اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

میں نے کدال اٹھا لی٬ آپ کیا سوچ رہے ہیں

اُس کی گفتگو سے انقلابیت جھلک رہی تھی، دن بھر مار دھاڑ اور مایوس کن خبروں سے تنگ آکر اُس نے آج خود سے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ، اُس نے کہا کہ گزشتہ برس ، مصر میں حُسنی مبارک کی حکومت کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ، جن کی پولیس اور فوج سے جھڑپیں بھی ہوئیں ، جس میں دارلحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر سمیت مختلف مقامات کو شدید نقصان پہنچا، لیکن جب احتجاج ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ، تو طلبہ کا ایک گروہ سڑکوں پر اُمڈ آیا ، کسی کے ہاتھ میں جھاڑو تھی تو کسی نے رنگ کی بالٹیاں اور برش اُٹھا رکھے تھے اور انہوں نے سڑکوں کی صفائی شروع کردی، تھوڑی ہی دیر بعد میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں اُن کا یہ پیغام پہنچ گیا کہ اگر گھر میں گندگی ہو تو اسے صاف کرنے کوئی باہر سے نہیں آتا بلکہ اس کی صفائی خود ہی کرنا پڑتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ ، گزشتہ ماہ نیپال میں بھی ہوا، نیپال کے درالحکومت ، کھٹمنڈو میں گزشتہ کئی عرصے سے سینیٹری کا شعبہ بدترین بحران کا شکار تھا، سڑکوں پر گندگی کے ڈھیرنے جب ابتر صورتحال اختیار کر لی ، تو نہ صرف سیوریج بلکہ ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہو نے لگا ، اسکے علاوہ نت نئی بیماریاں بھی پھوٹنے لگیں، حکومتی سطح پر اس کے تدارک کےلئے متعدد کوششیں ہوئیں لیکن سود مند ثابت نہ ہوسکیں ، ایک روز نیپالی وزیر اعظم ، ان کی اہلیہ اور دیگر عہدے دار سڑک پر نکل آئے ، انہوں نے ہاتھوں میں جھاڑو اُٹھا رکھے تھے اور سڑک کی صفائی شروع کر دی ، میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے وزیر اعظم کو صفائی کر تے دیکھا ، وزیر اعظم نے ا س موقع پر قوم کو پیغام دیا کہ اگر ہر گھر سے ایک شخص میرے اس منصوبے میں شامل ہو جائے ، تو ہم چند روز میں اس مسئلے پر قابو پالیں گے ۔ اس اپیل کے فوراً بعد تمام وزراء، پارلیمنٹرینز ، طلبہ اور پولیس حکام اس منصوبے میں شامل ہو گئے اور بڑی حد تک کھٹمنڈو شہر کو صاف کر دیا ۔

ایسا پوری دنیا میں ہو تا ہے، جب بھی قوموں کے سامنے رنج و غم اور مصائب کے پہاڑ کھڑے ہو تے ہیں ، تو لیڈ کدال اُٹھا کر آگے بڑھتا ہے اور قوم اس کے پیچھے چل کر اُس کا ہاتھ بٹاتی ہے ۔ا گر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو چین کی ترقی میں بھی ہمیں یہی عنصر کارفرما نظر آتا ہے ۔ چینی قوم ، اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی ، ایک رہنما آگے بڑھا ، اُس نے ہاتھ میں کدال اُٹھائی اور غربت ، افلاس ، جہالت اور بدحالی کا پہاڑ توڑنے نکل پڑا، لوگوں نے کہا ، پہاڑ بہت بڑا ہے ، ہم اتنا بڑا پہاڑ کیسے توڑیں گے ، اُس نے کہا کچھ میں توڑوں گا،کچھ تم توڑو گے اور کچھ ہماری آئندہ نسلیں توڑیں گی اور ایک دن آئے گا کہ یہ پہاڑ ٹوٹ جائے گا اور ہم روشنی میں آجائیں گے ۔ ہم بھی اپنی قوم کو غربت ، افلاس اور دیگرمسائل سے نکال سکتے ہیں ۔ آئیے آج سے عہد کریں کہ بجائے سارادن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر حالات کا رونا روئیں ، گھروں ، ہوٹلوں اور دفتروں میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کریں ، عملی قدم اُٹھائیںگے ، جو بھی خیال ،منصوبہ ہمارے ذہنوں میں ہمارے ملک کی بہتری کیلئے آئے ، اُس پر عمل کریں گے ،اُس کی گفتگو بغیر کسی وقفے کے جاری رہی ۔ اُس نے کہا کہ ہم چند برسوں میں ملک سے غربت ختم کر سکتے ہیں ، میرا یہ منصوبہ لائیو اسٹاک اور ڈیری سے متعلق ہے ، یہ دونوں شعبے ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ ان سے سالانہ اربوں ڈالر حاصل کر تا ہے ، جبکہ ہمارا ملک ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ زرخیز ہے ، ہم اپنے منصوبے کا آغاز اپنے گاﺅں سے کریں گے ۔ ہمارے دیہات میں آج کل چارے اور گھاس کی بہتات ہے ، گاﺅں کا ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا غریب کم از کم اس معاملے میں خود کفیل ہے ، ہم غریب خواتین ، بالخصوص بیواﺅں کو اچھی نسل کی گائے یا بھینس خرید کر دیں گے اور اُن سے معاہدہ کریں گے ، جس کے تحت یہ جانور قانوناً ہماری ملکیت رہے گا ، اس ہونے والی نسل بھی ہماری ہو گی اور وہ خاتون اس جانور کی دیکھ بھال کے عوض دودھ کی حقدار ہو گی ۔ دیہات میں خواتین کیلئے جانور پالنا کوئی مشکل کام نہیں ،اگر کسی خاتون کو روزانہ 10سے12کلو دودھ فروخت کیلئے مل جائے تو اُسے بڑے مزے سے دن میں 5سے 6سو روپے تک آمدنی مل سکتی ہے ۔ اگر وہ خاتون کام یاب ہوگئی تو میں نہیں سمجھتا کہ اُسے کبھی اپنی ضرورت کیلئے کسی کے آگے دست سوال بڑھانا پڑے ۔ ایک یا ڈیڑھ برس بعد جب گائے کی نسل بڑھے گی ،تو ہم اسے مزید خواتین میں تقسیم کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے مویشی میں بڑی برکت رکھی ہے ، جانوروں کی نسل ضرب کے فارمولے سے بڑھتی ہے ، اگر یہ سلسلہ کامیابی سے چل نکلا تو نہ صرف چند برسوں کے اندر ہم متعدد جانورں کے مالک بن چکے ہوں گے بلکہ قوم نے ساتھ دیا تو ، بڑی حد تک غربت کا مقابلہ بھی کر نے کے قابل ہو جائیں گے ۔ ہمیں اس کا م کیلئے نہ تو ملازم رکھنے کی ضرورت ہے ، نہ آفس کا خرچ، نہ کوئی پبلسٹی اور نہ ہی کوئی حکومتی پنگا۔گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی کمپنی کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر ، آئن ڈونلڈ کا بیان نظر سے گزرا، اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا لائیو اسٹاک کا شعبہ ، بھر پور صلاحیتوں کا مالک ہے ۔ اس پر توجہ دے کر ملک کی قسمت بدلی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ کی پیداوار میں صرف 15فیصد اضافے سے پاکستان نیوزی لینڈ پر سبقت حاصل کر سکتا ہے ، جو اس وقت دنیا کا دودھ اور اس کی مصنوعات برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے ۔ ملک عزیز میں ، اس شعبے کو ترقی دی جائے ، تو غربت کے خاتمے میںنمایاں کمی آسکتی ہے ۔ ہم پہلے اس منصوبے کو دیہات میں اور پھر پورے ضلع تک پھیلا سکتے ہیں ۔ کیوںکہ شہر دیہات سے بنتے ہیں ، اگر دیہات مضبوط ہوں گے ، تو شہر خودبخود مضبوط ہو تے جائیں گے اور پھر ایک دن آئے گا ، جب شیخ چلی کے سارے انڈے گر کر ٹو ٹ جائیں گے ، میں نے دوست کا پورا منصوبہ سننے کے بعد طنزاً کہا۔

اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہی میری پہلی کامیابی ہے ، تم دنیا میں جب بھی معمول سے ہٹ کر کوئی کام شروع کر وگے ، تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہار مذاق اُڑائے گی ، تمہیں شیخ چلی ، احمق اور بے وقوف پکارا جائے گا، لیکن اگر تم ان کی باتوں کی پروا کئے بغیر اپنے مشن پر ڈٹے رہے تو پھر وہ وقت بھی آئے گا، جب یہ ہنسی حسرت میں بدل جائے گی، پھر تمہاری جیت ہوگی اور مذاق اُڑانے والوں کی ہار، تم مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس، ایپل کے اسٹیو جابز تھامس ایڈیسن ، اوپرا ونفری ، ہونڈا، اسٹیفن کنگ سے لے کر دنیا کے ہر اُس عظیم انسان کی زندگی کا مطالعہ کرو ، تو تہمیں ہر جگہ ایسی ہی صورتحال نظر آئے گی ، پہلے اُن کا مذاق اُڑایا گیا ، پھر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا اور میرا اس بات پر کامل یقین ہے کہ میرے ملک کی مٹی ہر اُس شخص کےلئے بہت زرخیز ثابت ہوئی ہے ، جو انفرادی طور پر اسے آباد کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ عمران خان کا شوکت خانم ، حکیم محمد سعید کے ہمدرد گروپ کے ان گنت منصوبے ، عبدالستار ایدھی کی عالی شان خدمات، شہزاد رائے ، ابرار الحق سمیت کسی پر بھی نظر دوڑا لو ، جس نے بھی اس ملک کیلئے کچھ کرنے کی کوشش کی وہ کامران ہوا ہے ۔ ایدھی صاحب نے جب پہلی ایمبولنس خردیدی تو اُس خبر ہی نہیں ہوگی کہ ایک دن یہ دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بن جائے گی ۔ انہوں نے تو بس اپنے حصے کا دیا جلانے کی کوشش کی اور کامیابی یا ناکامی اللہ پر چھوڑ دی ، سو میں نے بھی کدال اُٹھا لی ہے اور اپنے حصے کا پہاڑ توڑنے جارہا ہوں ، مجھے اپنے رب پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا۔ میں نے گزشتہ روز ایک بہترین گائے کا سودا کیا ہے، اس کی قیمت ایک لاکھ 30ہزار روپے ہے ، یہ رقم میں کسی بھی حال میں جمع کروں اور انشاءاللہ ، اسی رمضان المبارک کے بابر کت مہینے سے اپنے کا م کا آغاز کروں گا ، تم اگر میری مدد کر سکتے ہو تو ٹھیک ، ورنہ میری طرف سے ایک پیغام اس قوم تک پہنچا دو کہ
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلا تے جاتے
Zubair Niazi
About the Author: Zubair Niazi Read More Articles by Zubair Niazi: 41 Articles with 45157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.