آئیں....عید منائیں

عید الفطر سر پر ہے۔بچے بے تابی سے عید کے منتظر ہیں اور بڑوں کی اکثریت کا یہی خیال ہے کہ عید کچھ دنوں کے لیے ٹل ہی جائے تو بہتر ہے۔ جب عید کا دن برپا ہوگا تو ہم میں سے اکثر یہی کہیں گے کہ بہت بوریت ہے۔عید کے بعد جب دوست احباب ملیں گے تو یہی کہا جائے گا، یار بہت بور ہوئے، کچھ کہیں گے بس سو کر گزار لی ہے، کچھ بچوں کے ساتھ کسی سیر گاہ میں گزرے لمحات کا ذکر کریں گے اور کچھ کسی جنگل یا دریا کے کنارے بچوں کی کھیل کود کے مناظر پیش کریں گے۔انہی جیسے بے سمت لوگوں کی عید گزارنے کے لیے تاجروں نے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں عید میلوں کا انتظام کیا ہوتا ہے تاکہ خوشی اور مسرت کے متلاشی کچھ دیر یہاں گزار کر دل بھلاسکیں۔ہاں ، کچھ لوگوں کے ذوق کی تسکین ہو جاتی ہے اور کچھ یہاں بھی بوریت محسوس کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا عید صرف بچوں کا کھیل ہے اور بڑوں کے لیے عید محض بچوں کی خوشیاں تلاش کرنے تک محدود ہے یا اس میں بڑوں کے لیے بھی خوشی پنہاں ہے؟

اسلامی تمدن انسانی فطرت کے قریب تر بلکہ عین مطابق ہے۔ آپ جس قدر اسے اختیار کرتے جائیں گے، اس میں اپنائیت اور سکون محسوس ہوتا جائے گا۔ عید کی مثال سیدھی ، سادھی امتحان کے بعد نتیجے کی سی ہے۔ جیسے ایک طالب علم پورا سال محنت کرنے کے بعد امتحان دیتا ہے اور پھر بڑے بے تابی سے نتیجے کا انتظار کرتا ہے اور کامیابی کی نوید سن کر وہ خوش و خرم محسوس کرتا ہے اور یہ خوشی ایک دن نہیں بلکہ چند دنوں تک اسے اپنے لپیٹ میں لیے رکھتی ہے۔ ایک باشعور مسلمان سال بھر اپنے رب کی رضا کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور اپنی ساری محنت کو رمضان المبارک کے مہینے میں خصوصی توجہ اور انہماک سے پالش کرتا ہے اور ایک طالب علم کی طرح اس ماہ کے ایک ایک لمحے کو استعمال میں لا کر زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی شفقت سے اس ماہ مبارک میں کی گئی ہر کوشش کو ستر گنا بڑھانے کی ایڈوانس پیشکش کرکے طلبگاروں کے ذوق و شوق میں اضافہ کردیتا ہے۔ ہاں جو لوگ حقیقی معنوں میں اپنے رب کی رضا کے متلاشی ہوتے ہیں، وہ ستر گنا ایڈوانس آفر سے استفادہ کرنے کے لیے ایک پیاسے کوے کی طرح پانی کی تلاش میں مارے، مارے پھرتے ہیں۔ پورا مہینہ بھوک، پیاس اور شہوت نفس پر قابو رکھتے ہیں، راتوں کو لمبے، لمبے قیام اور سجود کے ذریعے اپنے رب کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود کو بہت سی غیر ضروری اور لغویات سے محفوظ رکھتے ہوئے پورا مہینہ صرف اپنے محبوب اور مقصود کو اپنے دلوں میں بسانے کی سعی کرتے ہیں۔ یوں ایک پورا سال اور پھر خصوصی طور پر پورے ایک ماہ کی تیاری کے بعد یقینا انسان اچھے نتیجے کی توقع رکھتا ہے۔ ہر انسان کو اس کی محنت ، مشقت اور اخلاص کے مطابق نتیجہ ملے تو وہ خوش ہوتا ہے اور اگر کسی کو اس کی محنت سے دوگنا، دس گنااضافی نمبر ملیں تو وہ خوش ہوگااور اگر ستر گنا اضافی نمبر دئیے جائیں تو وہ خوشی سے پھوٹ جانے کو آتا ہے۔

جس بھی امیدوار کو اس کی محنت سے ستر گنا زیادہ نمبر مل جائیں تو وہ بے خود ہوکر جھوم جاتا ہے۔ خوشی اور مسرت اس کے چہرے اور جسم کے ایک، ایک انگ سے پھوٹتی نظر آتی ہے ۔ یہی معاملہ روزہ داروں کا بھی ہے۔ جو لوگ ایمان اور احتساب کی روح کے مطابق یہ ماہ گزارتے ہیں تو انہیں اچھے نتیجے کا بے تابی سے انتظار ہوتا ہے۔ وہ معصوم بچوں کی طرح عید کا انتظار کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی عید کو چند دنوں کے لیے ٹل جانے توقع نہیں رکھتا ۔عید اس کے لیے بوریت اور بے مقصدیت سے عبارت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کی مطلوب اور مقصود ہوتی ہے۔ یہ سارا معاملہ انسان کی اپنی محنت اور شوق سے تعلق رکھتا ہے۔ کتنے ہی طالب علم ہیں جو نتیجے کے دن سے فرار چاہتے ہوتے ہیں۔ اس دن وہ کسی دوسرے شہر چلے جاتے ہیں، کچھ بیماری کا بہانہ بنا لیتے ہیں اور کچھ کسی دوسری مصروفیت کا بہانہ بنا کر نتیجہ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسے میں کچھ بچے علی الصبح ہی تیار ہوکر نتیجہ سننے کے لئے بیقرار دکھائی دیتے ہیں۔جن طالب علموں نے محنت کی ہوتی ہے انہیں اچھے نتیجے کی امید ہوتی ہے، وہ خود کو کامیاب سمجھتے ہیں البتہ ممتہن کی طرف سے اپنی کامیابی کا اعلان سننا چاہتے ہیں اور کامیابی کی سند حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ اس دن کے منتظر ہوتے ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے پورے شعور اور احتساب نفس کے مطابق یہ سال اور ماہ رمضان گزارا ہوتا ہے وہ بیقراری سے عید کے دن کا انتظار کرتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی اپنے رب کی بڑھائی بیان کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، پُر جوش نعرے لگاتے ہیں، اس کے جسم و جان کا ایک ایک حصہ اس نعرہ بازی میں شامل ہوتا ہے۔ پورے اطمینان اور ذوق سے نعرہ تکبیر لگاتے ہیں، کیوں نہ لگائیں کہ خود اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ کہتے ہیں کہ جب عید آئے تو اپنے رب کی بڑھائی بیان کرو، نعرے لگاؤ، جشن مناؤ اور اپنے نتیجے اور ستر گنا ا یڈوانس آفر حاصل ہونے کی خوشی میں دھوم مچا دو۔

جن کو اچھے نتیجے کی امید ہوتی ہے وہ عید کے دن صبح خوشی سے جھوم رہے ہوتے ہیں اور نعرہ تکبیرکی صدا بلند کرتے ہوئے، اللہ اکبر، اللہ اکبر لاالہ اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے میدان عید کی طرف پورے جوش، خروش اور طم طراق سے بڑھتے جاتے ہیں۔ جن امیدواروں نے اس ماہ مبارک کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جو خواہش کے باوجود اپنے رب کی قربت حاصل نہیں کرپائے، ان میں سے کچھ تو گھروں میں ہی چھپے رہے اور کچھ دوسروں کو دکھانے یا اپنی کمزوری پر معافی مانگنے کے لیے میدان عید کی طرف نکلتے ہیں تو ان کی چال ڈھال، رنگ و رنگت، چہرے اور اعضاءکہیں سے بھی خوشی اور مسرت کا کوئی پہلو ٹپکتا نظر نہیں آتا، وہ بوریت اور بوجھل دل و دماغ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محض کھسیٹے، گھسیٹتے میدان عید کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔

اللہ اپنے بندوں سے پیار کرتے ہیں اس لیے وہ اسے کسی بھی لمحے مایوس نہیں ہونے دیتے۔ جو لوگ پوری زندگی بے مقصد گزار چکے، جو اس ماہ رمضان سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے، انہیں بھی مایوسی سے نکلنے کے کئی ایک راستے اس نے کھلے رکھے ہیں۔ شرط صرف احساس اور طلب کا ہے۔ جو فرد پورا ماہ مبارک برباد کرنے کے باوجود رب کی رضا کی حقیقی طلب اور تڑپ اپنے اندر پیدا کرلے اور اپنے سابقہ بد اعمالیوں پر ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے لگے۔ اس کے لیے بھی عید کے دن میں ایک بڑی امید موجود ہوتی ہے۔ ایسا فرد پورے اخلاص نیت کے ساتھ فطرانے کا صدقہ ادا کرکے ، صاف ستھرے کپڑے پہن کر میدان عید میں پہنچ جائے، نماز عید ادا کرے، خطبہ مسنونہ سنے اور مسلمانوں کے ساتھ دعاءمیں شامل ہو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف کرکے اس کے دامن کو بھی اپنی برکتوں سے بھر دیتے ہیں۔ اس کا چہرہ بھی نور بکھیرنا شروع کر دیتا ہے، اس کو دل بھی ایک لہلاتی کھیتی کی طرح مسکرانے لگتا ہے اور اس کے قلب و روح سے بھی عید کی خوشیاں پھوٹتی نظرآنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہاں توعرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عید نئے کپڑے پہننے، خوشبو لگانے اور شورو غل کرنے سے نہیں منائی جا سکتی اور نہ اس طرح کے کاموں سے قلب و روح کی میل صاف ہو سکتی ہے اور نہ مرجھائے ہوئے چہروں پر رونق بحال ہو سکتی ہے ۔ رب کے حضور پیش ہو کر اپنی غلطیوں او کوتاہیوں کا بلا کم و کاست اعتراف کرنے اور معافی طلب کرکے بے روح دلوں کو نور سے منور کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ماہ مبارک کی سعادتیں حاصل نہیں کرسکے ان کے لیے اس ماہ کے آخری عشرے میں ایک ایسی رات رکھی گئی ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت سے افضل تر ہے۔ یہ رات بھی ایسے ہی پیاسے انسانوں کو سیراب کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ اسے آخری عشرے کی تاک راتوں میں تلاش کرنے کو کہا گیا ہے۔ جو اس کو پا لے گا وہ بھی اپنے دامن کو رب کی نعمتوں سے بھر لے گا اور جو یہ بھی نہ کرسکے تو پھر عید کے دن اپنے مسلمان بھائیوں سے شانہ بشانہ میدان میں کھڑا ہو جائے، اپنے دل میں امیدوں کے چراغ روشن کرلے، اپنے رب سے بہتری کی امید لیے، اپنے رب کو معافی کا طلب گار بن جائے۔ اپنا سب کچھ اپنے رب کے حضور پیش کر دے۔ سارے راز اپنے مالک کے سامنے پھوڑ دے، اپنا نامہ اعمال کھول کر اس کے حضور پیش کر دے اور پھر ساری غلطیوں، ساری لا پرواہیوں، ساری سرکشیوں اور ساری خود سریوں سے دست کش ہونے اعلان کرتے ہوئے معافی طلب کرے تو عید کے موقعہ پر، ایمان اور احتساب کے ساتھ ماہ مبارک گزارنے والے بندگان کی معیت کی وجہ سے مجھے ایسے سارے گناہ گار بھی معافی سے دامن تر کر لیتے ہیں۔ اس لیے جو رمضان کی برکتوں سے محروم رہے، ان کے لیے للیل القدر اور عید کا موقعہ موجود ہے۔ مایوس اور پریشان ہونے کے بجائے اپنی طلب اور تپیش میں اضافہ کیجیے اور اسے زندگی کا آخری موقعہ سمجھے کر اپنی ساری گندگی صاف کرنے رب کی ساری نعمتیں سمیٹنے کے لیے اپنی بانہوں کو پھیلا دیجیے، آپ جتنا کچھ سمیٹنا چاہیے گے سمیٹ لیں گے۔ جتنی گندگی اور نجاست کو کھولتے جائیں گئے وہ اتنی ہی رفتار سے تحلیل ہوتی جائیں گی اور جتنی تیز رفتاری اور سرعت سے رب کی عافیت اور محبت سمیٹنا چاہیں گے سمیٹ لیں گے۔ یہ معاملہ ظرف ہی کا ہے، خواہش اور طلب کا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان آخر چراغوں سے منور ہونے کی توفیق عطاءفرمائے (آمین)
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117133 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More