آ ج ہم 65یوم آ زادی اس جو ش و
جذبے سے منار ہے ہیں کہ ہمیں جوثمر 65برس قبل ملاتھا اس کی حفاظت ، ترقی ،امن
امان کی بہترصورتحال، اور ایک ترقی پسند ملک کے طور پر اسے دنیا میں روشناس
کروائیں گے اور یہ قوموں کی زندگی کا اہم ترین دین بھی ہو تا ہے جب وہ کسی
سے آ زادی حاصل کر تی ہیں اور اس دن کو شایان شان طریقے سے مناتی ہیں اور
14اگست کا دن ہمارے لئے بھی وہ دن ہے جب مسلمانان برصغیر کو انگریزوں اور
ہندو بنئیوں سے آ زادی نصیب ہوئی اور اس غلامی کے دور میں جو جو مظالم
مسلمانان بر صغیر کے اوپر ڈھائے گئے اگر ان کو تحریر میں سمویا جائے تو ہر
دل پاش پاش اور ہر آ نکھ ا شکبار ہو جائے گی کہ اس ملک کو حاصل کر نے کے
لئے ہمارے آ باﺅ اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربا نیاں دی ہیں ہماری ماﺅں
بہنوں نے اس ملک پر اپنی عزتیں قربا ن کر ڈالیں اور ہمارے جیسے ہی بھائیو ں
اور ماں با پ کے لخت جگروں نے اس ملک کو اپنا خو ن دے کر سیراب کیا تب جا
کر ہمیں یہ ملک ملا جہاں آ ج ہم آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں اورآ ج 14اگست
کے دن کو ہم ”آزادی “ کے نام پر صرف ”چھٹی گزارنے“اور آوارہ گردی کرنے ،
موٹرسائیکلوں اور دوسری گاڑیوں پر غیر سنجیدہ رویہ اپنا کر دن گزار دیتے
ہیںاور اپنے ملک کو حاصل کر نے کی سوچ کو بھی بھول چکے ہیں جو کہ ایک مہذب
قوم کے لئے لمحہ فکر یہ ہے اور اس کے اوپر سوالیہ نشان ہے کہ وہ کن افکار
کے طور پر سامنے آئی تھی اور اب اس کا چال چلن کیسا ہو گیا ہے جب کہ یہ د ن
تو ”یوم احتساب “ کاد ن ہے کہ آ ج سے 65برس قبل ملنے والے ثمر میںہم نے
اپنا کیا حصہ ڈالا ہے؟ اس کی ترقی خوش حالی میں اپنا کیا کردار ادا کیا ہے؟
اور اس کے نام کو روشن کر نے کے لئے کیا کارنامہ سر انجام دیا ہے؟ اس کے
اوپر بیرونی طاقتوں کی طرف سے لگنے والے الزامات پر اس کی حفاظت کا کیا کام
کیا ہے؟ اور کون سا اچھا کام اس کے لئے کیا ہے کہ اس کا بیرونی دنیا میں
نام روشن کر نے میں کام آ یا ہو؟ یا یہ کہ جو ثمر ہمیں ملا ہے اس کی حفاظت
کرنے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟اپنے آ با ﺅ اجداد کی قربانیوں کو دیمک
سے بچایا ہے؟ کیا ہم نے اس ملک کو ان افکار پر عمل پیرا کیا ہے جو ہمارے آ
باﺅ اجداد نے اس کے لئے دیکھے تھے ؟ ان تمام اسلامی اصولوں پر یہاں عمل ہو
رہا ہے جن کی لئے یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا تھا؟ یا پھر ہم اس ثمر کو دیمک سے
بچا ہی نہیں سکے؟ کیا ہمارا فردا فردااور قومی سفر شاہراہ زندگی پر اپنی
متعین منزل کی طرف ٹھیک ٹھا ک طریقے سے جاری و ساری ہے یا نہیں ؟۔ اور اس
میں کیا بہتری کے لئے تجاویز ہیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب تلاش کر یں تو ہر
بات کا جواب ناں میں ہی سامنے آ ئے گا کیونکہ غیروں کو تو چھوڑیئے اپنوں کی
سازشوں سے ہی ہم اسے محفو ظ نہیں رکھ سکے اور اوپر سے ہمیں غیر زخم پر زخم
دیئے جا رہے ہیں آ ئیں ہم آ ج اپنا احتساب خو د کر کے دیکھتے ہیں اگر ہم
اپنا احتساب خود کر تے ہیں تو آنے والے دنوں میں ہمارے ملک کو کسی احتساب
بیورو کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کہ ہم نے کیا کردار اس کی ترقی خوش حالی کے
لئے ادا کیا ہے تو قارئین کرام ! راقم کو یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک اور
دکھ محسوس نہیں ہو رہا کہ ہم نے اپنے آباﺅ اجدا د کی قربانیوں، ماﺅوں بہنوں
کی عزتوں اور بھائیوں کے خون کو صرف ردی کی ٹوکری میں فضول چیزوں کی طرح
ڈال دیا ہے ہم ان کی ان قربانیوں کو بھول چکے ہیں جو انھوں نے اس ٹکڑے کو
حاصل کر نے کے لئے دی تھیں ان بہنوں کو بھول چکے ہیں جن کی عزتوں سے پہلے
پردہ چھینا گیا اور بعد میں ان کی عزتوں سے کھیل کر ان کو شہیدکر دیا گیا
اور ان بھائیوں کو بھی بھول چکے ہیں جنھوں نے اس ملک کے لئے اپنی جانوں کی
قربانی دی ان ماﺅوں کو بھی بھول چکے ہیں جنھوں نے خود اپنے لخت جگروں کو اس
پر قربان ہونے کا ”حکم “دیا ہو گا آ ج تو صرف ذاتی انا کی تسکین اور ذاتی
مفادات کے لئے اسے استعمال کرناشروع کر دیا ہے ا حتساب کی بات کر تے ہیں تو
اپنے آ پ سے کر تے ہیں اگر ہم لکھاری ہیں تو اپنے ذاتی مفاد ات کے لئے
لکھتے ہیںاور جہاں سے ہمیں مالی مفاد حاصل ہو تے ہیں ان کے حق میں لکھتے
ہیں ان کے ہر جائز و ناجائز کام پر بھی ان کے قصیدے لکھتے ہیں اگر سیاست
دان ہیں تو وہ بھی قومی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کے لئے سیاست کر تے
ہیں اگر کلرک ہیں تو کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں اگر سٹوڈنٹ ہیں تو سکول /کالج
پڑھنے کے بجائے صرف اور صرف وقت گزاری کی جگہ سمجھتے ہیں جب کہ یہ ملک ان
عقائد پر عمل پیرا ہو نے کے لئے تو نہیں حاصل کیا گیا تھا اور اتنی
قربانیاں ان کاموں کے لئے تو نہیں دی گئیں تھیں جو آج ملک میں ہو رہے
ہیں۔جب کہ ہم سب اسے ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کا مقصدِ حیا ت
اور منشور ایک ہے تو کیا بات ہے کہ پاکستان 65سالوں بعد بھی اسی پسماندگی
میں اپنے دن گزار رہا ہے جو قیام پاکستان کے وقت اس کی گو د میں موجو دتھی
اگر ہم سب اس کو ترقی یافتہ بنانا اوردیکھنا چاہتے ہیں تو وہ کیا محرکات
ہیں کہ آ ج تک ترقی اس کو چھو کر بھی نہیں گزری تو حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف
نعروں سے اس کی ترقی کے گن گاتے ہیں عملی اقدامات کو ئی نہیں کر تے اگر
سیاست دان ہیں تو تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں اسے ترقی یافتہ ملک
بنانے کے لئے لکھا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی
مفادات کو مقدم رکھتی ہیں اور اس کی ترقی کو پس پست ڈال کر اپنے لئے ذاتی
فائدے حاصل کر تی ہیں ۔ نہ تو عوام کے لئے اور نہ ہی ملک کے لئے سیاست کرتی
ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا بیرونی دنیا میں امیج خراب ہو چکا ہے اگر کوئی
ڈاکٹرہے تو وہ مسیحا بننے کی بجائے مرتے ہو ئے مریض کے سر پر اپنی فیس کی
تلوار لٹکائے رکھتاہے اگر ٹیچرہے تو اپنے ادارے میں پڑھنے کی بجائے اپنی
اکیڈمیاں چلانے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور اگر ا نجیئیر ہے تو وہ
وقتی طو ر پر کام کرتا ہے جس میں مضبوطی کوئی نہیں ہو تی اور ایسا میٹریل
استعمال کر تا ہے کہ عمارت، سڑک، اوورہیڈبرج، وغیرہ کی زندگی کا وقت نہیں
دیتااگر دوکاندار ہے تو ملاو ٹ کر نا اپنا فرض سمجھتا ہے غرض تمام شعبہ
زندگی میں ہم سب ہی تو لٹیرے ہیں تو پھر ہم اسے کیسے ترقی یافتہ کہہ سکتے
ہیں اور کیسے ترقی یافتہ کا خواب دیکھ سکتے ہیں ۔خواب کو شرمندہ تعبیر کر
سکتے ہیں؟ جب کہ اب بھی وقت ہے ہم اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر
سکتے ہیںاس کے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو رد کر وا سکتے ہیں گر اب بھی
ہم ضمیر کی عدالت میں خود کو پیش کر تے ہو ئے حقیقی طور پر اس کی ترقی کے
لئے ایک نئے جذبے کے تحت کام شر و ع کر دیں تو بہت جلد ہم اس ملک کو اس کی
عوام کو ان کا کھویا ہوا معیار زندگی اور اعتما د دے سکتے ہیں اس کے لئے
ہمیں خود سے تبدیلی کی ابتدا ءکر نی ہو گی خود غیر اخلاقی اور غیر قانونی
سرگرمیوں کو ترک کر نا ہوگا ہمیں خود کا رول ماڈل بننا ہو گا جسے دیکھ کر
دوسرے بھی اس راہ پر چلنے کا عزم خود بہخود کریں کسی کو اس راہ پر لانے کے
لئے کوئی تبلیغ نہ کر نی پڑے اور اپنے ارد گرد موجود کوتاہیوں کا ازالہ کر
نا ہو گا ۔سیات دان اپنی طرز سیاست میں تبدیلی لائیں صرف جلسوں میں مخالفین
کی کمزوریوںکو سامنے لا کر اپنے لئے ”ہمدردیاں “ اکٹھی نہ کر یں بلکہ اس
قوم کو ایک روشن راہ دکھائیں اس پر چلنے کا عزم دیں اور خود راہبر بن کر
آگے چلیں تو وہ وقت دور نہیں جب چین،ایران کی طرح ہمارا ملک بھی حقیقی ترقی
کرتا ہو ا ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جا ئے گا اورعوام کا معیار
زندگی بھی بلند ہوگااورسیاست دان قائد کے افکار پر چلنے کی تلقین کریں کام
کام اورصرف کام کی تلقین کریںدعا ہے کہ14 اگست 2012ءہماری قوم کو ”ایمان،
اتحاد، اور نظم “ کا صحیح مطلب سمجھنے اور اس پر آ ئندہ سالوں میں عمل پیرا
ہو نے کی تو فیق بخشے اور اللہ پاک پاکستان کو ہمیشہ سلا مت رکھیں (آمین)پاکستا
ن زندہ آ باد |