دل انتہائی افسردہ اور دماغ
منتشر ہے۔چند دن پہلے ایک ایسا سانحہ دیکھا۔ جو طبیعت میں اک عجب سی بے
چینی پیدا کر گیا۔ زندگی پر پہلے ہی اعتبار کم تھا، اس سانحہ کے بعد تو
بھروسہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ یہ سانحہ ایک ’’نوجوان موت‘‘ کا تھا۔
جومیرے انتہائی قریبی عزیز کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ صرف چار دنوں کے اندر وہ
ہو گیا جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی دل و
دماغ کو یقین دلانا مشکل ہو رہا ہے کہ واقعی جو ہوا وہ حقیقت ہے، اس سے منہ
نہیں موڑ سکتے۔اس سانحہ کے بعد جب میں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ کے
یخ بستہ کمرے میں داخل ہوا تو چند مریضوں کو دیکھا جن کے سر سے لے کر پاؤں
تک مختلف نالیوں سے جکڑے جسم اور لمحہ بہ لمحہ ٹھنڈے ہوتے وجود. صرف موت کے
منتظر۔ باہر انتظار گاہ میں بیٹھے ان کے تیمارداران، مریض کو لگی مشینوں پر
وارد ہوتے ہندسوں کو صفر کی طرف بڑھتے چپ چاپ دیکھتے رہتے ہیں اور کچھ بھی
نہیں کر سکتے۔
موت ایک ایسی حقیقت جسے ہم چاہ کر بھی فراموش نہیں کر سکتے۔موت ایک ایسی
چیز ہے جو اپنا وقت مقرر کیئے ہوئے ہے کیونکہ جب موت نے آنا ہے تو اس نے
آکر ہی رہنا ہے اور اسے کوئی ٹال نہیںسکتا﴿سوائے اللہ تعالیٰ کے﴾۔اور موت
نے ہر نفس کو اپنی لپیٹ میں لینا ہے۔ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اکثر اوقات جب میں اکیلا ہوتا ہوں، تو ایک عجب سی اداسی ، ایک عجیب سا خوف
، ایک عجیب سی پریشانی ، ایک عجیب سی وحشت مجھ پہ طاری ہونے لگتی ہے کہ آخر
میرا کیا بنے گا جب موت مجھے اچک لے گی۔سوچنے لگتا ہوں کہ میں نے اپنی آگے
کی زندگی کے لئے کچھ بھی سامان نہیں کیا، کوئی تیاری نہیں کی۔ کبھی اس بارے
میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ یہ سوچ کر خود اپنے آپ سے ہزاروں سوال کرتا
ہوں مگر جواب ایک بھی نہیں ملتا اور پھر اپنے اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہوں۔
کہ آخر میں چاہتا کیا ہوں؟ کیا کرنا چاہتا ہوں ؟ کیا ہے میرے دل میں جو سب
کو بتانا چاہتا ہوں؟ مگر آخر میں یہ سوچ کر چپ ہو جاتا ہوںکہ مجھے خود نہیں
پتہ کہ میں کیا چاہتا ہوں۔
ہم میں سے اکثر لوگ صبح سویرے اپنے گھر سے نکلتے ہیں، سارا دن کام کاج میں
گزرتا ہے۔پھر واپس آ کر گھر والوں کے ساتھ تھوڑا وقت بتانے کے بعد کھانا
کھاتے ہیں۔ اور پھر سو جاتے ہیں۔بس ایک ہی روٹین چل رہی ہے ہماری زندگی کی،
اور پھر ہم ایک دن سب کچھ چھوڑ کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔موت ہمیں ایک دن
ایسی قبر میں لا ڈالتی ہے جس کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
آج کل ہر انسان اپنی اپنی زندگیوں میں مگن نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کو
جیتنے کی باتیں کرتے ہیں ، کہیں پیسے کی بات ہو رہی ہے ، کہیں گھر کی تو
کہیں گھروالوں کی، کہیںشادی کی ،توکہیں بیوی بچوں کی ، کہیں گاڑیاں خریدنے
کی ، کہیں کسی کی چغلی ہو رہی ہوتی ہے ، کہیں بے حیا باتیں ، کہیں مستقبل
سنوارنے کی ، کہیں کسی کی غیبت ، کہیں کسی کے خلاف سازشیں ، کہیں سیاسیت کی
باتیں ، کہیں مذہب سے چھیڑ چھاڑ۔ لیکن کہیں کوئی اپنی آخرت کو لے کر بات
نہیں کرتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہم کس لیے دنیا میں آئے ہیں اور کیا
کر رہے ہیںاور کیا لے کر جائیں گے۔ ساری انسانیت دنیا کو خوش کرنے میں لگی
ہوئی ہے جو کہ عارضی ہے اور اپنے رب کو ناراض کرتے جاتے ہیں جو اس پوری
دنیا کا مالک ہے۔
ہمیں اللہ تعالٰی سے ڈر کیوں نہیں لگتا ؟ ہمیں اس پاک ذات کے عذاب سے ڈر
کیوں نہیں لگتا ؟ ہمیں اس ہمیشہ رہنے والی ذات کے جلال سے ڈر کیوں نہیں
لگتا؟ ہمیں اس دو جہانوں کے مالک سے ڈر کیوں نہیں لگتا ہے جو زندگی اور موت
کا مالک ہے ؟ ہمیں اس رحیم سے ڈر کیوں نہیں لگتا جو ہر حال میں اپنے بندے
کو معاف کر دیتا ہے اگر توبہ کرے تو ؟ ہمیں اس رحمن سے ڈر کیوں نہیں لگتا
ہے جو ہمیں ہزار مواقع دیتا ہے دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے ؟ ہم یہ کیوں
بھول بیٹھے ہیں کہ جس نے ہمیں یہ زندگی دی ہوئی ہے وہ ہمیں موت دینے کا بھی
حق رکھتا ہے وہ جب چاہے کسی کو زندگی دے اور جب چاہے کسی کو موت دے دے اور
یہ موت ہمیں کب کہاں اور کیسے آجائے گی یہ ہم کبھی جان نہیںسکتے۔ موت ایک
حقیقت ہے جو جب آئے گی تو اپنے ساتھ سب بہا لے جائے گی۔ موت کسی کے کہنے پر
نہیں رک سکتی ﴿سوائے اللہ تعالیٰ کے﴾۔ جس پر موت کاجو وقت مقرر ہے اس کو
موت اسی وقت آئے گی۔ نہ ایک لمحہ آگے. نہ ایک لمحہ پیچھے۔
ہمیں ہر روز کچھ دیر تنہائی میں بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ ہم نے اپنے رب کو
خوش کرنے کے یے آج تک کیا کیا ؟ یا کیا کررہے ہیں ؟ یا آگے کیا کریں گے؟
ہمیں خود اپنی ذات پر افسوس اور دکھ کرنا چاہیے کہ اپنے رب کی عبادت اس طرح
نہیںکر پاتے کہ جس طرح اس پاک ذات کی عبادت کرنے کا حق ہے۔وہ ہمیں بن مانگے
عطا کر رہا ہے اور ہم ہر نعمت لے کر اس کی ناشکری کر رہے ہیں۔ وہ ہر لمحے
ہمارے ساتھ رہتا ہے چاہے ہم اسے پکاریں یا نہ پکاریں۔ مگر ہم اپنے اعمال کی
بدولت خود سے اپنے پیارے رب کو دور کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھاتا
ہے اور ہم ہیں کہ گمراہی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
ہمیں موت سے ڈر بھی صرف اس لئے لگتا ہے کہ ہم نے آخرت کے لئے کوئی تیاری
نہیں کی، کوئی سامان نہیں کیا، نہ کبھی اس بارے میں سوچا۔ ورنہ ایک صالح
اور متقی انسان کے لئے موت تو ایک تحفہ ہے جو اسے اس کے پیارے رب سے ملانے
کے لئے آتی ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان کو جب سوئی جیسی چھوٹی چیز بھی چبھتی ہے تو وہ
کتنی دیر تک تکلیف میں رہتا ہے اور اکثر اوقات آپ لوگوں نے غور کیا ہو گا
کہ آگ کی چھوٹی سی چنگاری لگنے سے انسان کس طرح بوکھلا سا جاتا ہے اور کتنے
دن تک جلن کا احساس ہوتا رہتا ہے لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ قیامت کے روز
جہنم کے شعلوں میں کس قدر سختی اور تیزی ہو گی۔ اگر ہم قیامت کے دن کی سختی
اور آزمائش کا یقین کامل اپنے دل میں بٹھا لیں تو صبح و شام اپنی آخرت کی
فکر لاحق ہو جائے، کھانا پینا چھوٹ جائے اور باتیں کرنا بھول جائے۔
آئیے ! رمضان کی مقدس ساعتوں میں اپنی آخرت کی تیاری کریں، اپنی قبر کے لئے
کچھ سامان کریں کیا پتہ ہم میں سے کوئی، کسی وقت بھی اس فانی دنیا کو چھوڑ
کر چلا جائے۔یا اللہ ہمیں معاف فرما دیجیے۔اپنے عذاب سے بچا لیجیے اور موت
کی فکر کرنے کی توفیق نصیب فرما دیجیے۔آمین
اپنے اعمال کو دیکھ کر مجھے یہ خیال آنے لگا ہے
کہ دوستو مجھے بھی موت سے ڈر لگنے لگا ہے
اپنی اصلاح کے لیے مجھے ہر اِک نیک کام کرنا ہو گا
اس سے پہلے موت گلے لگائے
مجھے اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا
موت کے خوف سے کانپ اٹھتی ہے روح تک میری
مانگ کر معافی اپنے رب سے مجھے اپنی زندگی کو سنوارناہوگا
بہت کر لیا خفا میں نے اپنے پیارے رب کو ساجد
توڑ کر دنیا کی ہر اک زنجیر کو اپنے رب کو راضی کرناہوگا |