تشکیل پاکستان کے۶۶ ویں سال میں کتنا اور کھونا ہے؟

پینسٹھ سال بعد ہم تشکیل پاکستان کا 66واں جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔لیکن اس دوران میرے سامنے مولانا عبدالکلام آزاد سے منسوب مشہورو معروف پیش گوئی بھی ہے جس میں مولانا عبدالکلام آزاد کا کہنا تھا کہ "بھارت کے جو مسلمان پاکستان چاہتے ہیں انہیں بہت جلد پچھتاوے کا احساس ہوگا کیونکہ وہاں ایسے گروپ ہیں، جو طاقتور ہیں اور وہ "مہاجرین" کو اپنے تسلط سے زیر کریں گے"۔پھر مجھے تقسیم ہند یا تخلیق پاکستان کے اس حساس اور انتہائی اہم موضوع پر خان عبدالغفار خان کی مخالفت بھی یاد آنے لگی جو پاکستان کے مخالف اور ایسے مسلمانوں کا بٹوارہ سمجھتے تھے۔ جماعت اسلامی اور ان علما ءہند کے نظریات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جنھوں نے پاکستان کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی اور پاکستان کی اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا گیا کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شریک نہیں !! ۔۔

آج بر صغیر کے علاقے پاکستان کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس اثرات و مضمرات کی فصلیں اب بھی کاٹی جارہی ہوں ۔سابق وزیر خارجہ بھارت جسونت سنگھ نے"جناح،بھارت، بٹوارہ اور آزادی"کے عنوان سے لکھی کتاب میں محمد علی جناح اور جواہر لال نہرو کی سیاسی شخصیات کے تجزئیے کے تقابل میں جب اپنے تئیں یہ نظریہ اجاگر کرنے کی کوشش کہ" قائد اعظم تقسیم ہند کے ذمے دار نہیں بلکہ یہ سب پنڈت نہرو کی کارستانی ہے۔"صاحب کتاب نے عام ہندو مورخین سے ہٹ کر "جناح کو سیکولر آدرشوں اور جمہوری روایات کا علمبردار ہی قرار نہیں دیا بلکہ معاہدہ لکھنو کی بنیاد پر انہیں ہندو مسلم ایکتا کا روح رواں بھی جتلایا۔"تمام مباحث سے قطع نظر جب مشرقی پاکستان میں ہونے والی نا انصافیوں اور ان کی احساس محرومیوں کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام ہوا تو جناح کا پاکستان ٹوٹ چکا تھا ۔مولانا عبدالکلام آزاد کا" مفروضہ پچھتاوا" تو حقیقت پسندانہ، نا کیا جائے لیکن" بہار "سے آنے والے ان مہاجرین کے ساتھ بد تر سلوک جب دونوں ممالک ( پاکستان اور بنگلہ دیش ) کی جانب سے روا رکھا گیا اور انھیں قبول کرنے سے انکار کیا گیا تو بہاری مہاجرین یہ ضرور سوچتے ہونگے کہ ان کا قصور کیا تھا جو انھیں صرف زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش قبول نہیں کرتا اور پاکستان کا رویہ بھی ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا ہے کہ آج بھی لاکھوں مہاجرین بنگلہ دیش کی سر زمین پر پاکستان کی جانب سے قبول کئے جانے کے انتظار میں اپنی نسل کی تیسری پیٹری میں داخل ہوچکے ہیں۔پاکستان میں جب پنجاب کو دیکھا تو وہاں بھارتی پنجاب سے آنے والے پنجابیوں کو پاکستانی پنجابی تسلیم کرلیا گیا لیکن جب سندھ میں نظر دوڑائی تو سندھ میں آنے والے مہاجر ،سندھی تسلیم نہیں کئے گئے ۔طاقت کے زور پر کمزور طبقے کو زیر نگیں کرنے کا عمل سوچ سے بڑھ کر ثابت ہونے لگا جب جنوبی پنجاب میں سرائیکیوں اور خیبر پختون خوا میں ہزارہ وال، سواتیوں، بلوچستان میں بلوچ ، پشتون،سندھ میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور احساس محرومیوں کی لمبی فہرست ہمیں سقوط پاکستان کی یاد دلاتی ہے ۔ابھی میں خیالات کے جنگلات سے گذرنے کا راستہ تلا ش کر رہا تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے میں بھی تو مہاجر ہی ہوں جیسے سوچی سمجھی لسانیت کی سازش کے تحت دیوار سے لگا کر قوموں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ میں پشتو بولنے والا مہاجر ہوںجو افغانستان سے سرد جنگ کے بعد پاکستان آیا ۔ میں خیبر پختوخوا ، بلو چستان سے آنے والا مہاجر ہوں جو اپنے رزق کے حصول کےلئے اپنے جنت نظیر علاقے چھوڑ کر تپتے ، جھلستے میدانوں میں محنت مزدوری کےلئے آیا اور پھر یہاں ہی کا ہو رہا ۔ شائد مولانا عبدالکلام آزاد ہمارے بارے میں ہی کہہ رہے تھے کہ ©" ہمیں طاقت سے سازش سے دبایا جائے گا۔"بھی تک تو ہمارے دانشور ،مورخ طے ہی نہیں کرپائے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے کہ سیکولر اسٹیٹ ؟ ۔۔ میں اس دور میں واپس جا کر قائد اعظم سے ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ بانیان پاکستان کے ساتھ اس وقت جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں کیا آپ کے کھوٹے سکے ایک بنگلہ دیش بنا کر خوش نہیں ہوئے ؟ ۔

قرار داد پاکستان جس کے پیش کردہ بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق تھے۔قرارداد میں کہا گیا کہ" ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے ، انھیں یکجا کرکے" آزاد مملکتیں "قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو"۔

07اپریل1946دلی کنونشن میں جب مسلم لیگ کی جانب سے ترمیم کی گئی تو اس قرارداد میں پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندہی میں شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد ، سندھ ، بلوچستان کو تو شامل کیا گیا لیکن کشمیر کا ذکر نہیں تھا حالاںکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا ۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں"آزاد مملکتوں "کا ذکر یکسر حذف کردیا گیا تھا جو قرار داد لاہور میں بہت واضح تھا ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ" قرار داد لاہور" کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا ، یونینسٹ پارٹی اس زمانے میں مسلم لیگ میں ضم ہوگئی تھی ا ور سرسکندر حیات مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے ۔1946کے دلی کنونشن میں" پاکستان "کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی اور یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائید کی ، قرار داد پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انھیں" سن 1941میں مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا تھا"۔

تاریخی حقیقت ہے کہ قرار داد لاہور واحد مملکت کے بجائے دو مختلف مملکتوں کا تصور دے رہی ہے۔ کیا اس تصور کے تحت ہی بنگلہ دیش کے وجود کو پروان چڑھانے کےلئے قیام پاکستان سے سازش پر عمل شروع کردیا گیا اورکیا اس قراد داد کے مطابق بلوچستان کے عوام ، اپنی مملکت ، سندھ کے عوام اپنی مملکت ، خیبر پختونخوا کی عوام اپنی مملکت کا قیام عمل لانے کےلئے مطالبہ" درست" کر رہے ہیں ؟ یا جو پاکستان مخالف جماعتیں تھیں وہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کےلئے اب منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی سازشوں کو کامیاب بنانے کےلئے روبہ عمل ہیں ۔

کیا جس طرح مشرقی پاکستان دو لخت ہوا اس طرح ہمیں پھر ہجرت کرنا ہوگی ۔ کیا میں ہمیشہ مہاجر رہوں گا یا ہمیں اس گتھی کو سلجھانا ہوگا کہ استعماری قوتیں اپنی استبدادی طاقت کے ساتھ جبر کیوں کر رہی ہیں ؟ ۔کراچی کو ہی تختہ مشق کیوں بنایا جاتا ہے جبکہ کراچی میں آنے والی ، رہنے والی تمام قومیتں کراچی کو پاکستان کی شہہ رگ بناچکی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ چھپی قوت سامنے آگئی ہے جس نے کراچی کی ترقی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی خوشحالی کے بجائے اپنے تئیں احساس کمتری کے تحت سازش کو جنم دیا ہے جس کا عملی مظاہرہ کراچی کے سڑکوں پر بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے ظاہر ہے۔کیا اردو بولنے والے کو اس مارا جاتا ہے کہ وہ بھارت جائیں، پختون ، خیبر پختونخوا اور بلوچ، کچھی بلوچستان چلے جائیں۔شائد کچھ ایسا ہے !! ۔۔ لیکن اللہ کرے ایسا نہ ہو کیونکہ یہ خوفناک سازش ہے۔مملکت کی تشکیل کے 66واں سال میں آزادی کے ثمرات سے تو ہم مستفید نہیں ہوسکے لیکن بچے کچے پاکستان کے خلاف بڑی شد ومد سے سازشوں کا ایسا جال بننا جا رہا ہے کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ زمینی قیمتی ذخائر سے مالال مال زمین بلوچستان ، خانہ جنگی کی تصویر پیش کر رہا ہے ، کراچی جو پاکستان کو ستر فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے اس قدر بدامن اور افراتفری کا شکار بنا دیا گیا ہے کہ نئی صنعت لگنے کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے ۔ ایک کاروبار ہی صرف کامیابی سے چل رہا ہے جیسے بھتہ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔خیبر پختونخوا میں شدت پسندی اورماضی کی غلط خارجہ پالیسوں کی بنا ءپر اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔پنجاب میں اقتدار اور سیاسی انتشاری کی کشکمش نے زرخیز زمین کے تمام فوائد ختم کرڈالے ہیں۔

فرقہ واریت ، لسانیت، عصبیت ، نسلی عدوات سمیت معاشرے کی تباہ کن برائیاں جڑ پکڑتی جا رہی ہیں۔66سال بعد بھی ہم پاکستان کو تشکیل کرنے کے لئے خود کو ایک قوم میں مربوط نہیں کرسکے۔بے روزگاری، مہنگائی،لوڈشیڈنگ،رشوت خوری،اقربا پروری ،کے خمیر سے پھلنے پھولنے والا یہ پاکستان یقینی طور پر وہ پاکستان نہیں ہے جس کے لئے لاکھوں بانیاں پاکستان نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا۔بہنوں نے عصمتوں کی قربانی دی۔شرفا ءنے عزت نفس کو جنگ کی آگ میں جھونکا۔ جشن پاکستان منانے کے بجائے ہمیں شرمسار ہوکر معافی مانگنی چاہیے کہ پاکستان جس مطلب کے لئے حاصل کیا تھا آج اس کا عشر و عشیر تک نہیں ۔۔۔۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 295930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.