح ہمارا
کاروبار چل رہا ہے اور میڈیسن کی سیلز میں اضافے کی وجہ سے میرے سیلز میں
اضافہ ہورہا ہے اور کمپنی مجھ سے خوش ہے اور میری تنخواہ میں بھی مسلسل
اضافہ ہورہا ہے -
سرکار کے ہسپتال میں تو صرف سرکار کا علاج ہوتا ہے جہاں پر لاکھوں کے بل
بھی ہمارے نمائندے اپنی بیماری کا علاج عوام کے منہ سے نکالے گئے زبردستی
کے پیسوں سے کراتے ہیںیقین نہ ہوں تو کبھی غلطی سے پشاور کے مختلف سرکاری
ہسپتالوں میں "ایلیٹ کلاس کیلئے " بنائے گئے بلاکوں میں جا کر دیکھ لیں
غریب لوگ تو زندہ باد اور مردہ باد کیلئے پیدا ہوئے اس لئے اگر اپنے علاج
کیلئے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں پر تعینات ڈاکٹرز اول تو
انہیں لفٹ نہیں کراتے اور اگر لفٹ کرائے بھی تو انہیں سیدھے اپنے کلینک
بھجواتے ہیں جہاں پر وہ ان غریبوں کا چمڑہ نکالنے کی اپنی پوری سعی کرتے
ہیں -کہنے کو تو یہ لوگ ڈاکٹر ہوتے ہیں لیکن یہ ہمارے معاشرے کے قصائیوں سے
بھی بڑھ کر ہیں- ان کے پرائیویٹ ہسپتال ہمارے جیسے لوگوں کے دم سے چلتے ہیں-
گذشتہ دنوں میرے چھوٹے بیٹے بیمار ہواپہلے تو مقامی طور پر ڈاکٹر کو دکھایا
بعد ازاں مجبورا حالت خراب ہونے پر ڈبگری گارڈن کے ایک پرائیویٹ ہسپتال کا
رخ کرلیا وہاں پر سفارش اور تعلق کی وجہ سے چھ سو روپے پرایک سپیشلسٹ ڈاکٹر
نے میرے بیٹے کو چیک کیا اور بعد ازاں کہا کہ اسے ایک دن کیلئے داخل کرائو
- جس کمرے میں مجھے بھیجا گیا کہنے کو تو وہ پرائیویٹ تھا لیکن اس کے بیڈ
کی بدبو سے برا حال تھا جب اسے تبدیل کرنے کو کہا کہ بچے ویسے بھی بیمار ہے
اگر یہاں پر بچے کو لٹانا ہے تو پھر کم از کم کشن تو صاف کروا دو اس دوران
ایک صفائی والی آگئی موصوفہ کہنے کو تو صفائی والی تھی لیکن اس نے ناخن
ایسے سٹائل سے بنائے ہوئے تھے کشن اور کور تبدیل کرنے کے بعد مجھے کہا کہ
میں خالہ ہوں اور مجھے " خرچہ پانی "دے میں نے کہا کہ میری خالہ تو نہیں
ویسے میرے پاس خرچے پانی کیلئے پیسے نہیں تو اس نے میرا یوں جائزہ لیا جیسا
میرا اس سے رشتہ ہونے جارہا ہو-خیر پھر بیٹے کے ہاتھ میں کینولہ لگانے کا
کہا گیا اسے آپریشن تھیٹر ایک نرس جو کہ تھی نہیں لیکن اپنے آپ کو کہہ رہی
تھی لے گئی اور کینولہ لگانے کے بعد دو سو روپے اس کی فیس کا مطالبہ کردیا
میں نے اس سے کہا کہ میں لینڈ لارڈ کا بیٹا نہیں ہوں اور ویسے بھی یہاں میں
عیاشی کیلئے نہیں آیا اپنے بیٹے کا علاج کرنے کیلئے آیا ہوں پھر جب میں نے
ڈاکٹر کو شکایت کردی تو اس نے کہا کہ " خیر ہے کچھ گزارا آپ کریں " یعنی
مجھے لوٹا جارہا ہے اور ڈاکٹر مجھے کہہ رہا تھا کہ خیر ہے یہ تم لوٹ لے
لیکن تم کوئی شکایت نہ کرو- پھر علاج کے بعد جب ڈاکٹر نے میڈیسن کی لمبی
فہرست دی اس فہرست کے مطابق بازار میں پتہ کیا تو تقریبا چار ہزار روپے کی
ادویات تھی میں نے ہسپتال کے ایک جاننے والے ڈاکٹر کو دکھلائی تو اس نے کچھ
"دوائیوں کو " سفارشی قرار دیکر اسے خریدنے سے منع کردیا اور کہا کہ اس کی
ضرورت نہیں اور تقریبا پندرہ سو روپے کی ادویات غیر ضروری مجھے دی گئی تھی
- یہ میں نے اپنے ساتھ پیش آنیوالا واقعہ بیان کردیاہمارے ارد گرد یہ سب
کچھ ہورہا ہے لیکن ہم لوگ شکایت نہیں کرتے اور ڈاکٹرز مختلف طریقوں سے
ہماری آپریشن کررہے ہیں -
پشاور میں ڈبگری گارڈن واحد جگہ ہے جہاں پرائیویٹ ڈاکٹروں کے کلینک ہے اور
یہاں پر روزانہ ڈاکٹرز لاکھوں کا کاروبار کرتے ہیں لیکن یہاںپلازوں میں
مریضوں کی گاڑیوں کیلئے رکھنے کیلئے جگہ مختص ہے اور نہ یہاں پر آنیوالے
مریضوں کو بنیادی سہولیات تک فراہم ہیں -سخت گرمی میں بزرگ خواتین بچے اور
بوڑھے ان پلازوں میں کیسے خوار ہوتے ہیں یہ دیکھنے کا معاملہ ہے جبکہ لوگ
صحت سے متعلق معاملات کو چیک کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کی اپنی "صحت "تو
بہت بہتر ہیں کیونکہ "انہیں خرچہ پانی "ملتا ہے اس لئے وہ قصائیوں کی طرح
لوگوں کو ذبح کرنے والے افراد کی چیکنگ نہیں کرتے اسی وجہ سے یہاں پر جعلی
ڈاکٹرز بھی پیدا ہوگئے ہیں جو اپنے ہی طرح سے آپریشن میں مصروف عملے ہوتے
ہیں-جبکہ جو نمائندے ہمارے صحت کے محکمے کے ذمہ دار ہیں وہ موصوف ہسپتالوں
میں" جیالوں "اور اپنے "رشتہ داروں " کی بھرتی میں مصروف عمل ہیں اسی باعث
انہیں نہ تو ڈاکٹروں کے ظلم نظر آتے ہیں اور نہ ہی غریب عوام کی ابتر
صورتحال ` کیونکہ موصوف خود بھی عوامی حکومت میں " مزے " لینے میں مصروف
عمل ہیں- |