میں جب نیٹو فوج کے تعاون
کے لیے جاتے ٹینک ،بڑی جدید مشینیں ،گنیں دیکھتاہوں ۔پھر اپنی شاہراہ فیصل
کو دیکھتاہوں ۔کیونکہ گاڑی جب ڈرگ روڈ پل کے اوپر سے گزرتی ہے تو اسٹیشن سے
یہ منظر صاف دکھائی دیتاہے ۔اب مجھے یہ کنفر م نہیں کہ واقعی ہی نیٹو فوج
کے لیے ہے یا ہماری جانباز آرمی کے لیے ۔خیر اگر یہ نہیں تو سرحد سے گزرنے
والے ان آئل ٹینکر اور دیگر خوردونوش کے سامان کو دیکھ لیں ۔جسے لیجانے میں
آج کا مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی عار محسوس نہیں کرتا۔یہ ایک سوال بار بار
میرے ذہن میں اُٹھ رہاتھاکہ مسلمان کے خلاف لڑنے والی کفار فوج کے ساتھ
ہمارا تعاون کہیں قابل تشویش تو نہیں ۔اس سے قبل کے میں اپنے تجزیے تبصروں
کی بھینٹ آپ کو چڑھادوں آئیے اہل علم سے پوچھتے ہیں ۔
علماء اسلام کا فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا جائز نہیں ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
( اے ایمان والو تم یھود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک
دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک
انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا )
المائدۃ ( 51 ) ۔
فقھاء اسلام جن میں آئمہ حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ ، اورحنابلہ اور ان کے
علاوہ باقی سب شامل ہیں نے بالنص یہ بات کہی ہے کہ کفار کو ایسی چیز بچنا
حرام ہے جس سے وہ مسلمانوں کے خلاف طاقت حاصل کریں چاہے وہ اسلحہ ہو یا
کوئی جانور اورآلات وغیرہ ۔
لھذا انہیں غلہ دینا اورانہیں کھانا یا پینے کے لیے پانی وغیرہ یا کوئی
دوسرا پانی اورخیمے اورگاڑیاں اور ٹرک فروخت کرنا جائز نہیں ، اورنہ ہی ان
کی نقل وحمل کرنا ، اوراسی طرح ان کےنقل وحمل اورمرمت وغیرہ کے ٹھیکے حاصل
کرنا بھی جائز نہیں بلکہ یہ سب کچھ حرام میں بھی حرام ہے ، اور اس کا کھانے
والا حرام کھا رہا ہے اورحرام کھانے والے کے لیے آگ یعنی جہنم زیادہ بہتر
ہے ۔
لھذا انہیں ایک کھجور بھی فروخت کرنی جائز نہیں اورنہ ہی انہیں کوئی اسی
چیز دینی جائز ہے جس سے وہ اپنی دشمنی میں مدد وتعاون حاصل کرسکیں ، لھذا
جومسلمان بھی ایسا کرے گا اسے آگ ہی آگ ہے اوریہ ساری کی ساری کمائی حرام
اورگندی ہوگی اس کے لیے جہنم زیادہ اولی ہے ، بلکہ یہ کمائی تو اخبث الخبث
کا درجہ رکھتی ہے ۔انہیں کوئی ادنی سی بھی ایسی چیز دینی جائز نہیں جس سے
وہ مسلمانوں کے خلاف مدد حاصل کرسکتے ہوں ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہیں :
اہل حرب یعنی ( لڑائی کرنے والے کافروں ) کو اسلحہ بیچنا بالاجماع حرام ہے
۔
کفار کو اسلحہ نہ فروخت کی جائے کہ کچھ بعید نہیں کل وہ اس سے ہمیں گزند
پہنچائے ۔یہ تومعلوم ہی ہے کہ اس طرح کی فروخت میں گناہ اوردشمنی میں
معاونت پائی جاتی ہے ، اوراسی معنی میں ہر وہ خریدوفروخت یا اجرت اورمعاوضہ
جو اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی میں معاونت کرے وہ بھی حرام ہے مثلا کفار
یا ڈاکووں کو اسحلہ فروخت کرنا ۔۔۔۔ یا کسی ایسے شخص کو مکان کرائے پر دینے
جو وہاں معصیت ونافرمانی کا بازار گرم کرے ۔اوراسی طرح کسی ایسے شخص کو شمع
فروخت کرنا یا کرائے پردینا جواس کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی ومعصیت
کرے یا اسی طرح کوئی اورکام جواللہ تعالی کے غیظ وغضب دلانے والے کام میں
معاون ثابت ہو ۔
ایک اور فقہی جزیہ پیش کرتاچلوں کہ :اہل حرب اورایسے شخص جس کے بارہ میں
معلوم ہو کہ وہ ڈاکو ہے اورمسلمانوں کولوٹے گا یا پھر مسلمانوں کے مابین
فتنہ پھیلائے گا اسے اسلحہ بیچنا حرام ہے ۔
حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
کسی بھی مسلمان کےلیے حلال نہیں کہ وہ مسلمانوں کے دشمن کے پاس اسلحہ
لیجائے اورانہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں اسلحہ کے ساتھ تقویت دے ، اورنہ ہی
انہیں گھوڑے ، خچر اورگدھے دینا حلال ہیں ، اورنہ کوئی ایسی چیز جواسلحہ
اورگھوڑے ، خچر اورگدھوں کے لیے ممد ومعاون ہو ۔
محترم قارئین کرام :اس لیے کہ اہل حرب کو اسلحہ بیچنا انہیں مسلمانوں سے
لڑائی کرنے میں تقویت پہنچانا ہے ، اوراس میں ان کے لیے لڑائی جاری رکھنے
اوراسے تیز کرنے میں بھی تقویت ملتی ہے ، کیونکہ وہ ان اشیاء سے مدد حاصل
کرتے ہیں جس کی بنا پر یہ ممانعت کی متقاضی ہے ۔
قارئین کرام رب تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں ان کے فتنے کو بیان
فرمادیاہے :
( اے ایمان والو تم یھود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک
دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک
انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا )
المائدۃ ( 51 )
ان تمام شواہد کی روشنی میں قارئین آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہمارا دامن
کتنا میلا اور کتنا اجلاہے ۔اپنے ضمیر کی عدالت میں یہ فیصلہ ضرور پیش
کیجیے گاجو جواب آئے اسے حتمی جانتے ہوئے نظر ثانی ضرور کیجیے گا۔اللہ
عزوجل ہمیں مسلمانوں کا معاون وممدبنائے ۔ |