بھیک مانگنے کا پیشہ ہمارے ہاں
دن بدن عام ہوتا جا رہا ہے بلکہ بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا
ہے اور اس کا باقاعدہ ایک مؤثر ٹھیکیداری نظام بھی ہے۔ یہ گداگر ملک بھر کے
دیہی اور شہری علاقوں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ان میں زیادہ تعداد ایسے
گداگروں کی ہوتی ہے جو کسی معذوری کا واسطہ دے کر لوگوں کے دلوں میں ہمدردی
پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسے گداگر بھی
نظر آتے ہیں جو چھوٹے سر اور دُبلے بدن کے ساتھ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
چھوٹے سر اور دُبلے بدن والے یہ بھکاری ”شاہ دولہ کے چوہے“ کہلاتے ہیں جو
عموماً سبز رنگ کا چوغہ پہنے ہوتے ہیں جبکہ اِن کے ساتھ ایک اور فرد جو کہ
بالکل نارمل ہوتا ہے اپنی زیر نگرانی ان سے بھیک منگوا رہا ہوتا ہے۔ شاہ
دولہ ایک پیر کا نام ہے جن کا مزار پنجاب کے ضلع گجرات میں واقع ہے اور ہر
سال ان کا عرس بھی بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔شاہ دولہ کے مزار پر
بطورِ عقیدت جو بچے چڑھائے جاتے ہیں انہیں شاہ دولہ کے چوہے کہا جاتا ہے۔
اس مزار کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ جو خاندان بے اولاد ہوتا ہے یا
اولاد ہوتی ہے اور مر جاتی ہے یا پھر کسی اور سبب سے مزار پر منت مانتا ہے
اور مراد پوری ہونے کی صورت میں وہ پہلی اولاد مزار پر موجود افراد کے
حوالے کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ دولہ کے مزار پر منت ماننے والوں کے
ہاں جو پہلا بچہ پیدا ہوتا ہے وہ ذہنی طور پر تقریباً معذور ہوتا ہے، اس کا
سر بالکل چھوٹا ہوتا ہے جبکہ شکل چوہوں سے ملتی جلتی ہے اور اگر کوئی عورت
منت پوری ہونے کے بعد اپنی پہلی اولاد کو اس مزار کی نذر نہ کرے تو پھر
ساری عمر اس عورت کے ہاں ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو
والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے سبب اپنے بچوں کو بطورِ عقیدت مزار پر
موجود بھکاری مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں وہ ایسے بچوں کے سروں پر ایک
مخصوص ٹوپی نما شکنجہ (لوہے کی ٹوپیاں)چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف
ان کے سروں کی نشوونما رُک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی
کم ہو جاتی ہے اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ اب
ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے جو کہ بھیک مانگنا، کھانا اور پھر
بھیک مانگنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی
زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ساٹھ کے عشرے میں حکومت نے یہ مزار سرکاری تحویل میں لے کر
یہاں ایسے بچے لینے پر پابندی لگا دی تھی لیکن شاہ دولہ کے مزار پر آج بھی
ایسے بچوں کی کثرت سے موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ بھکاری آقاﺅں کے ہاتھوں
نہ صرف یہ کاروبار عروج پر ہے بلکہ اُنہوں نے اس حوالے سے توہمات کو بھی
زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھکاری مافیا شاہ دولہ کے چوہوں کا استحصال
کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر، گاﺅں گاﺅں بھیک منگواتا ہے بلکہ پیشہ ور
بھکاری اِن چوہوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ
ان کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور پھر جب کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے
تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک کے کونے کونے میں شاہ
دولہ کے چوہے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ آج مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے
کہ ہم بھی ساری کی ساری قوم بلکہ شاید پوری دنیا کے پسے ہوئے انسان کسی نہ
کسی معنیٰ میں شاہ دولہ کے ایسے چوہے ہیں کہ جن کے دماغوں کو ایک خاص طبقہ
نے اپنے مخصوص قسم کے سانچوں میں جکڑ کر پہلے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت
سے محروم کیا اور پھر اس کا باقاعدہ سے استحصال شروع کر دیا ہے۔
یہ استحصال کبھی سامراج کر رہا ہوتا ہے تو کبھی مذہب، سیاست، فرقہ، زبان،
نسل اور قومیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ہر ایک کے پاس اپنے اپنے مخصوص سانچے
ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کے سب اس سانچے میں فٹ ہو جائیں ۔ قیام پاکستان کے
وقت ہم پاکستانی بھی بہت صحت مند اور توانا تھے کیونکہ ہم نے ایک نظریئے کی
کوکھ سے جنم لیا تھا اور دنیا لرزہ براندام تھی کہ نہ جانے یہ قوم کیا کر
گزرے گی۔ اگر یہ قوم عالم اسلام کی قائد بن گئی تو عالم اسلام کہیں طاغوتی
قوتوں کو ملیامیٹ ہی نہ کر دے۔ پھر دنیا کے قابل ترین ذہن سر جوڑ کر بیٹھ
گئے اور انہوں نے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس قوم کو شاہ
دولہ کے چوہے بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس مقصد کےلئے انہوں نے ایک بڑے ہی
آسان اور سیدھے راستے کا انتخاب کیا اور اپنے ایجنٹوں کو اس کی حفاظت کی
ذمہ داری سونپی جبکہ صلے میں ان ایجنٹوں اور ان کی نسلوں کے مفادات کے تحفظ
کا ذمہ اُٹھایا۔ ہمارے اوپر مسلط کردہ اس مافیا کی مہربانیوں سے آج ہم
بنیادی طور پر ایک بھکاری قوم بن چکے ہیں اور دنیا میں در در بھیک مانگتے
پھرتے ہیں ۔ جس قوم نے ایک نظریئے کی کوکھ سے جنم لیا تھا وہ ایٹمی طاقت
ہونے کے باوجود پوری دنیا میں بھکاری اور گداگر کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
آج بھی ملک پر ایک استحصالی طبقہ قابض ہے اور ضرورت پڑنے پر یہ لوگ فوراً
چولا بدل لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ قومی یکجہتی کہیں نظر آتی ہے، نہ
عوام کا روٹی روزگار کا مسئلہ حل ہو پایا ہے بلکہ انہیں استحصالی نظام کے
شکنجے میں جکڑ کر عملاً زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ایسے میں عام آدمی کے
لیئے اتنے پیسے کمانا محال ہو گیا ہے کہ وہ شریفانہ زندگی گزار سکے۔ ٹیکسوں
کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور متوسط طبقہ بری طرح ان کی زد میں آیا ہوا ہے۔
ملکی نظم و نسق ایک ظالمانہ افسر شاہی کے پاﺅں تلے دم توڑ رہا ہے جو سیاست
میں روز بروز گھناﺅنا کردار ادا کر رہی ہے۔ قانونی ڈھانچے میں رخنہ اندازی
میں انتہاءکی فضاءکو اور بھی گہرا کر دیا گیا ہے۔ جدھر بھی دیکھیں بے
اطمینانی ہے، غریبوں کے لیئے بدعنوانی، خویش پروری اور لاقانونیت کا بڑھتا
ہوا وبال اب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیشنل بھکاری مافیا کے
ہاتھوں اپنے آقاﺅں کے پاس اس قوم کی آزادی، خود مختاری، انا، خودداری سب
کچھ گروی رکھی جا چکی ہے مگر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہونے کی وجہ
سے اسے خبر تک نہیں ہے۔ ہمیں بھی اب صرف دو وقت کی روٹی چاہئے، چاہے اس کی
جو بھی قیمت دینی پڑے، شاہ دولہ کے چوہوں کو بھی تو بس یہی چاہئے۔ |