معاشرے والوں!مساجد کا تقدس پامال مت کیجئے!(فیضان اعتکاف)۔

مسجِدکے مُتَعَلّق19مَدَنی پھول

مدینہ١:مروی ہوا کہ ایک مسجِد اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے حُضُور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ ملائکہ اسے آتے ہوئے ملے اور بولے، ہم ان ( مسجِد میں دنیا کی باتیں کرنے والوں)کے ہَلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں۔( فتاویٰ رضویہ، ج١٦، ص٣١٢)

مدینہ٢:روایت کیا گیا ہے کہ جو لوگ غیبت کرتے ( جو کہ سخت حرام اور زِنا سے بھی اَشَدّ ہے) اور جو لوگ مسجِد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فِرِشتے اللّٰہ عزوجل کے حُضُور ان کی شکایت کرتے ہیں۔'' جب مُباح و جائز بات بِلا ضَرورت ِ شَرعیّہ کرنے کو مسجِد میں بیٹھنے پر یہ آفَتیں ہیں تو(مسجِد میں) حرام و ناجائز کام کرنے کا کیا حال ہو گا! ( ایضاً )

مدینہ٣:درزی کواجازت نہیں کہ مسجِد میں بیٹھ کر کپڑے سئیے۔(یا ناپ لے )ہاں اگربچّوں کو روکنے اورمسجِدکی حفاظت کیلئے بیٹھا توحرج نہیں۔اسی طرح کاتِب کو( مسجِد میں )اُجرت پرکِتابت کرنے کی اجازت نہیں۔ (عالمگیری ،ج١،ص١١٠)

مدینہ٤:مسجِدکے اندر کسی قسم کاکُوڑاہرگزنہ پھینکیں۔سیِّدُناشیخ عبدُالحق مُحَدِّث دِہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی ''جذبُ الْقُلوب'' میں نَقل کرتے ہیںکہ مسجِدمیں اگر خَس (یعنی معمولی سا تنکا یا ذَرّہ) بھی پھینکاجائے تواس سے مسجِدکو اس قَدَرتکلیف پہنچتی ہے جس قَدَر تکلیف انسان کواپنی آنکھ میں خَس (یعنی معمولی ذَرّہ) پڑجانے سے ہوتی ہے۔
(جذبُ الْقُلُوب ،ص٢٥٧)

مدینہ٥:مسجِدکی دیوار،اِس کے فَرش،چَٹائی یادَری کے اوپریااس کے نیچے تھوکنا ، ناک سِنکنا،ناک یاکان میں سے مَیل نکال کرلگانا، مسجِدکی دری یا چٹائی سے دھاگہ یا تِنکا وغیرہ نَوچناسب ممنوع ہے۔(اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو توبہ کرے)

مدینہ٦:ضَرورتاًاپنے رومال وغیرہ سے ناک پُونچھنے میں کوئی مُضایقہ نہیں۔

مدینہ٧:مسجِد کا کُوڑاجھاڑکرایسی جگہ مت ڈالئے جہاں بے اَدَبی ہو۔

مدینہ٨: جُوتے اُتارکرمسجِدمیں ساتھ لے جاناچاہیں توگَردوغیرہ باہَر جھاڑ لیں۔ اگر پاؤں کے تَلووں میں گَرد کے ذَرّات لگے ہوں تو اپنے رومال وغیرہ سے پُونچھ کر مسجِد میں داخِل ہوں۔

مدینہ٩:مسجِد کے وُضو خانے پر وُضو کرنے کے بعدپاؤں وُضوخانے ہی پراچّھی طرح خشک کر لیجئے۔گیلے پاؤں لیکرچلنے سے مسجدکافرش گندااورد ر یا ں مَیلی اور بدنُما ہوجاتی ہیں۔

اب ہمارے آقااعلٰیحضرت،امامِ اہلسنّت،مجدّدِ دین وملّت مولٰینااحمدرضا خان علیہ رحمۃالرحمن کے ملفوظات شریفہ سے بعض آدابِ مسجِد پیش کئے جارہے ہیں:

مدینہ١٠:مسجِد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا،جس سے دَھمک پیداہومنع ہے۔
مدینہ١١:وُضُوکرنے کے بعد اَعضائے وُضُوسے ایک بھی چِھینٹ پانی فرشِ مسجد پر نہ گرے ۔(یادرکھئے!اعضائے وُضُوسے وُضُو کے پانی کے قطرے فرشِ مسجِدپرگِرانا،ناجائزہے)

مدینہ١٢:مسجِدکے ایک دَرَجے سے دوسرے دَرَجے کے داخِلے کے وَقت(مَثَلًا صحن میں داخل ہوں تب بھی اورصِحن سے اندرونی حصّے میں جائیں جب بھی) سیدھا قدم بڑھایاجائے حَتیّٰ کہ اگر صَف بچھی ہو اس پربھی سیدھاقدم رکھیں اور جب وہاں سے ہٹیں تب بھی سیدھا قدم فرشِ مسجد پر رکھیں(یعنی آتے جاتے ہر بچھی ہوئی صَف پر پہلے سیدھا قدم رکھیں) یا خَطِیب جب مِنبرپر جانے کاارداہ کرے۔ پہلے سیدھاقدم رکھے اور جب اُترے تو(بھی) سیدھاقدم اُتارے۔

مدینہ١٣:مسجِدمیں اگرچِھینک آئے توکوشِش کری ںآہِستہ آوازنکلے اسی طرح کھانسی ۔ سرکارِمدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجِدمیں زورکی چھینک کو نا پسند فرماتے۔اِسی طرح ڈَکارکوضَبط کرناچاہیے اورنہ ہو توحَتَّی الْاِمکان آواز دبائی جائے اگرچِہ غیرِمسجِد میں ہو ۔ خُصُوصاًمجلس میں یاکسی معظَّم ( یعنی بزر گ ) کے سامنے بے تَہْذِیبی ہے۔

حدیث میں ہے ،''ایک شخص نے دربارِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ڈَکارلی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:''ہم سے اپنی ڈکار دُور رکھ کہ دنیامیں جوزیادہ مدَّت تک پیٹ بھرتے تھے وہ قِیامت کے دن زیادہ مدّت تک بھوکے رہیں گے ۔ ''(شَرحُ السُّنّۃ،ج ٧،ص٢٩٤،حدیث٢٩٤٤)

اورجَماہی میں آوازکہیں بھی نہیں نکالنی چاہئے۔اگرچِہ مسجِدسے باہَر تنہا ہو کیونکہ یہ شیَطان کا قَہقَہہ ہے۔ جَماہی جب آئے حَتَّی الاِمْکان منہ بند رکھیں منہ کھولنے سے شیطان منہ میں تھوک دیتاہے ۔ اگر یوں نہ رُکے تو اُوپرکے دانتوں سے نیچے کاہونٹ دبالیں۔اوراس طرح بھی نہ رُکے توحَتَّی الاِمْکان منہ کم کھولیں اور اُلٹا ہاتھ اُلٹی طرف سے منہ پر رکھ لیں ۔ چُونکہ جَماہی شیطان کی طرف سے ہے اورانبِیاءِ کرام علیھم الصلٰوۃ والسَّلَام اس سے محفوظ ہیں۔ لہٰذ ا جماہی آئے تویہ تصوُّر کریں کہ ''انبِیاء کرام عَلَیھمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کو جماہی نہیں آتی ۔''اِن شآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فو راً رُک جائےگی۔
(رَدُّالْمُحتار ،ج٢، ص ٤١٣)

مدینہ١٤:تَمَسْخُر(مَسخرہ پن) ویسے ہی ممنوع ہے اور مسجِدمیں سخت ناجائز۔

مدینہ١٥:مسجِدمیں ہنسنامَنع ہے کہ قبرمیں تاریکی(یعنی اندھیرا)لاتاہے۔موقع کے لحاظ سے تَبَسُّم میں حَرَج نہیں۔

مدینہ١٦:مسجِدکے فرش پرکوئی چیزپھینکی نہ جائے بلکہ آہِستہ سے رکھ دی جائے۔ موسِمِ گرما میں لوگ پنکھاجَھلتے جَھلتے پھینک دیتے ہیں(مسجِدمیں ٹوپی ، چادر وغیرہ بھی نہ پھینکیں اسی طرح چادریا رومال سے فرش اس طرح نہ جھاڑیںکہ آواز پیداہو) یا لکڑی،چَھتری وغیرہ رکھتے وقت دُورسے چھوڑ دیا کرتے ہیں ۔ اِس کی مُمَانَعَت ہے۔غَرَض مسجدکااِحتِرام ہرمسلمان پر فرض ہے۔

مدینہ١٧:مسجِدمیں حَدَث( یعنی رِیح خارِج کرنا)مَنْع ہے ضَرورت ہو تو(جو اعتِکاف میں نہیں ہیں وہ ) باہَرچلے جائیں۔لہٰذامُعتکِف کوچاہیے کہ ایّامِ اعتِکاف میں تھوڑا کھائے، پیٹ ہلکارکھے کہ قَضائے حاجت کے وَقت کے سوا کسی وَقت اِخراجِ رِیح کی حاجت نہ ہو۔وہ اس کے لئے باہَر نہ جاسکے گا۔(البتّہ اِحاطہ مسجِد میں موجود بیتُ الْخَلاء میں رِیح خارِج کرنے کیلئے جاسکتا ہے )

مدینہ١٨:قِبلہ کی طرف پاؤں پھیلاناتوہرجگہ َمنع ہے۔مسجِدمیں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خِلافِ آدابِ دربار ہے۔حضرتِ ابراہیم بن اَدھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجِد میں تَنہابیٹھے تھے ،پاؤں پھیلالیا،گوشہ مسجِدسے ہاتِف نے آواز دی،''ابراہیم ! بادشاہوں کے حُضُورمیں یوںہی بیٹھتے ہیں؟ '' مَعاً (یعنی فوراً )پاؤں سمیٹے اورایسے سَمیٹے کہ وَقتِ انتقِال ہی پھیلے۔ (چھوٹے بچوں کوبھی پیار کرتے،اُٹھاتے ، لِٹاتے وقت احتیاط کریں کہ ان کے پاؤں قِبلہ کی طرف نہ ہوںاور مُتاتے(پوٹی کرواتے)وقت بھی ضروری ہے کہ اُس کا رُخ قبلہ کی طرف نہ ہو)

مدینہ١٩:استِعمال شُدہ جُوتا مسجِد میں پہن کرجانا گستاخی وبے ادبی ہے۔
(مُلَخَصًاازالملفوظ ،حصہ دُوُم، ص٣٧٧)

مسجدوں کو خوشبودار رکھئے
اُمّ الْمُؤمِنِی نحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں '' حُضورِ پُرنور ،شافِعِ یومُ النُّشُورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مَحلّوں میں مسجِدیں بنانے کاحکم دیااوریہ کہ وہ صاف اور خوشبودار رکھی جائیں۔''
(سنن ابی داود،ج١،ص١٩٧،حدیث٤٥٥)

ائیر فریشنر سے کینسر ہو سکتا ہے
محترم قارئین کرام!معلو م ہوا مسجِدیں بنانا اور انہی ںعُوْد لُوبان اوراگربتّی وغیرہ سے خوشبودار رکھنا کارِثواب ہے۔ مگر مسجِد میں دِیا سلائی (یعنی ماچِس کی تِیلی) نہ جلائیے کہ اس سے بارُود کی بدبُو نکلتی ہے اور مسجِد کو بد بُو سے بچانا واجِب ہے۔بارُود کابَدبُودَار دُھواںاندرنہ آنے پائے اتنی دُور باہَر سے لُوبان یا اگر بتّی وغیرہ سُلگا کرمسجِد میں لائیے۔ اگر بتّیوں کوکسی بڑے طَشْت وغیرہ میں رکھنا ضَروری ہے تاکہ اِس کی راکھ مسجِدکے فرش وغیرہ پرنہ گرے ۔ اگربتّی کے پیکِٹ پراگرجاندار کی تصویربنی ہوئی ہو تو اُس کو کُھرچ ڈالئے۔ مسجِد ( نیز گھروں اور کاروں وغیرہ) میں '' ائیر فریشنر''(AIR FRESHNER) سے خوشبو کاچِھڑکاؤ مت کیجئے کہ اُس کے کیمیاوی مادّے فَضاء میں پھیل جاتے اور سانس کے ذَریعے پھیپھڑوں میں پَہُنچ کر نقصان پہنچاتے ہیں۔ایک طِبّی تحقیق کے مطابِق ائیر فریشنرکے استِعمال سے جِلد کاسرطان یعنی( SKINCANCER)ہو سکتا ہے۔

منہ میں بدبو ہو تو مسجد میں جانا حرام ہے
محترم قارئین کرام!بھوک سے کم کھانے کی عادت بنایئے یعنی ابھی خوا ہش باقی ہوکہ ہاتھ روک لیجئے۔ اگر خوب ڈٹ کر کھاتے رہے ، اور وَقت بے وَقت سیخ کباب، برگر ، آلو چھولے، پِزّے،آئسکریم ، ٹھنڈی بوتلیں وغیرہ پیٹ میں پہنچاتے رہے ،پیٹ خراب ہو گیا اور خوانخواستہ'' گندہ دَ ہنی'' یعنی مُنہ سے بد بُوآنے کی بیماری لگ گئی تو سخت امتحان ہو جائے گا، کیوں کہ مُنہ سے بدبُو آتی ہو تو مسجِد کا داخِلہ حرام ہے ،یہاں تک کہ جس وَقت مُنہ سے بد بُو آ رہی ہو اُس وَقت باجماعت نَماز پڑھنے کے لئے بھی مسجِد میں آنا گناہ ہے۔ چُونکہ فکرِ آخِرت کی کمی کے باعِث لوگوں کی بھاری اکثریت میں کھانے کی حرص زیادہ اور آج کل ہر طرف '' فوڈ کلچر '' کا دَور دَورہ ہے، اِ س وجہ سے ایک تعداد ہے جن کے منہ سے بد بُو آتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات امام و مُؤَذِّن کو بھی گندہ دَہنی کا مرض ہو جاتا ہے، ایسا ہو تو انہیں فوراً چُھٹّیاں لے کر علاج کروانا چاہئے کیوں کہ منہ میں بد بُو ہونے کی صورت میں مسجِد کے اندر داخِل ہونا حرام ہے۔افسوس! بد بُو دار منہ والے کئی افراد مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مسجِد کے اندر مُعتَکِف بھی ہو جاتے ہیں۔ رَمَضانُ المُبارَک میں کباب سموسے اور دیگر تلی ہوئی چیزیں اور طرح طرح کی مُرَغّن غذائیں ٹھونس ٹھانس کر کھانے کے سبب منہ کی بد بُو کے مریضوں میں اِضافہ ہو جاتا ہے ، اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ سادہ غذا اور وہ بھی بھو ک سے کم کھائے اور ہاضِمہ دُرُست رکھے ۔ صِرف مُنہ ہی کی بد بُو نہیں ہر طرح کی بد بُو سے مسجِد کو بچانا واجِب ہے۔

منہ میں بدبو ہو تو نماز مکروہ ہوتی ہے
فتاویٰ رضویہ جلد 7 صَفَحَہ384 پر ہے:مُنہ میں بدبُو ہونے کی حالت میں (گھر میں پڑھی جانے والی ) نَماز بھی مکروہ ہے اور ایسی حالت میں مسجِد جانا حرام ہے جب تک مُنہ صاف نہ کر لے۔ اور دوسرے نَمازی کو اِیذا پہنچنی حرام ہے، اور دوسرا نَمازی نہ بھی ہو توبھی بد بُوسے ملائکہ کو اِیذا پہنچتی ہے۔ ، حدیث میں ہے:'' جس چیز سے انسان تکلیف مَحسوس کرتے ہیں فِرشتے بھی ان سے تکلیف مَحسوس کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم، ص٢٨٢، حدیث ٥٦٤)

بدبودار مرھم لگا کر مسجد میں آنے کی ممانعت
میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جس کے بدن میں بد بُو ہو کہ اُس سے نَمازیوں کو اِیذا ہو مَثَلاً مَعاذَاللّٰہ گندہ دَہَن ( یعنی جس کومُنہ سے بد بُو آنے کی بیماری ہو) گندہ بَغَل( یعنی جس کو بغل سے بد بُو آنے کا مرض ہو) یا جس نے خارِش وغیرہ کے باعِث گندھک ملی( یا کوئی سا بدبوُ دار مرہم یا لوشن لگایا) ہو اُسے بھی مسجِد میں نہ آنے دیا جائے۔''
( فتاویٰ رضویہ تخریج شدہ، ج ٨، ص ٧٢)

کچی پیاز کھانے سے بھی منہ بدبودار ہو جاتا ہے
کچّی مُولی، کچّی پیاز،کچّا لہسن اور ہر وہ چیز کہ جس کی بُو نا پسند ہو اسے کھا کر مسجِد میں اُس وقت تک جانا جائز نہیں جب تک کہ ہاتھ مُنہ وغیرہ میں بُو باقی ہو کہ فِرِشتوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے ۔حدیث شریف میں ہے، اللّٰہ کے محبوب ،دانائے غُیُوب ،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:''جس نے پیاز ،لہسن یاگِندَنا(لہسن سے مشابہ ایک ترکاری)کھائی وہ ہماری مسجِد کے قریب ہرگز نہ آئے۔ '' اور فرمایا:'' اگر کھانا ہی چاہتے ہو تو پکا کر اس کی بُو دُور کر لو۔''(صحیح مسلم ،ص٢٨٢، حدیث ٥٦٤،دارابن حزم بیروت)

صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علّامہ مولٰینا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:'' مسجِد میں کچاّ لہسن اور کچّی پیاز کھانا یا کھا کر جانا جائز نہیں جب تک کہ بُو باقی ہو ۔ اور یہی حکم ہر اُس چیز کا ہے جس میں بُو ہو جیسے گِندَنا( یہ لہسن سے ملتی جُلتی ترکاری ہے) مُولی ، کچاّ گوشْتْ اورمِٹّی کا تیل ،وہ دِیا سَلائی جس کے رگڑنے میں بُو اُڑتی ہو، رِیاح خارِج کرنا وغیرہ وغیرہ۔ جس کو گندہ دَہنی کا عارِضہ ( یعنی منہ سے بد بُوآنے کی بیماری) یا کوئی بد بودار زَخم ہو یا کوئی بد بُودار دوا لگائی ہو تو جب تک بُو مُنقَطع( یعنی ختم) نہ ہو اُس کو مسجِد میں آنے کی مُمانَعت ہے۔ ( بہارِ شریعت ،حصّہ ٣، ص ١٥٤)

کچی پیاز والے کچومر اور رائتے سے محتاط رہئے
کچّی پیاز والے چنّے، چھولے ،رائتے اور کچومرنیز کچّے لہسن والے اَچار چٹنی وغیرہ کھانے سے نَماز کے اوقات میں پر ہیز کیجئے۔ بعض اوقات کباب سموسے سے وغیرہ میں بھی کچّی پیاز اور کچّے لہسن کی بُو محسوس ہوتی ہے لہٰذا نَماز سے پہلے ان کو بھی نہ کھایئے۔ایسی بُو والی چیزیں مسجِد میں لانے کی بھی اجازت نہیں ۔

بد بودارمنہ لیکر مسلمانوں کے مجمع میں جانے کی ممانعت
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: مسلمانوں کے مَجمَعوں ، درسِ قراٰن کی مجلسوں ، عُلَمائے دین و اولیائے کامِلین کی بارگاہوں میں بد بُو دار مُنہ لے کر نہ جاؤ۔( مراٰۃ المناجیح،ج٦، ص ٢٥ )

مزید فرماتے ہیں:جب تک مُنہ میں بدبُو رہے گھر میں ہی رہو ، مسلمانوں کے جلسوں ، مَجمَعوں میں نہ جاؤ۔ حُقّہ پینے والے ، تمباکو والا پان کھا کر کُلّی نہ کرنے والوں کو اس سے عبرت پکڑنی چاہئے ۔ فُقَہَائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیفرماتے ہیں:جسے گندہ دَہَنی کی بیماری ہو اُسے مسجِدوں کی حاضِری مُعاف ہے۔ ( مراٰۃالمناجیح ،ج٦، ص ٢٦)

نماز کے اوقات میں کچی پیاز کھانا کیسا ؟
سُوال:''گندہ دَہَن'' کو مسجِد کی حاضِری مُعاف ہے ، تو کیا کچّی پیاز والا رائتہ یا کچومر یا ایسے کباب سَموسے جن میں لہسن پیاز برابر پکے ہوئے نہ ہوں اور اُن کی بُو آتی ہویا مَسلی ہوئی باجرے کی روٹی جس میں کچّا لہسن شامل ہوتا ہے ایسی غذا وغیرہ جماعت سے کچھ دیر پہلے اس نیّت سے کھا سکتے ہیں کہ مُنہ میں بُو ہو جائے اور مسجِد کی جماعت واجِب نہ رہے!
جواب: ایسا کرنا جائز نہیں۔ مَثَلاً نَمازِ مغرِب کے بعد ایسا کچُومر یا سَلاد وغیرہ نہ کھائے جس میں کچّی مولی یا کچّی پیاز یا کچّا لہسن ہو کیوں کہ عشاء کی نَماز کا وَقت قریب ہوتا ہے اور اِتنی جلدی منہ صاف کر کے مسجِد میں پہنچنا دُشوار ۔ ہاں اگر جلد مُنہ صاف کرنا ممکِن ہے یا کسی اور وجہ سے مسجِد کی حاضِری سے معذور ہے مَثَلاً عورت۔ یا نَماز پڑھنے میں ابھی کافی دیر ہے اُس وقت تک بُو خَتْم ہو جائیگی تو کھانے میں مُضایَقہ نہیں۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:کچّا لہسن پیاز کھانا کہ بِلاشُبہہ حلال ہے اور اُسے کھا کر جب تک بُو زائِل نہ ہومسجِد میں جانا ممنوع مگر جو حقّہ ایسا کَثِیف (گاڑھا) و بے اِہتمام ہو کہ مَعَا ذَاللّٰہ تَغَیُّرِ باقی( یعنی دیر پا بد بُو ) پیدا کرے کہ وقتِ جماعت تک کُلّی سے بھی بَکُلّی( یعنی مکمَّل طور پر) زائِل نہ ہو تو قُربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ تَرکِ جماعت و تَرکِ سجدہ یا بد بُو کے ساتھ دُخولِ مسجِد کا مُوجِب(سبب) ہو گا اور یہ دونوں ممنوع و ناجائز ہیں اور( یہ شرعی اصول ہے کہ) ہر مُباح فی نَفسِہٖ ( یعنی ہر وہ کام جو حقیقت میں جائز ہو مگر) امرِ ممنوع کی طرف مُؤَدّی( یعنی ممنوع کام کی طرف لے جانے والا) ہو مَمنوع و نارَوا( یعنی ناجائز ) ہے۔
( فتاوٰی رضویہ ،ج٢٥، ص ٩٤)

منہ کی بدبو معلوم کرنے کا طریقہ
اگر مُنہ میں کوئی تَغَیُّرِ رائِحَہ( یعنی بد بُو)ہو تو جتنی بار مسواک اور کلّیوں سے اس ( بد بُو)کا اِزالہ( یعنی دُور کرناممکن) ہو(اُتنی بار کلیاں وغیرہ کرنا) لازِم ہے ، اِس کے لیے کوئی حد مقرّر نہیں۔ بد بُو دارکَثِیف (گاڑھا)بے احتیاطی کا حُقَّہ پینے والوں کو اس کا خیال (رکھنا)سخت ضَروری ہے اور اُن سے زیادہ سگرٹ والے کوکہ اس کی بد بُو مُرکَّب تمباکو سے سخت تر اور زیادہ دیر پا ہے اور ان سب سے زائد اَشَد ضَرورت تمباکو کھانے والوں کو ہے جن کے منہ میں اُس کا جِرم( یعنی دھوئیں کے بجا ئے خود تَمباکو ہی) دبا رہتا ہے اور منہ اپنی بد بُو سے بسا دیتا ہے۔ یہ سب لوگ وہاں تک مِسواک اورکُلّیاں کریں کہ مُنہ بالکل صاف ہو جائے اور بُو کا اصلاً نشان نہ رہے اور اس کا امتحان یوں ہے کہ ہاتھ اپنے مُنہ کے قریب لے جا کر منہ کھول کر زور سے تین بار حَلْق سے پوری سانس ہاتھ پر لیں اور معاً (فوراً) سونگھیں ۔بِغیر اس کے اندر کی بد بُو خود کم محسوس ہوتی ہے اور جب مُنہ میں بدبُو ہو تو مسجِد میں جانا حرام ، نَماز میں داخِل ہونا مَنع ۔ وَاللہ الہادی۔
( فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ،ج اول، ص ٦٢٣)

منہ کی بدبو کا علاج
اگر کسی چیز کے کھانے کے سبب مُنہ میںبدبُو آتی ہوتو ہرا دھنیہ چبا کر کھایئے نیز گُلاب کے تازہ یا سُوکھے ہوئے پھولوں سے دانت مانجھئے اِن شآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فائدہ ہو گا۔ ہاں اگر پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بدبُوآتی ہو تو'' کم خوری'' کی سعادت حاصل کر کے بھوک کی بَرَکتیں لوٹنے سے اِن شآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ٹانگوں اور بدن کے مختلف حصّوں کے درد ، قبض ، سینے کی جلن ، مُنہ کے چھالے ، باربار ہونے والے نزلے کھانسی اور گلے کے درد ،مَسُوڑھوں میں خون آنا وغیرہ بَہُت سارے اَمراض کے ساتھ ساتھ مُنہ کی بدبو سے بھی جان چھوٹ جائے گی ۔ بھوک باقی رہے اس طرح سے کم کھانے میں 80فیصد اَمراض سے بچت ہوسکتی ہے۔( تفصیلی معلومات کیلئے فیضانِ سنّت کے باب '' پیٹ کا قفلِ مدینہ'' کا مَطالَعَہ فرمایئے)اگر نَفس کی حِرص کا علاج ہو جائے توکئی جسمانی اور روحانی امراض خود ہی دم توڑجائیں۔
رضاؔ نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چَند رانے والے

منہ کی بدبو کا مدنی علاج
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلَی النَّبِیِّ الطَّاہِر۔
مُندَرَجَہ بالا دُرُود شریف موقع بہ موقع ایک ہی سانس میں گیارہ مرتبہ پڑھ لیجئےاِن شآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مُنہ کی بدبُو زائِل ہو جائیگی۔ایک ہی سانس میں پڑھنے کا بِہتر طریقہ یہ ہے کہ مُنہ بند کر کے آہِستہ آہِستہ ناک سے سانس لینا شُروع کیجئے اورمُمکِنہ حد تک ہوا پھیپھڑوں میں بھر لیجئے ۔اب دُرُود شریف پڑھنا شُرو ع کیجئے۔ چند بار اس طرح مَشق کریں گے تو سانس ٹوٹنے سے قَبلاِن شآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مکمّل گیارہ بار دُرُود شریف پڑھنے کی ترکیب بن جائے گی ۔ مذکورہ طریقے پر ناک سے گہرا سانس لیکر ممکن حد تک روک رکھنے کے بعد مُنہ سے خارِج کرنا صِحّت کیلئے انتہائی مفید ہے۔دن بھر میں جب جب موقع ملے بِالخصُوص کُھلی فَضاء میں روزانہ چند بار تو ایسا کر ہی لینا چاہئے۔

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371076 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.