ولی اور سخی کی عید(فیضانِ عید الفطر)۔

حضور غوث اعظم علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الاکرم کی عید
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مَقبول بندوں کی ایک ایک ادا ہمارے لئے مُوجِبِ صد درسِ عِبرت ہوتی ہے۔ اَلْحمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حُضُور سَیِّدُنا غوثِ اعظم علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الاکرمکی شان بے حد اَرفَع واعلیٰ ہے ، اِس کے باوُ جُودآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے لئے کیا چیز پیش فرماتے ہیں! سنئے اور عِبرت حاصِل کیجئے ۔
خَلْق گَویَد کہ فَرد ا روزِ عِیْد اَسْت

خُوشی دَر رُوحِ ہر مؤمِن پَدِیْد اَسْت
دَراں رَوزے کہ بااِیماں بَمِیْرَم

مِرادَر مُلک خُودآں رَوزِ عِیْد اَسْت
یعنی''لوگ کہہ رہے ہیں،''کل عید ہے!کل عید ہے!''او رسب خوش ہیں۔ لیکن میں تو جِس دِن اِس دنیا سے اپنا اِیمان سلامت لے کر گیا ، میرے لئے تو وُہی دِن عِید ہوگا ۔' '
سبحٰنَ اللّٰہ !(عَزَّوَجَلَّ) سبحٰنَ اللّٰہ !(عَزَّوَجَلَّ)کیا شانِ تَقویٰ ہے ! اتنی بڑی شان کہ اَوْلیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰی کے سَردار! اور اِس قَدَر تَواضُع واِنکِسار ! ! اس میں ہمارے لئے بھی دَرْسِ عبرت ہے اور ہمیں سمجھا یا جا رہا ہے کہ خبردار ! ایمان کے مُعامَلہ میں غفلت نہ کرنا ،ہر وَقت ایمان کی حِفاظت کی فِکر میں لگے رہنا، کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری غفلت اورمَعصِیَت کے سَبَب ایمان کی دَولت تمھارے ہاتھ سے نِکل جائے ۔
رضــاؔ کا خاتِمہ بِالْـخیر ہوگا
اگر رحمت تِری شامِل ہے یا غوث
(حدائقِ بخشش)

ایک ولی کی عید
حضرتِ سَیِّدُنا شیخ نَجِیبُ الدّین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مُتَوَکِّل، حضرتِ سیِّدُنا شیخ بابا فریدُ الدّین گنجِ شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بھائی اور خَلیفہ ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کالقب مُتَوَکِّل ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ستَّربرس شہر میں رہے مگر کوئی ظاہِری ذَرِیعہ ئ مَعَاش نہ ہونے کے باوُجُوداِنکے اہل وعِیال نِہایَت اطمینان سے زندگی بَسر کرتے رہے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی یاد میں اِس قَدَر مُسْتَغْرَق رہتے تھے کہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آج کونسا دِن ہے؟اور یہ کون سا مہینہ ہے؟اور سِکّہ کتنی مالِیَّت کا ہے؟ ایک بار عِیدکے دِن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر میں بَہُت سے مِہمان جَمع ہوگئے ۔ اِتِّفاق سے اُس روز آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر میں خُورد و نَوش (یعنی کھانے پینے )کا کوئی سامان نہیںتھا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بالاخانے پر جا کر یادِ الہٰی عَزَّوَجَلَّمیں مَشْغول ہوگئے اور دِل ہی دل میں یہ کہہ رہے تھے، ''یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آج عِید کا دِن ہے اور میرے گھر مِہمان آئے ہوئے ہےں۔'' اچانک ایک شخص چَھت پرظاہِر ہوا ،اُس نے کھانوں سے بھرا ہوا ایک خوان پیش کیااور کہا، اے نجِیبُ الدّین ! تمہارے توَکُّل کی دُھوم مَلاءِ اعلٰی (یعنی فرشتوں) میں مَچی ہوئی ہے اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایسے خیال( یعنی کھانا طَلَبی) میں مَشغُول ہو؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ، حق تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ میں نے اپنی ذات کے لئے یہ خیال نہیں کیا،بلکہ اپنے مہمانوں کے باعث اِس طرف مُتَوَجِّہ ہوگیا تھا۔حضرتِ سَیِّدُنا نَجیب الدّین مُتَوکِّل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صاحب ِ کرامت ہونے کے باوُجُود اِنتہائی مُنْکَسِرُا لْمِزاج تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اِنْکِساری کا یہ عَالَم تھا کہ ایک روز ایک فقیر بَہُت دُور سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مُلاقات کیلئے آیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پُوچھا کہ کیا نَجِیبُ الدّین مُتَوَکِّل(یعنی تَوَ کُّل کرنے والا)آپ ہی ہیں ؟ تو آپ رَحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اِنْکِساراً فرمایا کہ بھائی !میں تَو نَجِیب الدّین مُتَأَکِّل(یعنی بَہُت زیادہ کھانے والا ) ہوں ۔ (اخبارُ الاخیار ،ص٦٠)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔

کرامت کا ایک شعبہ
محترم قارئین کرام!!دیکھا آپ نے ؟ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں اور وَلیوں کی عِیدکس قَدَر سادہ ہوا کرتی ہے۔اِس حِکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنے دوستوں کی ضَروریات کاغیب سے انتِظام فرمادیتا ہے ۔ یہ سب اُس کے کرم کے کَرِشمے ہیں۔ بوَقْتِ ضَرورت کھانا،پانی وغیرہ ضَروریات ِ زندگی کا اچانک حاضِر ہوجانا بُزُرگوں سے کرامت کے طور پر وُقوع میں آتا ہے۔ چُنانچِہ'' شرحِ عقَائدِ نَسَفِیَّہ'' میں جہاں کرامت کی چند اَقسام کا بیان ہے وَہاںیہ بھی مَذکُور ہے کہ ضَرورت کے وَقْت کھانے پانی کا حاضِر ہوجانا بھی کرامَت ہی کا ایک شُعبہ ہے ۔بُزُرْگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین کے خُدا داد تَصرُّفَات وکرامات کا کیا کہنا ؟یہ ایسے مَقْبُولانِ بارگاہِ خُداوندیعَزَّوَجَلَّ ہوتے ہیں کہ اُن کی زَبانِ پاک سے نِکلی ہوئی بات اور دِل میں پیدا ہونے والی خواہِشات ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ کی عنایات سے پُوری ہوکر رہتی ہےں ۔

ایک سخی کی عید
سَیِّدُنا عبدُا لرَّحْمٰن بن عَمْرِو الْاَوْزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بَیان کرتے ہیں کہ عِےْدُ الفِطْر کی شب دروازے پر دَستک ہوئی ، دیکھا تومیرا ہَمسایہ کھڑا تھا۔میں نے کہا ،کہو بھائی !کیسے آنا ہوا؟اُس نے کہا،''کل عِیْد ہے لیکن خرچ کیلئے کُچھ نہیں،اگر آپ کچھ عِنایَت فرمادیں تو عِزّت کے ساتھ ہم عید کا دِن گُزارلیں گے۔''میں نے اپنی بیوی سے کہا ،ہمارا فُلاں پڑوسی آیا ہے اُس کے پاس عید کیلئے ایک پیسہ تک نہیں،اگر تمہاری رائے ہو تو جو پچیس دِرہَم ہم نے عِید کیلئے رکھ چھوڑے ہیں وہ ہَمسایہ کو دے دیں ہمیں اللہ تعالیٰ اور دیدے گا۔نیک بیوی نے کہا،بَہُت اچھّا۔ چُنانچِہ میں نے وہ سب دِرہم اپنے ہَمسایہ کے حوالے کردئےے اور وہ دُعائیں دیتا ہوا چلاگیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر کسی نے دروازہ کَھٹکَھٹایا۔میں نے جونہی دروازہ کھولا، ایک آدمی آگے بڑھ کر میرے قَدموں پر گِر پڑا اور رو روکر کہنے لگا، میں آپ کے والِد کابھاگا ہوا غُلام ہوں، مجھے اپنی حَرَکت پر بَہُت نَدامت لاحِق ہوئی توحاضِر ہو گیا ہوں،یہ پچیس دینار میری کمائی کے ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں قَبول فرمالیجئے، آپ میرے آقا ہیں اور میں آپ کا غلام ۔میں نے وہ دِینار لے لئے اور غُلام کو آزاد کردیا۔پھر میںنے اپنی بیوی سے کہا ،خُدا عَزَّوَجَلَّ کی شان دیکھو!اُس نے ہمیں دِرہم کے بدلے دِینار عطا فرمائے(پہلے درہم چاندی کے اور دینار سونے کے ہوتے تھے)!
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔

سلام اس پر کے جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
محترم قارئین کرام!!دیکھا آپ نے ؟ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی شان بھی کتنی نِرالی ہے کہ اُس نے پچیس دِرہم(چاندی کے سکّے) دینے والے کو آن کی آن میں پچیس دِینار (سَونے کے سِکّے) عطا فرمادئےے۔ اور بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین کا اِیثار بھی خُوب تھا کہ وہ اپنی تمام تَر آسائِشوں کو دُوسرے مسلمانوں کی خاطِر قُربان کردیتے تھے۔ انہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے پیارے حَبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے والہانہ مَحَبَّت تھی۔انہیں معلوم تھا کہ اِسلام ہمیں باہمی ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ہمارے حُضُور سراپا نور ،فیض گَنجور، شاہِ غَیُور ، صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رَحمت عالَم ہیں، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رَحمت سے کوئی محروم نہیں رہا ۔ ہمارے پیارے سرکارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غُرَبَاء ومَساکین اور یتیموں کی طرف نظرِ خاص رکھتے اور ہر طرح سے اُن کی دِلجُوئی فرمایاکرتے تھے ؎
سَلام اُس پر کہ جِس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اُس پر کہ جِس نے بادشاہی میں فَقیری کی

سُبحٰنَ اللّٰہ!(عَزَّوَجَلَّ )اتنی بڑی شان کہ''بعد اَزْ خُدا بُزُرْگ توُہی قِصّہ مُخْتصَر'' اور اِ س قَدَر تَواضُع کہ جِس کاکوئی نہیںاُ س کے حُضُورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔کیا خُوب فرمایا میرے آقا اعلیٰ حضرت (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) نے ؎
کَنْزِ ہر بیکس و بے نَو ا پر دُرُود

حِرزِ ہر رَفْتَہ طاقت پہ لاکھوںسلام
مجھ سے بے کَس کی دولت پہ لاکھوں دُرُود

مجھ سے بے بَس کی قوّت پہ لاکھوں سلام
خَلْق کے دَاد رَس سب کے فریاد رَس
کَہْفِ روزِ مُصیبت پہ لاکھوں سلام
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔۔جاری ہے
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 351598 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.