ہمارا گھر کب تک سلامت رہے گا؟

اللہ تعالیٰ نے انسانی رشتوں کو کتنے خوبصورت انداز میں تخلیق کیا ہے اس کا اندازہ اولاد اور والدین کے رشتے کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں اور باپ کے دل میں کیسے اپنی اولاد کے لئے پیار، محبت اور خلوص اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہے کہ اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ جب ایک انسان کی شادی ہوتی ہے تو اس کا بنیادی مقصد نسل انسانی کی بقاء ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے انسانی رشتوں میں اتنی خوبصورتی نہ رکھی ہوتی تو شاید نسل انسانی کا بقاء بھی اتنا آسان نہ ہوتا۔ شادی کے بعد تمام رشتے دار خصوصاً دولہا دلہن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خوشخبری کا انتظار ہوتا ہے۔ بچے کی پیدائش سے جہاں عورت کی تکمیل ہوتی ہے وہیں خاندان کی بھی۔ بچہ پیدا ہوتے ہی گھر کا آنگن خوشیوں سے بھر جاتا ہے اور والدین اس کے مستقبل کے سہانے خواب بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ بچہ پورے خاندان اور بالخصوص ماں اور باپ کی آرزوﺅں، امیدوں کا محور بن جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں اور باپ دونوں کو اپنی فکر نہیں رہتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس تحفے کی فکر رہتی ہے جو ان پر رحمت کی گھٹا بن کر چھایا رہتا ہے۔ اپنے بچے سے پیار تو قدرتی امر ہے اور والدین کے پیار کے بھی انوکھے انداز ہیں۔ میرے والد محترم (اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر سرفراز فرمائے، آمین) ایک مرتبہ اپنے دوستوں کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ میں اس کمرے میں تین چار بار گیا اور ہر بار انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پیار کیا، ان کے ایک دوست نے پوچھا کہ یہ بچہ دس پندرہ منٹ کے وقفہ سے تین چار مرتبہ یہاں آیا ہے اور آپ اتنی جلدی اداس بھی ہوجاتے ہیں کہ اسے گلے سے لگا کر پیار کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جو خوبصورت جواب دیا وہ آج تک میرے کانوں میں رس گھولتا ہے، کہنے لگے ” یہ اگر دن میں 500 بار بھی میرے سامنے آئے گا تو میں ایسے ہی والہانہ پیار سے اس سے ملوں گا“۔ اور ماں کی محبت کا تو اندازہ ہی کوئی نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی محبت کی مثال بھی ماں کی محبت سے دی ہے کہ اللہ کو اپنے بندے سے 70 ماﺅں جتنا پیار ہوتا ہے۔

ماں باپ کی اسی محبت کی وجہ سے وہ اکثر بلیک میل بھی ہوتے ہیں، اور آج کل تو بچوں کی محبت کی وجہ سے ماں ، باپ کیا، پورا خاندان بعض اوقات جیسے ایک سولی پر لٹکا ہوتا ہے۔ چند دن پہلے کی بات ہے لاہور کے ایک علاقہ سے ایک معصوم 6 سالہ بچے ”شہروز“ کو اس کے سکول سے اغوا کیا گیا، اس کا تاوان دس لاکھ روپے طلب کیا گیا۔ بچے کے باپ نے فوراً متعلقہ پولیس سٹیشن اطلاع دی لیکن تھانےدار نے ٹال دیا اور پرچہ درج نہ کیا، منت سماجت کے بعد اگلے روز پرچہ تو درج کرلیا لیکن کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کی گئی، ظاہر ہے پولیس کے پاس ایسی فضول باتوں کے لئے وقت تو ہوتا نہیں، اکثر پولیس والے تو ”دیہاڑی دار“ ہوتے ہیں اور پھر VIP سکیورٹی، جلسے، جلوس، ہڑتالیں، اپنے حقوق کےلئے مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس وغیرہ جیسی کارروائیاں بھی تو نہایت ضروری ہوتی ہیں، ان سے فرصت ملے تو وہ عوام کی طرف توجہ دیں، قصہ مختصر اغوا کاروں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے تاوان کی رقم دس لاکھ سے پانچ لاکھ کردی۔ بچے کے والد کو حکم دیا گیا کہ وہ پانچ لاکھ روپے ایک مخصوص جگہ پر رکھ دے تو اس کا بچہ واپس کر دیا جائے گا، بچے کے والد عبدالحفیظ نے مقررہ جگہ پر رقم رکھ دی، بعد میں دوبارہ اغوا کاروں کا فون آیا کہ پانچ لاکھ میں سے سات ہزار روپے کم ہیں، اس لئے وہ سات ہزار بھی ادا کرے گا تو بچہ واپس دیا جائےگا۔ بیچارہ عبدالحفیظ ابھی مزید سات ہزار کا بندوبست کر رہا تھا کہ اطلاع ملی کہ بچے کی لاش مل گئی ہے۔ ”لاش“ کا لفظ ادا کرتے ہوئے میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے تو تصور کریں کہ بچے کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کا کیا حال ہوا ہوگا؟ ایک معصوم بچہ، جس کے دامن پر کسی قسم کے گناہ کے داغ تو کیا اس کے ذہن میں گناہ کا تصور بھی نہ آسکتا تھا، جس کے ابھی کھیلنے کے دن تھے، جو ماں اور باپ کی آرزوﺅں کا محور و مرکز تھا، جو اپنی معصوم اداﺅں سے، اپنی بے ضرر شرارتوں سے، اپنی پیاری حرکتوں سے پورے گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا آخر اسے کس جرم کی سزا دی گئی۔ ذرا تصور کریں کہ جب ظالموں نے اسے گلا دبا کر مارا ہوگا تو اس کے سامنے سب گھر والوں خصوصاً ماں اور باپ کے چہرے ہوں گے۔ وہ کتنا تڑپا ہوگا، اس نے کبھی باپ کو پکار کر کہا ہوگا ”بابا! یہ لوگ اچھے نہیں ہیں، آپ مجھے ان سے چھڑا کر لے جاﺅ“ کبھی اس نے ماں کو کہا ہوگا ”ماما! آپ کہاں ہیں؟ مجھے بھوک لگی ہے، یہ انکل گندے ہیں مجھے مارتے بھی ہیں اور کھانے کو بھی کچھ نہیں دیتے“ اس کے تو ذہن میں ابھی موت کا تصور بھی نہیں ہوگا، وہ تو ان کے سامنے شاید اپنی جان بچانے کےلئے گڑگڑایا بھی نہ ہو، مچلا بھی نہ ہو، منت سماجت بھی نہ کی ہو

ہائے او موت! تجھے موت ہی آئی ہوتی

اب سوال یہ ہے کہ ہماری پوری سوسائٹی، پورا معاشرہ کیا اسی طرح خاموش رہے گا؟ کیا ہر آدمی یہ کہتا رہے گا کہ ”خیر ہے، میرا گھر اور میرے بچے تو سلامت ہیں“ کیا شہروز پورے ملک کا بیٹا نہیں تھا؟ کیا اگر کبوتر آنکھیں بند کر لے تو بلی واپس چلی جاتی ہے؟ اور کیا ہماری حکومت اور پولیس میں اتنی بھی اہلیت نہیں ہے کہ وہ اس گھناﺅنے کام کو روک سکے؟ ان سوالات کے جواب کون دے گا؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ جہاں ایسا واقعہ ہو وہاں کےSHO کے خلاف بھی FIR درج کی جائے، اس کو بھی سزا دی جائے، ایک دو جگہ ایسا ہوگیا تو 90 فیصد وارداتیں ختم ہوجائیں گی۔ اب ہوگا یہ کہ اعلیٰ حکام اس کے وارثوں کو کچھ رقم دے کر سمجھیں گے کہ ان کا فرض پورا ہوگیا، لیکن نہیں ان کا ایسے فرض قطعاً پورا نہیں ہو سکتا۔ ذرا تصور کریں اگر خدانخواستہ بلاول کے ساتھ ایسا ہو تو صدر زرداری پر کیا گزرے، اگر حسین نواز کے ساتھ ہوتو نواز شریف پر کیا گزرے، اگر حمزہ شہباز کے ساتھ ہو تو شہباز شریف پر کیا گزرے اور خصوصاً اگر خدانخواستہ فرح ڈوگر کے ساتھ ہو تو عبدالحمید ڈوگر پر کیا گزرے؟ اب وقت آگیا ہے کہ پورا ملک بیدار ہو، سب بچے ہمارے اپنے ہیں، ان مجرمان کو بھی کڑی سے کڑی سزا ملے اور ان کا دست و بازو بننے والے سرکاری و غیر سرکاری اہلکاروں کو بھی۔ اس وقت ایک پرانے پولیس آفیسر کی بہت یاد آرہی ہے، شائد کچھ لوگوں کو یاد ہو، لاہور میں ایکSSP ہوتے تھے، حبیب الرحمن، سنت رسول بھی رکھتے تھے، ان کے دور میں اس طرح کی وارداتیں بہت کم ہوگئی تھیں، کیوں؟ اس لئے کہ وہ اکثر اس طرح کے کیسوں میں خود انصاف فراہم کر دیا کرتے تھے، کیا اب اسی دور کو واپس لانا ہوگا؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207519 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.