عید الفطر - روحانی خوشی اور اللہ کی عطا کردہ انعامات پر شکر بجالانے کا دن

تاریخی پس منظر ، عظمت و فلسفہ

روح کی لطافت ، قلب کی تزکیہ ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ بہ صد عجز و انکسار بہ غایت خشوع و خضوع تمام مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ بندگی اور نذرانہ شکر بجالانے کا نام عید ہے ۔
لفظ عید کی وجہ تسمیہ

عید کا لفظ عود سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں ، چوں کہ یہ دن مسلمانوں پر باربارلوٹ کر آتا ہے اس لیے اسے عید کہتے ہیں ۔

ابن عربی کے مطابق عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصور کے ساتھ لوٹ کر آتا ہے ۔ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ مسرت اور خوشی کے دن کو عید ، نیک شگون کے طور پر کہاجاتا ہے ، تاکہ یہ دن ہماری زندگی میں باربارلوٹ کر آئے ، چوں کہ اللہ تعالی اس دن اپنے مقبول اور عبادت گزار بندوں پر اپنی ان گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹاتا ہے ، اس لیے اسے عید کہتے ہیں

انسانی فطرت کا تقاضہ
سال میں چند ایام جشن ،تہوار اور عید کے طور پر دنیا کی تمام اقوام و ملل اور مذاہب میں*منائے جاتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ہر قوم ، مذہب و ملت کے لوگ اپنے ایام عید کو اپنے اپنے عقائد ، تصورات ،روایات اور ثقافتی اقدار کے مطابق مناتے ہیں ، لیکن اس سے یہ حقیقت ضرور واضح*ہوتی ہے کہ تصور عید انسانی فطرت کا تقاضا اور انسانیت کی ایک قدر مشترک ہے ۔ مسلمان چونکہ اپنی فطرت ،عقائد و نظریات اور ملی اقدار کے لحاظ سے دنیا کہ تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے اس لیے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے ، دوسری اقوام کی عید محافل ناؤ نوش و رقص و سرود بپا کرنے ، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھوجانے ، مادر پدر آزاد ہوکر بدمستیوں میں ڈوب جانے ، تمام اخلاقی اقدار کو تج دینے ، نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کو فروغ دینے اور آج یا پھر کسی نہیں کے مصداق ہوس نفس کا اسیر بن جانے کا نام ہے ، اس کے برعکس اسلام میں روح کی لطافت ، قلب کے تزکیے ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ بہ صد عجز و انکسار و خشوع و خضوع تمام مسلمانوں کے اسلامی اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ بندگی اور نذرانہ شکر بجالانے کا نام عید ہے ۔

عید اور قرآن
قرآن مجید میں سورۃ مائدہ کی آیت 114 میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے :
ارشاد باری تعالی ہے :
عیسی ابن مریم نے عرض کیا کہ اے اللہ ! ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن ) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے (بہ طور) عید (یادگار) قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے ۔

اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے :
اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں*یہ (خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں ، مگر اس کے بعد جو کفر کرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کہ نہ دیا ہو ۔
رہا یہ سوال کہ دعائے عیسی کے نتیجے میں ان کی قوم پر یہ خوان اترا تھا یا نہیں ، قرآن نے اس سلسلے میں سکوت اختیار فرمایا ہے ، البتہ تفاسیر میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں ، ہمارے زیر بحث موضوع سے جو بات متعلق ہے ، وہ یہ ہے کہ کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کا قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور جو دن کسی قوم کے لیے اللہ تعالی کی کسی خصوصی نعمت کے نزول کا دن ہو وہ اس دن کو اپنا یوم عید کہہ سکتی ہے ۔

اسلام میں عید کا آغاز
خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن ، معاشرت اور اجمتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا ، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا : یہ دو دن جو تم مناتے ہو ، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ( یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے ؟)
انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے ۔
یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیے ہیں ،یوم (عید ) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔
غالبا وہ تہوار جو اہل مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے ، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرمادیا اور فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں ۔

عید کے ایام مقرر کرنے کی حکت
یہاں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاج دار انبیاء نے ایسا کیوں نہیں کیا کہ نوروز اور مہرجان کی انہی تہواروں کی اصلاح فرمادیتے اور ان میں جو رسوم شرعی اعتبار سے منکرات کے زمرے میں آتی تھیں ، ان کی ممانعت فرمادیتے اور اظہار مسرت کی جو جائز صورتیں تھیں وہ اختیار کرنے کی اجازت دے دیتے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت کارفرما تھی ، دراصل ہر چیز کا ایک مزاج اورپس منظر ہوتا ہے ، آپ لاکھ کوشش کرلیں ، کسی چیز کو اس کے تخلیقی مزاج اور تاریخی پس منظر سے جدا نہیں کرسکتے ، لہذا جس چیز کی اساس کسی شر پر رکھی گئی ہو ، اس کی کانٹ چھانٹ اور بناؤ سنگھار سے خیر پر مبنی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا اور اسلام تو آیا ہی اس لیے ہے کہ کفر اور بدی کے اثرات کو مٹایا جائے ، معلوم ہوا کہ اسلامی معتقدات اور خالص دینی فکر اور شرعی مزاج کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں کا تعلق تمام جاہلی رسوم اور کافرانہ شعائر سے یکسر ختم کردیا جائے ، تاکہ عہد جاہلیت کی تمام علامات سے کٹ کر ان میں صحیح دینی فکر پیدا ہوسکے ۔

چوں کہ اسلام دینی فطرت ہے ، اس لیے اس نے جہاں اپنے ماننے والوں*کو لادینی نظریات سے محفوظ رکھا ، وہاں ان کے صحیح جبلی اور فطری تقاضوں کی آب یاری بھی کی ، عید منانا انسانی فطرت کا تقاضا تھا لہذا مسلمانوں کو ایک کے بجائے عیدین کی دہری نعمت عطا فرمائی گئی ۔

یوم عید کے مستحبات
عید کے دن یہ امور مستحب ہیں :
حجامت بنوانا ، ناخن تراشنا ، غسل کرنا ، مسواک کرنا ، خوش بو لگانا ، اچھے صاف ستھرے یا دستیاب ہوں تو نئے کپڑے پہننا ، صبح کی نماز مسجد میں پڑھ کر عید گاہ چلے جانا ، عید گاہ جاتے وقت راستہ تبدیل کرنا ، سنت یہ ہے کہ جس راستے سے عید گاہ جائے نماز پڑھ کر اس راستے کے بجائے دوسرے راستے سے گھر واپس جائے ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (عیدگاہ آتے جاتے میں ) راستہ تبدیل کرلیا کرتے تھے ۔

اس کی متعدد حکمتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
دونوں راستے نمازی کی عبادت اور ذکر پر گواہی دیں ، دونوں*راستوں پر اسلامی شعار کا اظہار اور دونوں راستوں پر بے نمازیوں اور اللہ کی عبادت سے غافل رہنے والوں کو اپنے عمل سے اللہ رب العزت کی یاد کی طرف مائل کیا جائے ۔

ون وے ٹریفک کا نظریہ
اس کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایک راستے سے جانے اور دوسرے راستے سے واپس آنے سے آنے جانے والوں کے لیے سہولت ہو ، ازدوام اور بھیڑ میں کمی واقع ہو اور گزرگاہ تنگ نہ ہو ۔ ہم بجاطور پر دنیا والوں کے سامنے یہ دعوٰی کرسکتے ہیں کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جدید تمدن ، معاشرت اور شہری زندگی کے مسائل کو اپنی تعلیمات کے ذریعے سہل انداز میں حل فرمایا ہے اور یہ کہ ون وے ٹریفک کے اصولوں کے بانی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں*۔

عید نہ منانا
قوموں*کی زندگی میں المیے ،حوادث اور مصائب پیش آتے رہتے ہیں اور بدقسمتی سے گذشتہ برسوں سے اس طرح کے الم ناک واقعات ہماری روز مرہ زندگی کا ایک معمول بن چکے ہیں ۔ ایسے حوادث کے پیش نظر اکثر اوقات بعض افراد یا حلقوں کی جانب سے یہ سننے میں آتا ہے کہ اس سال ہم عید نہیں منائیں گے ، اس طرح کے بیانات کے پیچھے یقینا نیک نیتی ، حب الوطنی ، اخوت اسلامی اور انسانی دوستی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ عید نہ منانے کا مطلب کیا ہے ؟ یہ کوئی جشن یا تہوار تو ہے نہیں یہ تو عبادت اور سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، اخوت اسلامی اور اتحاد امت کا مظہر ہے ، جمعیت قوم مسلم کا ایک حسین منظر ہے ، اللہ کی بارگاہ میں دوگانہ نماز عید کی ادائیگی کا نام ہے ، شرافت ، متانت اور نفاست جیسی انسانی خصوصیات کا مظہر ہے ، ان میں سے کوئی چیز اور کوئی بات ایسی نہیں جو عسر و یسر اور رنج و راحت ہر حال میں منائے جانے کے قابل نہ ہو ۔ باقی رہا لہو و لعب میں مشغولیت ، رقص و سرود کی محافل برپا کرنا ، ناؤ نوش اور محرمات شرعیہ کا ارتکاب اور ہوس نفس کی تسکین کے سامان بہم پہنچانا یہ ایسے امور ہیں جن کا اسلامی تصور عید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو ایک مسلمان کو نہ صرف عید کے مقدس موقع پر بلکہ زندگی کے ماہ و سال کے ہر لمحہ و لحظہ میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے چاہیں ، بلکہ ان محرمات و منکرات شرعیہ کو چھوڑنا ہی ایک مومن کامل کی حقیقی عید ہے ۔ دعا ہے کہ ایسی عید اللہ تعالٰی ہر مومن کو نصیب فرمائے آمین ۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381613 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.