وہ جب تیرہ سال کی ہوئی تو اس کے
بال جھڑنے کا سلسلہ جاری ہوا اور سکول و کالج میں دوران تعلیم لوگ اسے گنجی
کہہ کر پکارتے تھے -کلاس فیلوز اس کا مذاق اڑاتے اور وہ روزانہ اپنے
ساتھیوں سے جھگڑ کر واپس گھر آجاتی اور والدین سے رو رو کر یہ شکایت کرتی
کہ " آخر میرے ساتھ ہی یہ کیوں ہورہا ہے "اور میں گنجی کیوں ہورہی ہوں-جس
کا جواب کوئی نہیں دیتا کیونکہ اسے ایسے بیماری لگ گئی تھی جس کے باعث نہ
صرف اس کے بال جھڑ گئے بلکہ اس کے بھنویں بھی ختم ہوگئیں اور وہ لوگوں میں
بدصورتی کا "نمونہ "بن گئی -لیکن!
یہ قصہ برطانیہ کی ایک لڑکی " جوانا روسل" کا ہے جس نے اپنی ہمت سے ایسی
داستان رقم کی کہ آج لوگ اس گنجی کی ہمت کو داد دے رہے ہیں - جوانا روسل ہی
وہ لڑکی ہے جس نے اولمپک 2012 ء میں سائیکلنگ کے مقابلوں میں گولڈ میڈل
حاصل کیا یہ وہی لڑکی ہے جو لوگوں کے روئیوں سے بددل ہوگئی تھی لیکن جب اسے
وکٹری سٹینڈ پر گولڈ میڈل دینے کیلئے بلایا جارہا تھا تو اسے بتایا گیا کہ
وہ اپنے گنجے پن کو چھپانے کیلئے وگ بھی استعمال کرسکتی ہیں تاکہ اسے اپنی
بدصورتی کا احساس نہ ہو اور نہ ہی کسی احساس کمتری کا شکار ہو کیونکہ اس کے
ساتھ کھڑی ہونیوالی دیگر سائیکلسٹ کے خوبصورت بال تھے اور انہوں نے چوٹیاں
باندھی ہوئی تھیں لیکن اس بہادر لڑکی نے یہ کہہ کر وگ استعمال کرنے سے
انکار کردیا کہ "آج میں چاہتی ہوں کہ لوگ مجھے میری اصل سے پہچانے اور
حقیقت میں دیکھیں جیسی میں ہوں " یہ کہہ کر اس نے وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہو
کر سائیکلنگ کے میدان میں گولڈ میڈل حاصل کیا-آج اس باہمت لڑکی کو نہ صرف
برطانیہ بلکہ پوری دنیا میں سلام پیش کیا جارہا ہے اور اسے آئیڈیل قرار دیا
جارہا ہے - بالوں کے نہ ہونے کی وجہ سے "گنجی "ہو کر تضحیک کا نشانہ بننے
والی "جوانا روسل "آج دنیا بھر میں لڑکیوں اور خصوصا کھیل کے میدان میں ہمت
او ربہادری کا "نمونہ " ہے -
ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جوکسی نہ کسی کمی کا شکار ہے اپنے ارد گرد
نظر دوڑائیے -آپ کو بہت سارے لوگ "جوانا روسل"کی بیماری کا شکار نظر آئینگے
اس کے ساتھ ہم لوگوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح برطانوی
سائیکلسٹ جوانا روسل کیساتھ اس کے سکول کے ساتھیوں کا تھا لیکن جوانا نے جب
سیکنڈری سکول میں سائیکلنگ کے کھیل میں حصہ لیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں
دیکھا- اسے لگنے والی بیماری ایک سو افراد میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے اس کے
ارد گرد لوگ اسے گنجی کہہ کر مذاق اڑاتے تھے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور
کھیل کے میدان میں مستقبل مزاجی کیساتھ مصروف عمل رہی - اپنی اسی ہمت سے
اولمپک 2012 ء میں سائیکلنگ کے مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ
میڈل حاصل کیا - ایسے وقت میں جب ساری دنیا اس کو ٹی وی سکرین پر دیکھ رہی
تھی اس نے اپنی کمزوری ظاہر نہیں ہونے دیا اس گنجی نے گولڈ میڈل حاصل کرکے
سب کو دکھادیا کہ امید کیساتھ ہمت ہو تو بہت کچھ ممکن ہو سکتا ہے-
ہم وہ لوگ ہیں جو دوسروں کے زخموں پر نمک ڈالناجانتے ہیں یا پھر اسے مزید
چیرلگانے کی ہماری سوچ ہے تاکہ دوسروں کو تکلیف ہوہمارے اس روئیے نے ہمارے
ارد گرد کتنے ہی باصلاحیت لوگوں کو تباہ و برباد کردیا ہے ہم میں انفرادی
طور پر دوسروں کو برداشت کرنے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کی کمی ہے اور
اسی روئیے کے باعث ہم لوگوں کو اپنے سے آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے -اور
یہی انفرادی عمل اب ہمارے اجتماعی زندگی کا حصہ بن گیا ہے -میرے اتنے لمبے
تمہید کا مقصدایک سیاسی پارٹی کی جانب سے لاہورمیں کینسر ہسپتال پر اچھالی
جانیوالی کیچڑ کے بارے میں بات کرنا ہے -ہمارے ہاں کتنے ایسے مریض ہیں جو
برطانوی سائیکلسٹ کی طرح ہمت کرکے اپنے آپ کو آگے لاتے ہیں کتنے ایسے ہیں
جو اپنی کسی موذی بیماری کا علاج کرنے کیلئے ہسپتال کا رخ کرتے ہیں اور
ایسے کتنے مریض ہیںجو ایسے ہی بیانات کی وجہ سے نہ صرف دلبرداشتہ ہو جاتے
ہیں بلکہ ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی زکواة عطیات کا پیسہ بیماروں کے
علاج پر خرچ ہوتا ہے لیکن انہوں نے ان بیانات کے بعد عطیات اور زکواة
متعلقہ ہسپتال کو نہیں دئیے جس کا اثر ان غریب لوگوں پر پڑے گا جو اسی
ہسپتال میں کینسر جیسے موذی مرض کا علاج کرنے کیلئے آتے ہیں -
میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں- اپنی چھتیس سال کی زندگی میں کوئی
ایسی سیاسی پارٹی نہیں دیکھی جو اس ملک کے غریب اور بے بس عوام کیساتھ مخلص
ہوں یہاں پر آنیوالا ہر ایک خواہ وہ شیرپر بیٹھ کر سیاست کررہا ہے یا پھر
روٹی کپڑا اورمکان کے نام پر عوام کو تیر ما رہا ہے اکیسویں صدی میں بھی
عوام کو"لالٹین "کی روشنی دے رہا ہے یا پھرکوئی انقلاب لا رہا ہے -ان باتوں
سے غریب اور بے کس عوام کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دال آٹے چینی کے چکر کے
بعد مہنگائی اور بجلی نے انکی کمر توڑ دی ہے بلکہ انہیں مختلف بیماریوں کا
شکار کردیا ہے ان بیماریوں میں ایک بیماری کینسر کی بھی ہے جس کے علاج
کیلئے اگر کسی شخصیت نے ہسپتال قائم کردیا ہے ا جہاں پر غریب لوگ بھی علاج
کیلئے جاسکتے ہیں - اگر اس ہسپتال کو سیاست کی نذر کیا جائے تو یہ ان غریب
عوام کیساتھ زیادتی ہے جو حکمرانوں کو اس وقت یاد آتے ہے جب انہیں "ووٹ "کی
ضرورت ہو -
ْخدارا! وطن عزیز کو 65سال گزر گئے ہیں آج عوام کو کسی بھی سیاسی پارٹی سے
کوئی دلچسپی نہیں نہ رہی چند لوگ اگر پارٹیوں کے زندہ باد ` مردہ باد کے
نعرے لگا رہے ہیں انہیں اس کی "پیمنٹ" ملتی ہیں عوام اپنے مسائل کا حل
چاہتی ہیں انہیں روزگار کی ضرورت ہے انہیں بیماریوں کے خلاف لڑنا ہے اور ان
مسائل کے حل کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے اختلافات ختم کرنے ہونگے
سیاسی رہنمائوں کے اپنے مقاصد اور ایجنڈے ہیں لیکن خدا کیلئے اگر کوئی بھی
شخصیت اس غریب عوام کیلئے کوئی بھلائی کا منصوبہ چلا رہا ہے تو اسے سپورٹ
کریں انہیں برداشت کرے اگر کسی میں اس طرح کی بھلائی کی ہمت نہیں تودوسروں
کی ہمت دلائیں انکے ساتھ تعاون کرے تاکہ غریب عوام کی حالت بہتر ہو - |