پاکستان اور امریکہ کے تعلقات
کچھ عجیب نو عیت کے ہیں یہ حکومتوں کی سطح پر تو خوشگوار سمجھے جا سکتے ہیں
لیکن عوامی سطح پر اسے کبھی پذیرائی نہیں مل سکی ہے اور یہی حال کچھ سیاسی
حکومتوں کا بھی رہتا ہے کہ جو جماعت جب حکومت میںنہ ہو دوسری جماعت کو
امریکہ کے ساتھ تعلقات کا طعنہ دیتی رہتی ہے۔ یہی حال ہمارے فوجی تعلقات کا
بھی ہے کبھی یہ اتنے خوشگوار ہو جاتے ہیں کہ ہم مل کر دوسری سُپر پاور
کاشیرازہ بکھیردیتے ہیں اور کبھی ہمارے F-16 بھی روک لیے جاتے ہیں اور ہمیں
بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ سب پنیترے امریکہ اپنے مفاد کے
لیے بدلتا رہتا ہے اُسے پاکستان کے فائدے مفاد سے کوئی غرض نہیں۔ آج کل بھی
صورت حال کچھ ایسی ہی ہے اور اسی صورت حال میں جب ڈی جی آئی ایس آئی نے
امریکہ کا دورہ کیا تو قوم کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات بالکل بجا تھے
لیکن اِن سوالات کو خدشات کی شکل دینا قوم کو مزید ذہنی الجھن میں مبتلائ
کرنے کے مترادف ہے، جبکہ پہلے ہی اس کی الجھنوں کاکوئی حساب نہیں پچھلے
دنوں ایک اخبار میں آپریشن ’’ ٹائٹ سکریو ‘‘ کی تفصیلات کچھ اس تفصیل سے
پڑھیں کہ جسے وہ وقوع پذیر ہو چکا ہے جبکہ ابھی تک حکومت یا فوج کی طرف سے
ایسا کوئی عندیہ بھی نہیں دیا گیا ہے ۔ حکومت کے ساتھ لاکھ اختلافات سہی
لیکن ملکی وقار کا خیال رکھنا ضروری ہے اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوا نہیں تو
کیوں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی ایسی کوئی ڈیل کرکے واپس
آئے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس میں پاک
فوج کے ساتھ ساتھ امریکی فوجی حصہ لیں گے یعنی ’’امریکہ کو پاکستان میں
زمینی رسائی‘‘ ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی خود مختاری کا مکمل سودا کر لیں
۔ ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی اس بات کا احساس یقینا ہوگا کہ اب تو ہم اپنے
اتنے جوان اس پرائی جنگ میں جھونک چکے ہیں کہ اب مزید کی گنجائش ہی نہیں
اوردوسری بات کیا وہ کسی حکومت کے تابع نہیں اگر ہیں تو کیا حکومت نے انہیں
ایسا کرنے کا مینڈیٹ دے دیا تھا۔ ہم تو اُن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ
تو کیا کسی بھی غیر ملکی طاقت کو وہ پاکستان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے پر
آنکھ پھوڑنے کی دھمکی دے آئیں اور وقت آنے پر ایسا کرکے بھی دکھائیں۔ ظاہر
ہے اندر کی بات، تو بات کرنے والے ہی جانتے ہونگے لیکن ان کی طرف سے تو قوم
کو یہی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ڈرون حملوں اور سرحد پار سے پاکستانی
سرحدوں کے اندر اور پاک فوج پر تحریک طالبان کی طرف سے حملوں پر بھی سخت
موقف اپنایا گیا کہ امریکہ اِن دونوں طرح کے حملوں کو روک دے اور ڈرون
ٹیکنالوجی پاکستان کو منتقل کر دے تاکہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف خود کا
روائی کر سکے اور یوں ہم وطن عزیز میں دہشت گرد کاروائیاں کرنے والوں کو
خود روک سکیں کیونکہ ظاہر ہے امریکہ اپنے دشمن کے خلاف تو کاروائی کرتا ہے
ہمارے دشمن کے خلاف اُسے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اُس کے اِنہی ڈرون حملوں
کے بعد ہی تو پاکستان کے دوسرے علاقوں میںان کاروائیوں میں تیزی آتی ہے۔
یوں اِن حملوں کا نقصان ہر طرف سے پاکستان کو ہی ہوتا ہے ایک طرف اُس کی
خود مختاری پر حملہ کیا جاتا ہے، اُس کی سرحدیں روندی جاتی ہیں اوراُس کے
شہری ہلاک ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس سب کچھ کا بدلا دوسرے معصوم شہریوں سے
لے لیا جاتا ہے جو خود ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے لیے روتے ہیں۔ ہاں
حکومت اور آئی ایس آئی کو اس پر مزید سخت موقف اپناتے ہوئے امریکہ کو اِن
حملوں کو روک دینے پر مجبور کر دینا چاہیے ۔ بلکہ اُسے اس بات پر بھی آمادہ
کر لینا چاہیے اور یہ یقین دہانی کروالینی چاہیے کہ افغان سرحد کے اُ س پار
سے پاکستانی سرحد کے اندر ہونے والی کا روائیاں روک دی جائیں۔ کیونکہ
پاکستانی عوام اور پاک فوج کو بھی یقین ہے کہ یہ کاروائیاں امریکی مدد کے
بغیر نا ممکن ہیں۔ حکومت اور افواجِ پاکستان کی طرف سے اگر چہ ہمیشہ اس بات
کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان کا حقانی نیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں
اور اب بھی ایسا ہی کیا گیا تاہم اس الزام کو مزیدسختی سے مسترد کیا جانا
چاہیے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کی کسی بھی قسم کی مدد کر رہے ہیں یا ہمارا ان
سے کسی قسم کا تعلق ہے ۔ یہ ساری تنظیمیں خود امریکہ کی پیداوار ہیں اسی نے
انہیں بنایا اور پروان چڑھایا تو اب ان کا الزام پاکستان کے سرکیوں تھوپاجا
رہا ہے اور اِن کاروائیوں کا ذمہ دار پاکستان کو کیوں سمجھا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے وہ اپنے خلاف ہونے والی کاروائیوں کا جواب دیں گے یہ ایک فطری امر
ہے۔
پاک فوج کے ہر ہر اہلکار نے ہمیشہ جس طرح اپنے فرائض اد کیے ہیں اُن پر
پوری قوم کو فخر ہے اور بھروسہ بھی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں جہاں ہر
ادارہ دوسرے سے بدظن اور ہر شخص دوسرے کے بارے میں مشکوک ہے اسے بھی محتاط
رہنے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے معاملات میں جہاں تک ممکن ہو قوم کو اعتماد
میں لے لینا چاہیے تاکہ بدگمانیاں مزید نہ بڑھیں ۔ قوم یہ جانتی ہے کہ ہر
حکومتی اور خاص کر فوجی معاملہ مشتہر نہیں کیا جا سکتا لیکن عام اعتماد کی
فضا بحال رکھنے کے لیے خاص کر اقدامات ہونے چاہیں تاکہ چہ میگوئیاں جنم ہی
نہ لیں اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے خبروں کو اچھالانہ جا سکے،
اور یوں بد اعتمادی کی فضا پیدانہ ہو ۔ پھر ہمارے اپنے میڈیا کو بھی عوام
کو صرف اندازوں، تبصروں اور تجزیوں میں الجھا نے کی بجائے درست حقائق سامنے
رکھنے چاہیں ۔ حکومت اور فوج نے اگر مضبوط موقف اپنا یا ہو تو اس کی حوصلہ
افزائی کریںا ور تنقید کی بجائے ایک گائیڈ کا کردار ادا کرتے ہوئے لوگوں کی
رائے کو اوپر تک پہنچانا چاہیے۔
اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور اس کے ہر ذمہ دار کو اس کے مفادات کا تحفظ
کرنے کی ہدایت دے ۔ آمین۔ |