برما سانحہ:عصبیت کی بدترین مثال اور میڈیا کی بے بسی یا بے حسی؟؟

تین سو سے زائد مساجد بند، تلاوت ِقرآن پاک ملک سے غداری اور اذان وسحر وافطار کے اعلانات پر پابندی

کیا برما میں مارے جانے والے انسان نہیں ؟؟یا پھر یہ مسلمان ہے اس لئے خاموشی ہے؟

اسلامی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلایا ہے۔جن کی سرخی اب بھی ہمیںحق وباطل کے مابین معرکہ آرائیوں کی گواہی دے رہی ہے۔بیت المقدس میں عیسائیوں نے حیوانیت ودرندگی کا وہ خونی کھیل کھیلا تھا جس کو پڑھنے کے بعد آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،اُندلس(اسپین)کی سرزمین کی لرزہ خیز داستان بھی روح کو تڑپا دینے والی ہے،ہلاکو اور چنگیز کی فتنہ سامانیاں اب بھی دل ودماغ کو جھنجھوڑے ہوئے ہے،گجرات میں مسلم نسل کشی اور مسلم خون سے کھیلی گئی ہولی کی رنگت اب بھی جیسے تروتازہ ہو،عراق سے اٹھتا ہوا دھنواں اب بھی آسمان کو سیاہ کئے ہوئے ہے،افغانستان کی دھرتی سے اڑنے والا گردوغبار تھمنے بھی نہیں پایا کہ اب ایران کو آنکھ دکھائی جارہی ہے اور مسلم سائنسدانوں کو درپردہ اغواءکرکے قتل کیا جارہا ہے گویا کہ کفر کی تمام تر قوتیںیکجا ہوکر بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر جھپٹ رہی ہیں۔

۳جون سے لے کر اب تک برما(میانمار )میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے قیامت نما واقعات نے حسّاس مسلمانوں کی آنکھوں سے نیند اڑادی ہے۔برما(میانمار)جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کا رقبہ 676577مربع کلومیٹر اور آبادی چارکروڑ اسی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے یہاں پر 80%بدھ مت کے پیروکار اور بیس فیصد دوسرے مذاہب کے لوگ قیام پذیر ہیں جن میں زیادہ تر آبادی مسلمانوں کی ہے جن کی تعداد 1996ءکی مردم شماری کے مطابق تقریباََ 50لاکھ ہے۔برما میںچند دنوں میں بیس ہزار سے بھی زائد مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا، ہزاروں مسلمانوں کوزندہ جلا دیا گیا،500بستیاں جلا کر خاک کردی گئیں،ہزاروں نوجوان تاحال لاپتہ ہے اور کئی ہزار لڑکیاں اجتماعی جنسی تشدد کا شکار ہے۔برما کے مسلمان ماہ رمضان کا استقبال اس حالت میں کررہے ہیں کہ انھیں اپنی جان ،مال اور آبرو لٹنے کا خوف ہے اور مذہبی آزادی کی صورت حال یہ ہے کہ ”اراکان“ کی تین سو مساجد میں نمازیوں پر پابندی ہے۔گھروں میں بھی تراویح میں قرآن پاک سناناملک سے غداری اور سازش قرار دیاگیا ہے جس کی سزا قتل یا اغواہے۔ اس قیامت خیز واقعہ کے بعد نام نہاد امن کے ٹھیکیدار UNOکہاںہے؟؟ ۶۵مسلم ممالک کے حکمراں کون سی نیند سوئے ہے؟؟آزاد میڈیا کیوں گُم سُم ہے؟؟کیا برما میں مارے جانے والے انسان نہیں ؟؟یا پھر یہ مسلمان ہے اس لئے خاموشی ہے؟
یہ روتی بہنیں سسکتی مائیںیہ روتی ہیں یوں ہوں گھٹائیں
یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیںیہ کن کا تازہ لہورواں ہے

برما میں کھیلے جانے والے خونی کھیل پر غیر مسلم حکومتوں اور نام نہاد امن کے دعویداروں کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے مگر پوری دنیا میں اسلامی حکمرانوں،ریاستی سربراہوں اور رہنماﺅں کی خاموشی انتہائی تشویشناک ہے۔برما میں ہزاروں عورتوں،بوڑھوں اور بچوںکے قتل عام سے دیہات لاشوں اور خون سے بھرے ہیں ۔ندی ، نالوں،سڑکوں اور جنگلوں میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی پوری پوری بستی اور دیہات مٹادیئے گئے ہے۔ساحلی پٹی پر بسنے والے مسلمانوں کو حکومتی دہشت گردی کانشانہ بنایا گیا۔اس ظلم وبربریت کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج تو دور کی بات ہے مناسب الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی جارہی ہیں ۔ خاص کر بے مقصد چیخنے،چلانے اور بریکنگ نیوز کے لیے ہر وقت مضطرب،بے چین رہنے والے آزاد میڈیانے برماکے مسلمانوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظالم پر جان بوجھ کر خاموشی اور بے حسی کی انتہا کردی ہے۔اس حد تک خاموشی اختیار کی گئی کہ اس خبر کا اعتبارومعیار مشکوک ہوکر رہ گیاہے۔وہ میڈیا جو فلمی دنیا،کھیل کود ، سماجی، معاشی، ثقافتی، تہذیبی اورعالمی خبروں سے لے کر دیہاتی سرگرمیوںتک کو پیش کرتا ہے، وہ اتنا خاموش کیوں ہے؟وہ میڈیا جو ایک بچی کے بورویل میں گر جانے پر۴۲گھنٹے براہ راست ٹیلی کاسٹ کریں وہ ہزاروں مسلم موت پر کتنا اتنا بے حس کیونکرہوگیا؟وہ میڈیا جو ایک ایکٹر کی موت پردو دن تک چیختاچلاتا رہا ہزاروں موت پر کیوں مون ورت رکھے ہوئے ہے؟کیا یہ خاموشی بے بسی ہے یاکسی منظم سازش کا حصہ ؟؟

اگر کوئی مسلمان کسی ایک غیر مسلم کو نقصان پہنچائے تو کیا میڈیا اسی طرح خاموش رہتا؟یا پھر کسی اسلامی ملک میں کوئی امریکی غائب ہوجائے تو کیا میڈیا کی آواز بلند نہ ہوتی؟وہ نیوز چینل اور وہ اخبارات جن پر غیروں کی اجارہ داری ہے اگروہ مذہبی تعصب کا شکارہوکر خاموش ہے تو مسلم اخبار مالکان کوتو صدائے حق بلند کرنا چاہئے،آخر کار مسلم میڈیا اور مسلم صحافیوںونمائندوں کے منہ پر کیوں من بھر تالا لگا ہواہے؟اب بھی اردو اخبارات اور اُردو چینلوں میں وہ دم خم ہے جس کے بل پوتے پر پوری دنیا میں موثر احتجاج برپا کیا جاسکتا ہے اور یہ احتجاج صرف ہوا میں گھل مل جانے والا نہیں ہوگا بلکہ نتیجہ خیز ہوگا۔مگر افسوس صد افسوس ان نام نہاد صحافت کے ٹھیکیداروں پر!جو اسلام اور مسلمانوں کے نام پر روزی تو حاصل کررہے ہیں مگر وقت آنے پر اسلام اور مسلمانوں پر کئے جانے والے جبروتشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کی طاقت نہیں رکھتے یا باالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ یہود ونصاریٰ کی سرپرستی اور روپیوں پیسوں کی چمک دمک لب کھولنے کی اجازت نہیں دیتی یا یہ وجہ نہیں ہے تو پھر صحافتی دنیا کیونکر خاموش اور بے حس ہے؟؟

اگر میدان سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی دم سادھے ہوئے ہے۔وہ سیاست داںجن کے عقل وشعور کایہ عالم ہے کہ جو صرف سڑک،گٹر اور بیت الخلاءکی تعمیر ہی کو مسلم مسائل تصور کرتے ہے ، وہ کیا خاک احتجاج بلند کرینگے۔کیا آج کے زمانے میں صرف یہی مسلم مسائل ہیں؟کیا مسلمانوں کا کھوتا ہوا وقار،مٹتا ہوا تشخص اور بھلا دی جانے والی شناخت کو بحال کرنا،تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا اور اپنی آواز بلند کرنا مسلم مسائل نہیں ہیں؟

آج پوری امت مسلمہ پھر کسی سلطان صلا ح الدین ایوبی کی تلاش میں ہے جو خدائے قدیر وجبار سے ڈرنے والا،انصاف کا پابند اور صاحب کردار ہو،جو مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار دوبارہ واپس لاسکے،جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی حفاظت ونمائندگی کر سکے اور جو برما سمیت پوری دنیا میں ہزاروں بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف آواز اٹھا سکے۔مسلمانوں کو چاہئے کہ تعلیمی میدان میں تیز رفتاری سے قدم بڑھائیں،معاشی اعتبار سے مضبوط ہو،باہمت سیاسی قائدین کی حمایت کریں اورعلمائے کرام سے دینی رہنمائی بھی حاصل کریں۔در حقیقت ہم نے اپنے رب کو بھلادیا اور رب نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدیا۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے۔ترجمہ:اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑدے تو ایسا کون ہے جو پھر تمھاری مدد کرے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔(سورہ آل عمران،آیت160،پارہ۴،کنزالایمان)
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675881 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More