ضمیر کی طرح ڈربھی انسان کادوست
ہے ۔سزاکاڈر اورضمیرکی بیداری یاخلش انسان کوکئی گناہوں سے بچاتی ہے ۔کائنات
میں حکم عدولی کاآغاز شیطان نے کیا اورزاہدوعابدہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ
نے اسے قیامت تک کیلئے استثنیٰ دے کردھتکار دیا دوسری حکم عدولی ہمارے بابا
آدم ؑ نے کی اورانہیں بھی سزاکے طور پرجنت سے نکال کرزمین پراتاردیا گیا ۔اللہ
تعالیٰ نے راہ حق والے انسانوں کو جنت کی بشارت دی جبکہ باطل کے پیروکاروں
کو جہنم سے ڈرایا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی خطاﺅں اورلغزشوں پران
کی گرفت کی ہے اوران کاسخت امتحان لیا ہے ۔حضرت یوسف ؑ کئی برس جیل میں
اورحضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے
توبہ اور استغفاراورکفارے کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا ۔ مصیبت اورسزا کے
درمیان باآسانی فرق کیا اورسمجھا جاسکتا ہے ،اگرکسی مصیبت یامشکل کے بعدآپ
کی عزت محفوظ رہے تواس کامطلب آنیوالی مصیبت ایک امتحان تھی جوآئی
اورگزرگئی لیکن اگرکسی مصیبت کے بعد آپ کی عزت محفوظ نہیں تواس کاصاف مطلب
ہے قدرت آپ سے ناراض ہے اوراس نے آپ کوسزا دی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں
معاشرتی قدریں اورمعیاربدل گئے ہیں،اب معاشرے میں ایک دوسرے کو
کرداراورتقویٰ کی بجائے اس کے منصب ،اختیارات ،تعلقات اوراس کی دولت کی
بنیاد عزت دی جاتی ہے ۔
ہمارے ہاں کئی شخصیات سنگین جرائم میں ملوث ہونے اورجیل سے ضمانت پررہاہونے
کے باوجودمعززاورمقتدرسمجھی جاتی ہیں۔جیل میںطاقتور اورکمزورکے ساتھ مساوی
نہیں بلکہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔سناہے جیل میں قیدی پیسے سے کوئی بھی
سہولت خریدسکتے ہیں اورکمزوروں کیلئے جیل کسی جہنم سے بدتر ہے ۔جیل
میںموبائل فون اورمنشیات کااستعمال بھی ہوتا ہے۔قیدیوں پرتشدد کے واقعات
بھی منظرعام پرآتے ہیں اورکچھ قیدی بھی جیل انتظامیہ کوبلیک میل کرنے اوران
سے اپنے ناجائزمطالبات منوانے کیلئے مختلف سٹنٹ کرتے ہیںاوراخبارات میں
تصدیق اورتسلی کئے بغیرنیوزچھاپ دی جاتی ہے۔جیل میں گینگ بنتے ہیں ،جوچوری
کر کے جیل میں آتے ہیں ان میں سے کئی ڈاکوبن کررہاہوتے ہیں ۔ضرورت اس امرکی
ہے جیل میں چورکوچوروں اورجوڈاکوہے اسے دوسرے ڈاکوﺅں کے ساتھ رکھا جائے ،قاتل
کوقاتل کے ساتھ ہوناچاہئے یعنی جرم کی تفریق اورمجرموں کی جرم کی بنیاد
پرتقسیم ناگزیر ہے۔3اور16ایم پی اوکے تحت گرفتارہونیوالے افرادکو بھی عام
حوالاتیوں اورقیدیوں کے ساتھ بندکرنازیادتی ہے ۔جیل میں آنیوالے مردوخواتین
کے نفسیاتی علاج اوران کی کردارسازی کاخصوصی اہتمام کرکے انہیں معاشرے
کامفیداورکارآمدشہری بنایاجائے۔جیل میںقیدیوں کوپانچ وقت باجماعت
نمازکاعادی بنانے سے انہیںبرائیوں اورسماج دشمن سرگرمیوں سے متنفر
کیاجاسکتاہے۔
جیل میں خطرناک مجرموں کے درمیان رابطہ ،واسطہ اورتعلقات کافروغ معاشرے
کیلئے زہرقاتل ہے۔حوالاتی ہویاقیدی قانوناً اس سے ملاقات کرنے کی اجازت صرف
اس کے اہل خانہ کوہونی چاہئے ،ماں باپ ،بیوی بچے اورحقیقی بہن بھائیوں کے
سواکسی کوملنے نہ دیا جائے اورعدالت میں پیشی کے دوران بھی یہ اصول اپنایا
جائے کیونکہ جیل میں بیٹھ کر حوالاتی اورقیدی اپنے مخصوص ملاقاتیوں کے ساتھ
رابطوں کی مددسے سماج دشمن سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں جس طرح گواہان کو شہادت
سے منحرف کرنے کیلئے انہیںہراساں کرنا اور مارنا،بھتہ وصول کرنا،دوسرے گینگ
کے ساتھ رابطے اورمراسم بڑھاناوغیرہ۔جوقیدی عدالت کے حکم پربامشقت قیدکاٹ
رہے ہیں ،ان سمیت دوسرے قیدیوں اورحوالاتیوںکوبھی جیل میں کوئی نہ کوئی
ہنرسکھایااور ان سے کام لیا جائے ۔1905میں سرائے عالمگیرکی نہر جہلم جیل کے
قیدیوں نے کھودی تھی، آج سے کئی ہزارسال قبل جس وقت حضرت یوسف ؑ پابندسلاسل
تھے تو اس وقت ان سے بھی مشقت لی جاتی تھی۔پڑوسی ملک انڈیا میںروزانہ بسوں
میں قیدیوں کومختلف فیکٹریوں اورکارخانوں میں لے جایا جاتاہے جہاں وہ دن
بھرکام کرتے ہیں اورجیل میں اپنا بوجھ خوداٹھاتے ہیں اورسرکاری خزانے میں
بھی پیسہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جیل میںچار دن چکن ،دودن بیف ،دو بار زردہ
جبکہ ایک بار پلاﺅ،دال اورایک دن سبزی دی جاتی ہے۔ملک پیک کی چائے گرمیوں
میں ایک جبکہ سردیوں میں صبح وشام دی جاتی ہے ،گرمیوں میںلیمن کے ساتھ
سمرکند کاشربت پلایا جاتا ہے۔اس طرح توکسی کی اپنے توننھیال میں بھی خدمت
نہیں ہوتی ۔قیدیوں کومعیاری خوراک کی فراہمی میں کوئی برائی نہیں مگر ان کی
بیٹھے بٹھائے خاطرمدارت کرنے میں قباحت ضرور ہے۔جیل میں ضرورت سے زیادہ
قیدی رکھنے سے کئی پیچیدہ مسائل پیداہوتے ہیں لہٰذا آبادی اورجرائم کے
تناسب سے مزیداورجدید جیلیں تعمیر کی جائیں ،جہاں سکیورٹی خدشات نہ ہونے کے
برابرہوں۔ان دنوں سنٹرل جیل کوٹ لکھپت کے سپرنٹنڈنٹ محسن رفیق کی خصوصی
کاوش سے جیل اوراس سے ملحقہ فیکٹری کے درمیان والی دیوارتعمیر کی جارہی ہے
جواشدضروری تھی تاہم جیل کے دوسری طرف کھیت ہیں جہاں قدآورفصلیں خدانخواستہ
کسی ناخوشگوارحادثے کاسبب بن سکتی ہیں لہٰذا اس طرف بھی دھیان دیا جائے۔
یوسف رضاگیلانی کے صاحبزادے اورملتان سے نومنتخب ممبرقومی اسمبلی عبدالقادر
گیلانی نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے پنجاب بھرکی جیلوںمیں
ملاقاتیوں سے دس روپے فیس کی وصولی پرقدغن لگادیا تھا۔پی ایس فنڈختم ہونے
سے متعدد فلاحی کام رک گئے ہیں،اس فنڈ کی مانیٹرنگ ڈی سی اوکانمائندہ کرتا
تھاسابق ہوم سیکرٹری اعجازشاہ کے دورمیں پی ایس فنڈ میں کبھی کوئی گڑبڑ
نہیںہوئی ۔اعجازشاہ اپنے دورمیں پی ایس فنڈ سے جیل کے محکمہ میں متعدد
دوررس اصلاحات کراتے رہے مگران دنوںیہ فنڈبندہے،اس فنڈ کی بحالی سے قیدیوں
کی ویلفیئرمیں مددملے گی ۔جیل کی دنیا کو عبرت گاہ بنانے کیلئے حکمرانوں
اورسیاستدانوں سمیت ایک ادارے کی بیجامداخلت کاراستہ بندکرناہوگا۔جیل
چلاناصرف جیل سپرنٹنڈنٹ کاکام ہے جوکوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔جیل کامعائنہ
اورقیدیوں کی شکایات کے جائزے کیلئے ہوم سیکرٹری اورآئی جی جیل خانہ جات
پراعتمادکیا جائے۔ہوم سیکرٹری پنجاب شاہدخان اورآئی جی جیل خانہ جات میاں
فاروق نذیرکی قابلیت اورکمٹمنٹ پرکوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔اگرارباب
اقتدارجیل کی دنیا کوڈراورخوف کی علامت بنانے کے حق میں ہیں توپھر ان
آفیسرز کی خودمختاری تسلیم کی جائے اوراس کے بعداگرکوئی گڑبڑ ہوتوذمہ
دارکوقرارواقعی سزاضروردی جائے۔
آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر مختلف مرحلے طے کرنے اورزندگی کی دھوپ
چھاﺅں دیکھنے کے بعدآج اس مقام پرپہنچے ہیں ،میں نے انہیں کوٹ لکھپت جیل کے
سپرنٹنڈنٹ اورڈی آئی جی جیل خانہ جات ملتان کی حیثیت سے بڑی عمدگی سے کام
کرتے ہوئے دیکھا ہے۔انہیں اپنے کام کی سمجھ بوجھ ہے،ماضی میں ایسے لوگ بھی
آئی جی جیل رہے جوکسی جیل میں کام کرنے کاتجربہ نہیں رکھتے تھے۔میاں فاروق
نذیر بجاطورپراس منصب کے اہل اورمستحق ہیں۔آئی جی جیل کے عہدے کیلئے میاں
فاروق نذیرکوجان بوجھ کر نظراندازکردیا گیا تھا مگرانہوں نے اپنے حق کیلئے
عدالت کادروازہ کھٹکھٹایااورمیرٹ کی بنیاد پراپنا مقصدپانے میںکامیاب رہے
۔وہ غیرمعمولی سیاسی مداخلت کے باوجود اپنے منصب اورکام سے انصاف کرتے ہیں۔
میاں فاروق نذیر نے اپنے پیشروآئی جی حضرات کی طرح اپنے گھرکوکیمپ آفس نہیں
بنایا بلکہ وہ اپنے دفترمیں بیٹھ کرضروری کام انجام دیتے ہیں اورساتھ ساتھ
پنجاب بھر سے آئے سائلین کی دادرسی بھی کرتے ہیں۔میاں فاروق نذیر اپنے
ماتحت آفیسرزکے کام میں بیجامداخلت نہیں کرتے ،ان کی یہ خوبی انہیں اپنے
پیشروآئی جی حضرات سے ممتاز کرتی ہے۔کوٹ لکھپت جیل کے نوجوان اورپرجوش
سپرنٹنڈنٹ محسن رفیق جوفوج سمیت مختلف شعبہ جات میں اہم عہدوںپرعمدہ کام
کرچکے ہیں ۔جیل کلچر کی تبدیلی کیلئے محسن رفیق کاویژن اورعزم مستحسن اور
قابل دادہے ۔وہ اپنے فرائض منصبی کوبااحسن اندازسے انجام دے رہے ہیں
۔اگرکسی کوسنٹرل جیل کوٹ لکھپت جانے کااتفاق ہوتووہ وہاں محسن رفیق کی
قابلیت اورکمٹمنٹ کے مناظر دیکھ سکتا ہے۔ڈسٹرکٹ جیل ساہیوال کے مہینوال
گلزار بٹ وہاں بھی اپنی خدادادصلاحیتوں کے اظہار میں مصروف ہیں،انہوں نے
وہاں قیدیوں کوپینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے واٹرفلٹریشن پلانٹ لگادیا
ہے ،آئی جی جیل میاں فاروق نذیر کی ذاتی کاوش اوردلچسپی سے وہاںریزنگ مشین
لگائی گئی ہے جس سے عمدہ کمبل تیارہورہے ہیں اوروہ آنیوالے سردموسم کے
دوران پورے پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کو مہیاکئے جا ئیں گے۔گلزاربٹ ایک
خوش اخلاق اورخوش شکل انسان ہیں،اگروہ جیلرنہ ہوتے تویقینا فلمی
ہیروہوتے۔ڈسٹرکٹ جیل لاہورمیں گلزاربٹ کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے ،اب
وہاں ڈسپلن کافقدان ہے تاہم ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عبدالرازق نیازی اپنے طورپرجیل
کانظم ونسق بہتر کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔عبدالرازق نیازی جیل کے
امورپرکمپرومائز نہیں کرتے،ان کی قابلیت اورصلاحیت سے مزیدفائدہ اٹھایا
جاناچاہئے ۔ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ کے سپرنٹنڈنٹ قدیراحمد یواین اومیں خدمات
انجام دینے کے بعدپاکستان واپس آئے ہیں۔قدرت نے قدیراحمدکوخدادادصلاحیتوں
سے نوازاہے۔ ان کی قابلیت اورکمٹمنٹ دیکھتے ہوئے میاں فاروق نذیرنے
انہیںشیخوپورہ جیل کوپناہ گاہ سے عبرت گاہ بنانے کا ٹاسک سونپاہے
۔قدیراحمدکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی دباﺅمیں نہیں آتے ۔انہوںنے
شیخوپورہ جیل کے قیدیوں کوپریشان نہیں کیا صرف انہیں غیرمعمولی سہولیات سے
محروم کردیا ہے۔جیل کومجرموں کیلئے عبرت گاہ بنائے بغیر مجرمانہ سرگرمیوں
کاگراف نیچے نہیں آسکتا۔ |