اگست کا مہینہ شروع ہو تے ہی جشن
کا سماں بند ھ جا تا ہے ،گلیوں ،محلوں ،دکا نوں اور قو می شاہراہو ں کو سبز
ہلا لی پر چموں سے رنگین کر دیا جا تا ہے ،”تیر ا پا کستا ن ہے یہ میر ا
پاکستان ہے“ کے ترانے گو نجنے لگتے ہیں ،”جشن آ زادی مبا رک “کا سلو گن ٹی
وی سکرینوں پر جلوہ گر ہو تا ہے جشن آ زادی کے مو قع پر صدر اور وزیر اعظم
کی طرف قوم کو پیغاما ت بھی جا ری کئے جا تے ہیں ۔یہ سب اس لیے ہے کہ ہم
ایک زندہ قوم ہیں ،پائندہ قوم ہیں ۔لیکن انتہا ئی افسوس کے ساتھ جب وطن
عزیز کے دگر گوں حا لا ت پر نظر پڑ تی ہے تو وطن عزیز کی سا لمیت اور وقار
داﺅ پر لگا نظر آ تا ہے ۔آ زاد اور خو د مختار ریا ست ہو نے کے با وجود
BANANAریا ست کی طرح امریکی کا لو نی بنی ہو ئی ہے جب امر یکہ اور اس کے
حواری چا ہتے ہیں اس کا نا ک مروڑ دیتے ہیں غلا مان امریکہ کی ایک طویل فہر
ست ہے جو ہر وقت اپنے آ قا ئی خد مت کے جذبے سر شار رہتے ہیں اس ملک میں
کیا کچھ نہیں ہو ا کس نے ہا تھ صاف نہیں کیے ،کس کا روناجا ئے کن الفا ظ کے
ساتھ جشن آ زادی مبا رک قوم کو پیش کی جا ئے۔۔۔؟ کہاں سے وہ قلم لو ٹی جائے
جو حادثات سے دو چا ر قوم کو آ زادی مبا رک کی نو ید سحر رقم کر ے ،کہاں سے
وہ زبان لا ئی جا ئے تشکر کے کلمات ادا کر ے اگر بے حس اور بے ضمیر ہو کر
با دل نخو استہ زبان سے آ زادی کا نعرہ لگا ئےںبھی تو کم ازکم ”بے حس
ضمیر“دل بھی تڑپ اٹھے گا اس کے جذبات مجروح ہوں گے ایک محب وطن پاکستانی ہو
نے کے نا طے کم ازکم میرا ضمیر مجھ کواجازت نہیں دیتا کہ جشن آ زادی کی مبا
رک با د پیش کر وں بہر حال یہ ایک حقیقت ہے اور تلخ حقیقت ہے کہ ہم آ زاد
ہو نے کے با وجود غلا موں کی صف میں تا ہنو ر کھڑے ہیں ۔گا ہے سو چتا ہو ں
کہ کیا عظیم الشان ریا ست ہے جو پاکستان کے نام کے ساتھ مو سوم رمضان کے ہم
پلہ ہے ،مملکت خدادا کا عظیم تحفہ رمضان المبارک کے با بر کت مہینے ہی حا
صل ہوا ۔لا کھوں انسانوں کے خون کی آ بےاری سے حاصل ہو نے والے ملک میں آ ج
بھی خو نِ مسلم اتنا ارزاں ہے کہ اس کے دھبے آ ج فٹ ہا تھوں اور شا ہراہوں
پر جمے ہو ئےہیں ، ہر گھر ما تم کدہ اور اس میں صف ما تم بچھ چکی ہے گا ہے
سو چتا ہوں کہ یہ کیوں ہے ،آ خر پچاس سے زائد اسلا می ممالک میں سے پاکستان
ہی سا نحا ت کی زد میں کیو ں ۔۔۔
؟آ ئے روز کیو ں اقوام عالم میں اس کی جگ ہنسائی ہو تی ہے ۔مو تیوں کی مالا
کی طرح عذاب خدا وندی کا تسلسل کیو ں ہے ....؟تو میرا ضمیر مجھے قیام
پاکستان کی تا ریخ کے جھر کوں میں دھکیلتا ہے ،مجھے قیام پاکستان کے وقت
گلی کو چوں میں لگنے والے نعرے ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ “کی
طرف متو جہ کر تا ہے ۔میرا ضمیر مجھے لا کھوں انسانوں کے خون کی ند یوں کی
طرف لے جا تا ہے جن خو نی ند یوں کی عبور کر کے یہ ملک حاصل کیا گیا ان آ
ہوں سسکیوں اور چیخوں کی طرف لے جا تا ہے ،جو ایک پاکدامن مسلمان عورت کی
عفت و عصمت کے تار تا ر ہو نے کے مناظر کی یاد دلا تا ہے۔وہ ما ئیں اور
بہنیں یا د دلا تا ہے جو اپنی عفت و عصمت کی خا طر اند ھے کنو یں میں چھلا
نگ لگارہی ہیں، درختوں کے ساتھ لٹکتی علما ءکرام کی مصو ب لا شیں ،کٹے پھٹے
اعضا ءاورپو ری بند لا شیں اور وہ مظالم جو تا ریخ کے سینے میں محفوظ نہیں
وہ سب بھی آ ج نظروں سے او جھل نہیں ہو پا رہے ۔ان کی روحیں تو تڑپ رہی ہو
ں گی اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہو گی کہ کیوں ہم نے اپنا خو ن ایک ایسی قوم
کے لیے نچھا ور کیا جو آ ج تک اپنے مقصد سے ہی کو سوں دور ہیں ،جن سے آ ج
تک منزل کا تعین ہی نہیں ہو سکتا ،جو آ ج تک ان بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں
کہ پاکستان اسلا می ریا ست ہے یا سکیو لر سٹیسٹ ....؟جو آ ج تک قا ئد کے
نظریا ت کے با رے تردد میں کہ وہ کو نسی ریا ست چا ہتے تھے تو یقیناً یہ
بہت بڑا ظلم ہے ،بڑی زیا دتی ہے ان لو گو ں کی ارواح کے ساتھ جہنوں نے اپنا
خون اس دھر تی کی آ بیاری میں لگا دیا اچانک میرا ضمیر میر ی درست سمت
راہنما ئی کر نے میں کا میاب سو جا تا ہے ۔مجھے اس بنیا دی نقطے تک پہنچا
دیتا ہے کہ جہاں ہما رے ذہنوں کی سو ئیاں اٹکی ہو ئی ہیں۔پے در پے سا نحات
کے بنیا دی حل کی طرف پہنچا نے میں کا میاب ہو جا تا ہے وہ بنیادی نقطہ ہے
کہ ہم وطن عزیز کے حصول کے مقصد سے غا فل ہو چکے ہیں” پاکستان کا مطلب
کیالا الہ الا اللہ“خدا کی زمین پر خدا کا نظام صرف دیوار وقرطاس کی زینت
بن کر رہ گیا ،ہم خدا سے کیے وعدہ کو بھول گئے ،ہم نے اسلا م کے نام ملک
حاصل کر کے خدا کو دھوکہ دینے کی کو شش کی ،ہم نے کلمے کے نام پر ملک حا صل
کر کے کمیو نزم اور سو شلزم کے نظام را ئج کر نے کی کو شش کی ،ہم نے اسلا
می طریقہ تجا رت چھوڑ کر سودی نظام کو پر وان چڑ ھایا، ہم نے سو د کے خلا ف
شریعت کو رٹ کے تا ریخی فیصلے اور اس کی سفارشات سے کو سرد خانے میں ڈال کر
اللہ تعالٰی اوراس کے رسول کے ساتھ اعلا ن جنگ کی ٹھان لی،ظاہر ہے جو قوم
اللہ کے نظام کے چیلنج کر تی ہے صفحہ ہستی سے مٹنا اس کا مقدر ہو تا
ہے،ہمیں رٹ آ ف دی گو رنمنٹ تو یا د ہے لیکن شعائر اسلا م کی تو ہین کی
صورت میں رٹ آ ف دی اللہ بھو ل چکی ،ہم نے اسلام کے نام پر لو گوں کو بے و
قوف بنا کر ایوان اقتدار میں اپنی دھاک تو بٹھا ئی ،اسلامی نظام کے لیے لو
گوں کو میں شعور بیدار کیا لیکن وقت آ نے پر چپ سا د ھ لی ،ہم نے برے وقت
میں مصلحت کی چا در تان لی ،بازار عدل میں اپنی مرضی کے منصف مقرر کئے
جہنوں نے ذاتی مفاد کی خا طر قو می وقار کا سو دا ،اپنے اشاروں پر عدلیہ کو
چلا یا( لیکن اب کی بار رب کو کچھ اور ہی منظور تھا ،اب عدلیہ حقیقی معنوں
میں آ زاد ہو نے کو ہے ،وزیر اعظم ،مشیر اعظم کے خلا ف تا ریخی فیصلے اس
قوم کے لیے نو ید سحر اور با د صبا کے جھو نکے ہیں )ہم نے فحا شی و عر یا
نی کا طو فان بد تمیزی قائم کیا ،ٹی وی چینلوں پر بے حیا ئی کی بھر ما ر کے
با وجود پیمرا نے چپ کا روزہ رکھا ہو اہے،ایسے حا لا ت میں اللہ کی طرف سے
رحمت کی بجا ئے غضب الہی کے فیصلے ہو ا کر تے ہیں ،ایسے میں ہمیں حالا ت و
حکمرانوں سے نہیں اپنے عمل و کر دار سے گلہ کر نا چا ہیے ۔جو رمضان المبا
رک کے مقدس مہینوں میں بھی گر انفر وشی سے نہیں با ز رکھ سکا ،جو تفریحی
مقاما ت کے علا وہ پبلک مقا ما ت پر بھی روزہ کھا نے جسے کبیر ہ گنا ہ سے
نہ روک سکا ۔کیا یہ غضب الہی کو کھلم کھلا دعوت نہیں....؟یہ وقت ہے سد ھر
نے کا ۔رمضان المبا رک کا آ خری عشرہ بھی سر پر اکھڑ ا ہے ۔جہنم کے براءت
کے پر وانے مل رہے ہیں ۔یہ وقت ہے ہمیں فیصلہ کر نا ہے کہ ہم نے اس ملک کو
اسلا می فلا حی ریا ست بنا ناہے ،ہم نے رب کے دشمنوں کو ما ر بھگا نا ہے ،ہمیں
اپنے عملی دوہرے معیار سے تو بہ تا ئب ہو نا ہے ہم نے رب سے ما نگنا ہے کہ
وہ ہما رے دگر گوں حالا ت کو سد ھا ر ے، بے ضمیر کر پٹ اور اسلام دشمن
حکمرانوں سے ہمیں نجات عطا فر مائے ہمارے لیے نیک صالح حکمران کی صورتیں
مقدر فر مائے ،اگر 27رمضان المبا رک کی شب ہم اپنی زند گیوں کو تبد یل کر
نے کا فیصلہ کر لیں ،اس ملک میں حقیقی تبد یلی کی ٹھا ن لیں، اپنے رب سے
رشتہ مضبو ط کر لیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ ملک حقیقی اسلا می فلا حی ر یا
ست بنے گا ،بصور ت دیگر ہم یو ں سا نحا ت درسا نحات کی چکی میں پستے رہیں
گے اور ذلت و رسوائی ہما را مقدر رہے گی۔۔۔۔۔۔۔ |