بعد از وصال نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم سے تو سُّل
۔ عطاء الہی بو سیلئہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
ارشاد باری تعالی ہے:
کلا نمد ھؤلاء و ھولآ ء من عطا ربک ط وما کا عطآء ربک محظورا
ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ، ان (طالبان دنیا ) کی بھی اور ان (طالبان آخرت
کی بھی ۔(اے حبیب مکرم!یہ سب کچھ ) آپ کے رب کی عطا سے ہے اور آپ کے رب کی
عطا (کسی کیلئے) ممنوع اور بند نہیں ہے ۔
اس آیت کریمہ میں یوں نہیں فرمایا : ھؤلا ء من عطا ء ربھم (یہ سب کچھ ان کے
رب کی عطا سے ہے ) ، بلکہ فرمایا : ھؤلاء من عطآء ربک (یہ سب کچھ آپ کی رب
کے عطا سے ہے ۔) یعنی عطا تو بے شک رب کی ہے مگر آین مبارکہ میں اللہ تعالی
نے فرمایا : تیرارب کہ کردیتا ہوں تاکہ ہر ایک کا دھیان میری عطا کے بعد
تیری طرف رہے ۔
اس سے ظاہر ہوا کہ کائنات میں جس کو جو کچھ ملتا ہے وہ وسیلہ مصطفے صلی
اللہ علیہ وسلم سے ہی ملتا ہے اور ملتا رہے گا ۔
مزکورہ آیہ کریمہ کت پہلے جزو میں اللہ رب العزت نے اپنا نظا م ربو بیت
بیان فرمایا کہ ہم ہر ایک کو عطا کرتے اور ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ۔
دوسرے جزو میں فرمایا کہ اے محبوب ! ہم یہ اعلان کردینا چاہتے ہیں کہ جس کو
جو کچھ عطا ہوتا ہے اور جس کو بھی نوازا جاتا ہے اور جس پر جو بھی نواز شات
و عنا یا ت کی جاتی ہیں ، وہ سب کچھ تیرے رب کی عطا ہے ۔
عام قاصدہ یہ تقاضا کرتاہے کہ مزکورہ آیہ کریمہ میں عطا ء ربک کی بجا ئے
عطا ء ربھم ہونا چاہئے تھا کہ بات مخلوق کی ہورہی ہے اور لوگ اسے اپنا کمال
نہ سمجھیں بلکہ یہ سمجھیں کہ سب کچھ ان کے رب کی عطا سے ہے ۔ یہ بات خاص
طور پرقابل توجہ ہے کہ اس آیہ کریمہ میں اس سے ہٹ کر مختلف انداز میں بات
کی گئی ہے ۔ اور یہ اس لئے کہ ان سب کو معلوم ہو جا ئے کہ جس کو جتنا عطا
ہوتاہے اور جوکچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ کے محبوب کے رب کی عطا ہے اور اسی کے
وسیلے سے ملتا ہے ۔ وہ کہیں یہ گمان نہ کرنے لگیں کہ ان کو اپنے کما اور
محنت کی وجہ سے ملتا ہے بلکہ سب کو اللہ کے محبوب کے وسیلے سے عطا ہوتا ہے
۔
یہا ں ذہین میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالی ان کا رب نہیں جب کی
وہ مدد فرماتا ہے ؟ ان کا رب بھی تو وہ ہی ہے اور اسی لئے ان کی مدد و نصرت
فرماتاہے اور اگر ان کا رب نہ ہوتا تو پھر وہ انہیں کلا نمد ھؤ لا ء کے
مصداق نہ ٹہراتا ۔ اگر وہ ان کا بھی رب ہے تو پھر یہاں خصو صیت کے ساتھ ھو
لآء من عطآ ء ربک کیوں ارشاد فرمایا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں پر یہ نکتہ آشکار ہوجائے کہ یہ عطائیں تو سب اسی
کی ہیں مر ان سب کو محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کت واسطے سے ملتا ہے ۔
تو گویا یہ آیت زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے:
کو ئی مانے نہ مانے اپنا تو عقیدہ ہے
خدا دیتا ہے لیکن ، دیتا ہے صدقہ محمد ک
یہ ہمارا عقیدہ ہے اور یہی عقیدہ صحیح و مستحکم ہے ۔ علاوہ ازیں ربک کا
کلمہ اس حقیقت کو بھی آشکار کررہا ہے کہ جس طرح رب العالمین ایک ہے اسی طرح
اس کا اصل میں مربوب بھی ایک ہی ہے اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذات گرامی ہے ۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اللہ رب
العزت کے سارے فیضان ربوبیت کا اجمال ہے اور تمام کائنات اس اجمال (حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تفصیل ہے ۔
ایک تمثیل سے وضاحت :۔
اس کو ایک مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے : کیسے کوئی شخص باہر سے آئے اور
اپنے بچے کے لئے ایک تحفہ لائے لیکن ساتھ اپنے بیٹے کو دوستوں کے لئے بھی
تحائف لائے اور پھر سلسلہ ہمیشہ چلتا رہہے کہ باپ اپنے بیٹے کےلئے تحائف
لانے کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں کو بھی تحائف سے نوازتا ہے ۔ اگر اس امر کے
دوام پکڑنے سے اس کے بیٹے کے دوست یہ سمجھے لگیں کہ شاید یہ ہمارا حق ہے
اور ہمیں ہماری ہی کسی خوبی کی وجہ سے تحفوں کا مستحق قراردیاگیا ہے ۔ ان
کے اس گمان باطل کو دور کرنے کے لئے ایک دن اس لڑکے کا باپ اپنے بیٹے کو
دوستوں کو جمع کرکے کہے کہ بے شک میں تمہیں تحائف دیتا ہوں ، مگر ذہن میں
رکھ لو کہ تمہیں اس لئے دیتا ہوں کہ تم میرے بیٹے کے دوست ہو اور اگر چاہتے
ہو کہ میری دادوینش کا سلسلہ جاری رہے تو پھر میرے بیٹے کے ساتھ اپنے تعلق
دوستی قائم رکھو اور اگر اس تعلق کو توڑ کر اسے درمیان سے ہٹادو گے تو یہ
سلسلہ عطا ء بند ہو جائے گا ۔
بلا تششبیہ وبلا مثال اس آیۃ مبارکہ میں بھی اللہ پاک یہی نکتہ سمجھا رہا
ہے کہ بلا شبہ ہر ایک کو ہم نوازتے ہیں ، ہر ایک کی ہم مدد کرتے ہیں مگر
میرے فیضان ربوبیت کا پہلا مظہر اور میرے لطف وکرم کا پہلا مرکز و محور
میرا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اس لئے جو کچھ بھی تمہیں دیتا ہوں وہ
اس وجہ سے ہے کہ میں رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ہمہ وقت یہ بات ذہن
میں رکھنی چاہئے کہ ہر عطا ء رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا ہے ۔ اگر
لوگ چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ عطا قائم رہے تو اس دامن کو تھامے رکھیں اس مرکز
سے رابط قائم رکھیں ۔ اگر یہ رابط قائم رہا تو اس نسبت کو توسل سے سلسلہ
عطا ء جاری رہے گا ۔ جس دن یہ ربط ٹوٹ گیا سمجھ لینا کہ سلسلہ عطا بھی بند
ہو گیا ۔ پھر در بدر بھٹکتے پھروگے ، گلی گلی خاک چھانتے پھرو گے مگر کچھ
حاصل نہیں ہوگا ۔ پس اس نکتے کو ذہن نشین کرلو کہ دیتا ضرور ہوں لیکن رب
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر دیتا ہوں ۔ گویا کہ یہ نکتہ سمجھا یا جا رہا
ہے کہ عطا ء اللہ تعالی کی ہے مگر مرکز تقسیم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذات با بر کت ہے ۔
اعلٰیحضرت امام احمد رضا خاں نے اسی نکتہ کو کیا خوب انداز سے اجا گر کیا
ہے :
بخدا! خدا کا یہی ہے در ، نہیں اور کوئی مقر مقر
جو وہاں سے ہو ، یہیں آکے ہو،جویہاں نہیں تو وہاں نہیں
اس آیہ کریمہ پر غور کرنے سے ایک اور لطیف نکتہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ
ھؤلاءمن عطآ ء ربک میں اللہ رب العزت اپنی ربوبیت کا اظہار نسبت نبوت کے
ذریعے کررہا ہے اور یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ رب تعالی نسبتوں کا محتاج نہیں
۔ وہ شان صمدیت کا مالک ہے ، وہ بے نیاز ہے لیکن اس کے باوجود اپنی ربوبیت
کو نسبت نبوت سے متعارف کرارہا ہے ۔اس سے منشائے ایزدی یہ ہے کہ لوگ اللہ
کو رب مانیں اللہ کی ربوبیت پر ایمان لائیں مگر براہ راست اپنے ذرائع سے
اور اپنے مساعی سے رب کو رب ماننے کی بجائے اسے رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم
سمجھ کر مانیں کیونکہ اس نسبت کے علاوہ معرفت خداوندی کا حصول ممکن ہی نہیں
ہے ۔
ربوبیت کی قسم بذریعہ نبوت
قرآن مجید میں جن جن مقامات پر اللہ رب العزت نے اپنی ر بوبیت کا اظہار
فرمایا ، اسے نسبت نبوت کے ذریعے بیان کیا :
فلا و ر بک لا یؤ منو ن حتی یحکموک فیما شجر بینھم ۔
پس (اےحبیب!) آپ کے رب کی قسم!یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ
اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں ۔
یہا ں رب العزت نے اپنی ربوبیت کی قسم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
نسبت سے کھائی ۔ وربک کے اندر بیان میں مضمر ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ
محبوب! میں رب تو ہرایک کا ہوں لیکن جو لطف تیرا رب ہونے میں ہے وہ کسی اور
جا رب ہونے میں نہیں ۔
صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کت تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی
عنہ پر ہونے والی نوازشات پر نظر ڈالی جائے تو صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو پر ہونے والی عطاؤں میں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی نسبت سے من عطآ ء ربک کی ہی جلوہ گری تھی ۔
اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال فرمائے تو
چودہ صدیاں گزر گیئں تو کیا آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط اور
نسبت سے ملتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ جل مجدہ عالم الغیب ہے ۔ عندہ
مفاتیح الغیب کی شان کا مالک ہے وہ تو ہربات کو حیطہ خیال میں آنے سے بھی
پہلے جانتا ہے ۔ اس نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا اور فرمایا کہ جو پہلے
گزرے ہیں وہ بھی جان لیں کہ انہیں جوکچھ ملا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
رب کی عطا تھی ۔ اور اب محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ظاہری حیات سے پردہ
فرماجانے کے بعد قیامت تک جتنی نسلیں بھی امت مسلمہ کی آئیں گی ، جتنے
طبقات اور مختلف زمانوں میں جتنے لوگ آئیں گے ، ان کو بھی اسی بارگاہ سے
ملے گا :
وما کان عطآ ء ربک اور آپ کے رب کی عطا (کسی کیلئے ) ممنوع اور بند نہیں ہے
۔
یہاں پر اللہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمارہے کہ جس
طرح گزرے ہوؤں کو تیرے رب کی عطا سے ملا ، آنے والوں پر بھی قیامت تک تیرے
رب کی عطا کا دروازہ اسی طرح کھلا رہے گا ۔ گویا جو نسلیں گزرگئیں ان پر
بھی اللہ کی عطا ئیں نسبت نبوت سے ہوئیں اور قیامت تک امت مسلمہ کی جتنی
نسلیں آنے والی ہیں ان پر اللہ کی عطاؤں اور عنایات کی جوبرسات ہوگی ، جس
کو بھی اور جہاں بھی جو کچھ ملے گا نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے
گا ۔
آج اگر ہم ایمان کی شمع روشن کرنا اور ایمان کی لزت و حلاوت پانا چاہتے ہیں
تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ تعلق با للہ کو مضبوط تر کر لیا جائے ۔ اس لئے
کہ جس طرح پہلے لوگوں نے اللہ کی عطا کو نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے
پایا ، ہم بھی رد کی عطا کو نسبت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے
یقینی طور پر جاری و ساری رکھ ساکتے ہیں اور اسی نسبت کا استحکام ہمارے
سینوں میں ایمانی شمعوں کو روشن رکھے گا ۔
بے شک اللہ رب تعالی کی ذات اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ،ذات اپنی ذات
کع حوالے سے جداجدا ہیں ۔ اس لئے کہ وہ خالق ہے اور یہ مخلوق ، وہ رب ہے
اور یہ مربوب ، وہ مرسِل ہے اور ہی مرسَل ، اللہ تعالی معطی ہے تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم عطاؤں کا محل ہیں ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ ذات خالق
ہونت کے حوالے سے اور ہے اور یہ ذات مخلوق ہونے کے ناطے سے دو جدا گانہ
وجود (entities) ہیں مگر ایمان کے باب میں قرآن مجید ہمیں جو قا عدہ سمجھا
رہا ہے وہ یہ کہ ذات کا فرق ضرور ہے لیکن جہاں تک معرفت ، قرب وو صال ،
اطاعت اور نعمتوں کی عطا کا تعلق ہے دونوں میں کوئی فرق اقر بُعد نہیں |