میں ایک آزاد ملک میں ایک آزاد
شہری کی حیثیت سے پیدا ہوا، جب چھوٹا سا تھا تو اپنے بڑوں سے آزادی اور
حریت کی کہانیاں سنا کرتا تھا وہ بڑے ہی پرجوش انداز میں بتایا کرتے تھے ہم
نے آزادی کیسے حاصل کی؟ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور آزادی کا صحیح مطلب
نہیں سمجھ سکتا تھا جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے آزادی اور غلامی
میرے لیے اہم سوال بنتی گئی، میں سوچا کرتا تھا کہ ہمیں آزادی کی کیا ضرورت
تھی؟ اور غلامی کیا چیز تھی اگر ہم غلام ہی رہتے تو کیا ہوتا؟ یہ سب وہ
سوالات تھے جن کے میں جوابات تلاش کرتا رہتا تھا میں اپنے اساتذہ سے اکثر
اس کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کرتا اور وہ اپنے تجربے کے مطابق مجھے
قائل کرنے کی کوششیں کرتے!
میں جوں جوں بڑا ہوتا گیا آزادی کا مفہوم ہی بدلتا گیا، میں نے جو آزادی کے
وقت کی کہانیاں سنیں، آزادی کے مقاصد کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ عملی
زندگی میں بالکل کہیں نظر نہ آیا، آزادی کے بدلتے مفہوم سے میں پریشان رہنے
لگا اور اکثر اس کھلے تضاد پر سوچنے لگتا ہوں، آزادی کے وقت لگائے جانے
والے نعروں کا مفہوم تبدیل کردیاگیا، مقاصد کا حلیہ بگاڑ دیاگیا، پاکستان
کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ کھا پی موج اڑا بن گیا۔
انگریزوں کی برہنہ تہذیب کے دلدادوں نے پاکستان کی اساس تبدیل کرنے میں
کوئی کسر نہ چھوڑی، سیکولرازم کے وکیل نام نہاد دانشور، ٹی وی چینلز کے ٹاک
شوز، اخبارات کے اداتی صفحات، تقاریب میں تقاریر کے دوران قائداعظم کو
سیکولر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ایسی ایسی من گھڑت تاویلیں
اور دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ رونے کو جی چاہتا ہے، دوسری طرف ملک میں نادیدہ
قوتوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ آزادی نہیں غلامی کا احساس پیدا
ہوتا ہے، ہماری حکومتوں نے ملک کے مفاد کے برعکس ایسے ایسے فیصلے کیے ہیں
جن سے ایک آزاد وطن نہیں بلکہ کسی بڑی طاقت کے طفیلی ریاست کا گمان ہوتا
ہے۔
میری زندگی میں چونکا دینے والا اور ناقابل فراموش واقعہ لال مسجد پر اپنی
ہی فوج کی بمبار ی تھی، مدرسے سے اٹھتی معصوم لاشیں، فاسفورس بموں سے بھسم
بچوں کے چہروں نے میرے ساتھ سب محب وطن پاکستانیوں کے ذہنوں کو مفلوج
کردیا، ملک کے کونے کونے میں ظلم وستم کا راج ہے۔ بلوچستان سے آئے روز مسخ
شدہ لاشیں مل رہی ہیں، ہنستے مسکراتے بلوچوں کو گھروں سے اٹھا کر ابدی نیند
سلادیا جاتا ہے، کسی بھی شخص کو گھر سے اٹھا کر دہشتگرد قرار دے دیا جاتا
ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین جگہ جگہ دھرنے دیئے بیٹھے ہیں جن کی چیخیں اور
آہیں 18کروڑ عوام اور چند ہزار صاحب اختیار لوگوں کے ذہنوں کو جھنجوڑنے کی
کوشش کررہی ہیں۔
ایک دن ان کی زبانیں بھی خاموش کردی جائیں گی، بڑے بڑے دانشور کہتے ہیں کہ
ہم آزاد ہیں ہم ایک اسلامی اور ایٹمی طاقت کے شہری ہیں، ہم آزاد فضاﺅں میں
سانس لیتے ہیں لیکن میرا جواب نفی میں ہے۔
کیا ایک کال پر پورے ملک کو اپنے بھائیوں کے گلے کاٹنے کیلئے دشمن کے حوالے
کرنے کو آزادی کہتے ہیں، کیا چند ڈالروں کے عوض اپنے شہریوں کو بیچنے کو
آزادی کہتے ہیں؟ کیا ایک سوری پر اپنے شہدائ، اپنے وطن اور اپنی خودمختاری
کو فروخت کرنے کو آزادی کہتے ہیں؟۔
جس ملک میں غریب کیلئے الگ اور امیر کیلئے الگ قانون ہوں، غریب فٹ پاتھوں
اور امیر شیشے کے محلوں میں سوئیں کھانے کی اشیاءفٹ پاتھوں اور جوتے ایئر
کنڈیشنڈ دکانوں میں فروخت ہوں، جہاں ظلم کا راج اور مظلوم پستی کی زندگی
گزار رہا ہو اسے آزاد ملک کہتے ہیں، نہیں نہیں.... ہم غلام ہیں، ہم غلام
ہیں، مغربی سوچ کے ہم غلام ہیں، گوروں کے نظام کے، ہم غلام ہیں نادیدہ
ہاتھوں کے۔
یہ غلامی کی نشانیاں ہی تو ہیں کہ ہم محض ڈالروں کے عوض اپنے شہریوں کو
عالمی طاقتوں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں، اپنی مسجدوں پر بمباری کرتے
ہیں، اپنے بھائیوں کو مارنے کیلئے ہتھیار مہیا کرتے ہیں، ہم نظریے کو بھول
گئے، ہم نے مادیت کو خدا بنالیا، امریکہ میں ایک معروف وکیل نے عدالت میں
بحث کے دوران کہا تھا کہ پاکستانیوں کو چند ڈالرز دے دیئے جائیں تو یہ اپنی
ماﺅں تک بیچ ڈالیں گے، یہ 18کروڑ پاکستانیوں کے منہ پر طمانچہ تھا جسے کسی
نے بھی محسوس نہیں کیا۔ |