دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت

 کلچر کی تعریف ((definitionکی کتاب کھولی جائے تو یہ گھتی نہایت الجھی ہوئی ہے۔اینتھروپالوجسٹ خاتون بینی ڈٹ ہویاپھر ادبی دنیا کا ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ یہ سب کہ سب ایک ہی مہ کدے کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔فرق فقط یہی ہے کہ کسی کہ میخانے کی دیواریں ترچھی ہیں تو کسی کی چوکور‘توکسی کی ٹرائینگل کی صورت اختیار کیئے ہوئے ہیں۔اسی واسطے ان کا نظریہ یہی کہتاہے کہ معاشیات‘معاشرت‘انسانوں کے آپس کے تعلقات‘ان کی قوت مدافعت وصداقت‘میوزک‘آپس کے تعلقات‘شادی بیاہ کی رسمیں ‘طرز تعمیر‘انواع واقسام کی ڈشز‘لوک گیت‘ یہ سب اور یہی کلچر ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔اسے ہم کلچر کا حصہ قرار دے سکتے ہیں ۔لیکن پورا کلچر نہیں ۔کیونکہ اہل مغرب میں سے اکثرکی سوچ فقط زندگی کے گرد گھومتی ہے اسی لیئے ان کی ”کلچر“کی تعریف بھی اسی طرح ادھوری ہے جس طرح زندگی کا ذکر موت کے بغیر ادھوراہے۔یہ بات آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ تاریخ کی کتاب اسوقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ کتاب میں مذکور انسانوں کی موت کا ذکر نہ کرے۔اورموت کے بعد کے عقائد کا تذکرہ نہ کرے ۔

چند گروہ جب مل جل کے رہتے ہیں تو ان کی عادات زندگی ایک جیسی ہوسکتی ہیں‘ان کے مصالحہ جات‘مکانات‘رسمیں گھتم گھتاہوسکتی ہیں ‘لیکن آداب بندگی ایک جیسے ہرگز نہیں ہوسکتے ۔آداب بندگی ہی ان کے درمیان لائن کھینچ دیتے ہیں ۔یعنی اتنا کچھ ایک ہونے کے باوجود‘حتی کہ انتہائی قربت ‘میل جول اور رشتہ داری کے باوجود دفنانے کے انداز ‘عقائد ‘مختلف ہی رہیں گے۔بالکل اسی طرح جیسے گندم اور چنے کی فصل ایک ہی پلاٹ میں کاشت ہو ‘انکی کھاد ‘خوراک‘آب وہوا‘زمین سب ایک ہوگی ۔(ممکن ہے بعض پودوں کی جڑیں بھی آپس میں جپھی ڈالے ہوئے ہیں ‘جیسے راج کمار اور انور کا باپ ایک ہوسکتاہے لیکن روحانی پیشوانہیں۔لیکن جب فصل کا وقت آئے گا یعنی end timeیا peak pointتو نتائج مختلف ہوں گے ۔دونوں کے آﺅٹ پٹ یکسر مختلف۔آﺅٹ پٹ یعنی گندم ‘چنا ۔جب کہ فوک میوزک(خوراک)‘کھاد(بیاہ کی رسمیں)‘پانی(لباس)‘سب ایک تھا لیکن منزل جدا جدا۔یعنی گندم الگ بوری میں اور چنا الگ میں ‘انکے خوشوں یعنی بالیوں میں سے نکلنے کے انداز تک مختلف۔ریٹ بھی مختلف ‘چکی بھی اور۔

اسی طرح جب مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو ‘کسی بھی رنگ ‘نسل سے تعلق رکھتاہو اس کی پہچان کلمہ طیبہ ہوگی۔وہ کسی بھی پلاٹ اور زمین کی پیداوار ہو ‘وہ مسلم امہ کا فرد ہی ہوگا۔آٹھ سوسال بیت چکے لیکن آج بھی برما کہ مسلمانوں کا کعبہ وہی ہے جو سعودی عرب یا کسی بھی ملک کے مسلمان کاہے۔آج ان کے ہاں بھی ویساہی رمضان المبارک ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہے۔ان کے سحروافطار بھی ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا کہ وہ روزہ کیسے رکھتے اور افطارکرتے ہوں گے ‘عید تو ان کے ہاں بھی آرہی ہے؟بچے تو انکے بھی ہیں؟ بیمار تو وہ بھی ہوں گے؟

برما کا موجودہ نام میانمارہے۔سات صوبوں پر مشتمل اس ملک کے مغربی صوبہ کا نام ارکان ہے۔”ارکان“بدھ مت کے ماننے والے مقامی لوگوں کی ایک نسل ہے جس کے نام پر صوبے کا نام رکھا گیا۔اقوام متحدہ کے مطابق اس صوبے میں مسلمانوں کی تعداد آٹھ لاکھ ہے۔جب کہ پورے برما میں مسلمانوں کی کل چارفیصد آبادی ہے۔اس صوبے میں رہنے والے روہینگا نسل کے مسلمان ہیں۔جہنیں آٹھ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی وہاں کی شہریت‘شناختی کارڈ‘اوربنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں۔

تاریخ کے ورق اگر کھولیں تو ”glass palace chronice of burma kings“ کے ورق گواہی دے رہے ہیں کہ مون بادشاہ کے دور میں یہاں byat wiپہلا مسلمان تھا۔لیکن اس کی زندگی بھی مذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھ گی۔بیت وی کے بھائی کے دوبچوں کو بھی اسی جرم کی پاداش میں زندگی سے ہاتھ دھوناپڑے۔یہ بھی رقم ہے کہ انہوں نے ”because they refused to obey the forced labour order of the king“یعنی ایک ظالم قانون ماننے سے انکار کیا لیکن ساتھ یہ بھی درج ہے کہ” may be because of their religious belief“۔یعنی ابتداءہی سے ان کومارنے کی وجوہات ان ہی کے سر تھوپ دی گئیں ۔کبھی مون بادشاہ کو ان کی طاقت کا خدشہ‘کبھی حکم نہ ماننے کا جرم‘ تو کبھی جون 2012میں زیادتی کاالزام(واللہ اعلم)۔

اسکے بعد تاریخ بتاتی ہے کہ شاہ جہاں کے بیٹے شاہ شجاع کو جب اس کے بھائی اورنگزیب نے شکست دی تو اسے ہندوستان میں جاہ پناہ نہ ملی اور بدنصیبی اُسے برما کھینچ لائی۔برما میں اسوقت سند اتھو دام کی حکومت تھی۔شاہ شجاع بحری جہاز خریدنے کا خواہش مند تھا تاکہ باقی زندگی مکہ ومدینہ کی روح پرورفضاﺅں میں گزار سکے۔اس سلسلے میں بادشاہ سے بھاری بھرکم زیورات کے بدلے معاہدہ بھی طے پاگیا۔لیکن لالچی بادشاہ کی نظر مغل شہزادے کے تمام جواہرات پرتھی۔ اس نے شاہ شجاع کی بیٹی کو زبردستی اپنانا چاہ جس نے بعد میں خود کشی کرلی۔اور شجاع کو قزاقوں نے وہاں سے بھاگنے میں مدد دی۔مغل شہزادوں نے مزاحمت کی اور وہ بھی ظلم وبربریت کا شکارہوئے۔سترہویں صدی کی اس جنگ میں جو غیرت کے نام پر تھی ‘ہر وہ شخص جو چہرے سے مسلمان لگتاتھا مار ڈالاگیا‘عورتیں ذلیل وخوار ہوکر عقوبت خانوں میں بھوک وپیاس سے دم توڑگئیں۔

پھر جب بودا پیا(bodawpaya 1782-1819) نے اقتدار سنبھالا تومسلمانوں کو ذہنی اذیت دینے کا شرمناک منصوبہ تیار کیا۔چار مشہور ومعروف مسلمان علماءکو مدعو کیا اور انہیں خنزیریعنی سور کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔جب حق پرست وبے باک علماءنے انکار کیا تو انہیں تشدد کے ساتھ مار ڈالاگیا۔برما کہ مسلمان آج بھی اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ علماءکے قتل کے بعد سات دن تک برمی سلطنت سورج سے محروم رہی۔

1978میں ملٹری آپریشن کے دوران دولاکھ کے قریب مسلمانوں جبروتشدد ‘زناسے تنگ آکر بنگلہ دیش کی جانب چلے گئے۔اسی طرح 1991-92میں بھی ہزاروں مسلمان بدھوں کے تعصب کا نشانہ بننے کے بعد نقل مکانی کرگئے۔1997اور 2001میں بھی انہیں مذہبی نفرت کا شکار کیاگیا۔جس میں سینکڑوں مسلمان تباہ وبرباد ہوئے۔

موجودہ فسادات کا آغاز اسوقت ہوا جب دس مسلمانوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیاگیا۔جب کہ برمی حکومت اس تشدد کی لہر کی بنیاد اس بات کو قرار دیتی ہے کہ تین مسلمان لڑکوں نے بدھ لڑکی کے ساتھ زناکیا اور پھر اسے قتل کردیا۔یہ بات کتنی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ اقلیت کہ ساتھ واقعے کو اس طرح نتھی کیاجائے جس طرح کوئی طاقتور گروہ مظلوم بدھوں کے ساتھ ظلم کرگیا۔اگر یہ بات حقیقت بھی تسلیم کر لی جائے تو جن لڑکوں پر یہ الزام عائد کیا گیاانہیں تو قید کیا جاچکاتھا۔پھر یہ ظلم کیوں؟ درحقیقت حکومت یہ چاہتی ہے کہ روہینگا مسلمان ملک چھوڑ جائیںاور انہیں شہریت نہ دینی پڑے۔جبکہ مسلمان برما میں اسوقت سے آباد ہیں جب برمی سلطنت کا وجود ہی نہ تھا۔

انگلش پریس ٹی وی کے مطابق موجودہ تشدد کی لہر3( جون سے 28)جون تک 650مسلمان قتل کیئے گئے ۔بارہ سولاپتہ ہیں اور اسی ہزار کو نقل مکانی پر مجبور کردیاگیا۔جبکہ نجی ٹی وی نے مختلف ذرائع کے حوالے سے سات سو بستیاں جلانے کی خبر دی ہے۔مزید یہ بتایاکہ عربی فلاحی سائٹ کے مطابق برمامیں حکومت نے فوری عدالتوں کے تحت مسلمان نوجوانوں کے خلاف مقدمات پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔جس کے نتیجے میں اب تک کئی مسلمانوں کو پھانسی دے دی گئی ہے اور سینکڑوں پھانسی کے پھندے کے انتظار میں موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔

اقوام متحدہ نے ان مسلمانوں کو ”دنیا کی سب سے بڑی مظلوم اقلیت“قرار دیاہے۔لیکن حیف ہے امن کے ٹھیکداروں پر جن کا تعلق پاکستان اور بیرون ممالک سے ہے کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔انسانی حقوق کے بیشترادارے اور فلاحی تنظیمیں واویلا نہیں کر رہیں۔شور نہیں بپا۔میرے ملک کا الیکٹرانک میڈیا بھی اتنا فعال نہیں ہوا جتنااور واقعات پر ہوتاہے۔

ایران نے کمنٹس دیئے ہیں کہ برمی مسلمانوں پر تشدد بند کیاجائے ‘انڈونیشیا اور بھارت کی مسلمان تنظیموں نے تو آواز بلند کی ہے۔۔لیکن او۔آئی سی اور باقی تمام مسلمان ملک اور پاکستان کی سیاسی ومذہبی پارٹیاں نجانے کیا سوچ رہی ہیں۔کس لمحے کے انتظار میں ہیں؟؟ ۔اب جبکہ یہ سطور لکھتے وقت عید کا تہوار سترہ ‘اٹھارہ دن کے فاصلے پر ہے برمی مسلمان لاشے اُٹھاتے نہیں ‘پہچانتے پھررہے ہیں۔سحروافطارمیں خوراک نہیں کٹے‘پھٹے مثلے ہوئے لاشے انہیں مل رہے ہیں۔(واضح رہے کہ اس کالم کی تیاری میں مختلف سائٹس‘رپورٹس کے ساتھ ساتھ وکی پیڈیا سے بھی مددلی گئی)۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188467 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.