انسان کی بے بسی کا اظہار اس کی
آنکھوں سے بخوبی کیا جاسکتا ہے اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے آپ کو سینکڑوں
ایسے لوگ نظر آئینگے جن کی ہزاروں مشکلات ہیں لیکن وہ مجبوریوں کے باعث بے
بس ہوتے ہیں وہ اپنی بے بسی کا اظہار نہیں بھی کرنا چاہتے لیکن ان کی
آنکھیں بے بسی کی تصویر بنی ہوتی ہیں اور اپنی بے بسی کی داستانیں سناتی
ہیں -محفل میں آپ کے سامنے ایسے لوگ بھی آتے ہونگے جن کے قہقہوں کی آواز سب
سے تیز ہوتی ہے لیکن ان کے یہ قہقہے اپنی بے بسی کو چھپانے کیلئے ہوتے ہیں
-
بازاروں میں اللہ کے نام پر سوال کرنے والوں کی آنکھوں کودیکھیں آپ کو
اندازہ خودبخود ہو جائیگا کہ کوئی کتنا بے بس ہے اور کون سوال کرنے کی آڑ
میں اپنا کاروبار کررہا ہے بے بسی کے یہ تاثرات صرف حساس دل رکھنے والوں کو
ہی نظر آتے ہیں اور اس میں کوئی چاہے کتنا بھی ڈرامہ باز ہو جھوٹ نہیں بول
سکتا-کیونکہ آنکھیں ہی انسان کے اندر کی عکاسی کرتی ہیں -
بات کہاں سے کہاں نکل گئی گذشتہ روز اس خاتون سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی
جسے ایک بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے میں دوران ملازمت جنسی ہراساں کیا
گیا اور مئی میں ہونیوالے واقعے کے اپنے ادارے میں شکایت درج کرنے کے
باوجود ابھی تک انصاف نہیں مل رہا -خاتون کی آنکھیں اپنے ساتھ ہونیوالی
واقعات پر بے بسی کا اظہار کررہی تھیں متعلقہ خاتون کیساتھ ہونیوالے واقعے
نے اسے ذہنی طور پر منتشر کردیا ہے اسے روزگار کا بھی غم ہے کیونکہ اپنے
خاندان کی اکلوتی کمانے والی خاتون ہے اور اس کے گھر کا خرچہ اس کے تنخواہ
سے چل رہا ہے خاتون کی شکایت پر اسے ڈیرہ اسماعیل خان سے جلوزئی تبدیل
کردیا گیا ہے اور آج تک اس کے اپنے ادارے میں اس کیساتھ ہمدردی کیلئے کوئی
آواز تک نہیں اٹھ رہی حالانکہ وہاں پر خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن
یہ آواز بھی کون اور کیوں اٹھائے کیونکہ ہر ایک کو اپنی نوکری کی پڑی ہوئی
ہے ہر کوئی اپنے مفادات کیلئے لڑ رہا ہے کسی کی عزت لوٹنے کی کوشش کرتا ہے
یا لٹتا ہے تو لٹتے رہے کون دوسروں کے مسائل میں اپنے آپ کو پھنساتاہے -جنسی
طور پر ہراساں کئے جانیوالی متعلقہ خاتون اپنی بے بسی بیان نہیں کرسکتی
لیکن اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ کس ذہنی اذیت کا شکار ہے -اسی طرح کا
ایک اور واقعہ بنوں میں بھی پیش آیا جہاں ایک خاتون کو اپنے ہی سسر نے تین
اور لوگوں کیساتھ ملکر زیادتی کا نشانہ بنایا بڑی تگ و دو کے بعد چاروں
گرفتار تو ہوگئے لیکن وہ خاتون آج پشاور کے ایک ہسپتال میں ذہنی مریضہ کی
حیثیت سے پڑی ہوئی ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں- یہ دو واقعات ہیں جو
باقاعدہ طور پر رپورٹ ہوئے ہیں ایسے سینکڑوں واقعات ہمارے ارد گرد ہورہے
ہیں لیکن ہم لوگوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں-ویسے بھی میڈیا کے پاس اس بے
مصرف موضوع پر پروگرام کرنے کا وقت تو ہے کہ وینا ملک کو استغفار کا حق
کیوں نہیں دیا گیا لیکن خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر یہ این جی زدہ
خواتین اینکرزچپ سادھ کر بیٹھ جاتی ہیں۔
یہ دو خبریں جہاں ہمارے ہاں خواتین کیساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی
نشاندہی کرتی ہیں وہیں یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرف
جارہا ہے ہم اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن اشرف
المخلوقات جانوروں سے بدتر ہوگئے ہیں ہمارے اعمال /افعال ہمیں کس حد تک لے
جارہے ہیں -ان واقعات سے اداروں کی کارکردگی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ دوسروں
کے معاملات خصوصاً خواتین کے حقوق کے نام پر دکانداری کرنے والے ان پر تشدد
/زبردستی کی شادی جیسے موضوعات اور خواتین کے حقوق پر نام نہاد ڈرامہ کرنے
والے غیر ملکی امدادی ادارے اس ملک کی خواتین کا کس طرح استحصال کررہے ہیں
بیرون ممالک سے آنیوالے غیر ملکی ہمارے پاکستانیوں کو تھرڈ کلاس شہری
سمجھتے ہیں - اے لیول اور او لیول پاس کرکے پاکستان میں بین الاقوامی
اداروں کے اہم عہدوں پر تعینات گورے پاکستانیوں کو گدھوں سے بھی بدتر
سمجھتے ہیں -انتظامیہ اس معاملے میں خاموش ہیں کیونکہ مانیٹرنگ اور چیکنگ
کرنے والے اداروں کے ذمہ داروں کے رشتہ دار غیر ملکی اداروں میں اہم پوسٹوں
پر براجمان ہیں اور اگروہ کوئی ایکشن لیتے ہیں تو پھر ان کے لئے مسئلہ بنتا
ہے کیونکہ سفارشی اور والدین کے عہدوں کی وجہ سے تعینات ہونیوالے لوگ جو
لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں ان کی بیروزگاری کا خطر ہ ہے -اسی باعث ان
لوگوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں - مقامی ادارے
کتنا بھی چیخے چلائے ان کے چیخنے چلانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ گوری
چمڑے والے اب بھی پاکستانیوں کو اپنا زرخرید سمجھتے ہیں- اور انہوں نے
ایلیٹ کلاس کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے سو یہ لوگ کچھ بھی کرے ان سے کوئی
پوچھنے والا نہیں-
خواتین کو جنسی طو ر پر ہراساں کرنے اور ان واقعات میں ملوث افراد کی روک
تھام کیلئے صوبائی سطح پر خاتون محتسب کا ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے سرکارکا
یہ حال ہے کہ خیبر پختونخوا میں ابھی تک کسی کو تعینات نہیں کیا گیا -حالانکہ
ہمارے صوبے میں جو خاتون اس شعبے کی ذمہ دار وزیر ہے ان کا تعلق بھی غیر
سرکاری ادارے سے ہے لیکن شائد وہ وزارت ملنے کے بعد ہر چیز بھول گئی ہیں
اور ساڑھے چار سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک ان کا دھیان نہیں گیا - خبر تو
اڑائی گئی کہ ایک خاتون جو کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بہت سرگرم ہے کو
اس عہدے کیلئے لیا جارہا ہے اور ان کا نام بھی صوبائی وومن کمیشن نے تجویز
کیا لیکن چونکہ ان کا ڈومی سائل صوبے کا نہیں تھا اسی باعث ان پر اعتراضات
اٹھائے گئے اور وہ اس دوڑ سے باہر ہوگئی تبھی وہ آج کل نجی محفلوں میں گلے
شکوے بھی کرتی نظر تی ہیں کہ اس صوبے میں کام کرنے کے باوجود بھی اس کایہی
حال ہے خیر یہ تو ان کا اپنا معاملہ ہے لیکن جب کام ہی ستائش/ مقصد کیلئے
کیا جاے تو پھر ایسے ہی گلے شکوے کئے جاتے ہیں-
ایک اچھا اقدام جوکہ عدالت عالیہ کے ہیومن رائٹس سیل نے اٹھایا ہے کہ جنسی
طور پر ہراساں کئے جانیوالی خاتون کی درخواست پر متعلقہ ادارے کو وضاحت
کیلئے نوٹس جاری کردیا ہے اوراس کیس کا نتیجہ سامنے آجائیگا - لیکن کیا
ہمارے معاشرے میں ہر کام عدالت نے کرنا ہے اس ملک کے ادارے/انتظامیہ کہاں
ہیں وہ کس لئے غریب عوام کا خون چوس کر ان پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اگر سارا
کام عدالت نے کرنا ہے تو پھر خون چوسنے والے حکمرانوں سے ہمیں نجات کی
ضرورت ہے اور اس معاملے میں ہمیں اپنی بے بسی ختم کرنا ہوگی - |