برما کو آج کل میانمار بھی کہا
جاتا ہے اور یہ ملک ساﺅتھ ایشیا میں دنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔ برما اندیا
اور تھائی لینڈ کے ساتھ واقع ہے اور اس کا ایک حصہ بنگلہ دیش کے بارڈر کے
ساتھ بھی ملتا ہے۔ برما چھ لاکھ اٹھتر ہزار پانچ سو اسکوائر کلو میٹر یعنی
دو لاکھ اکسٹھ ہزار نو سو انتھر اسکوائر میل پر محیط ہے۔ جولائی200 ءکے
تجزیئے کے مطابق وہاں کی آبادی چار کروڑ سترہ لاکھ چونتیس ہزار آٹھ سو
تریپن ہے۔ برما کا دارالخلافہ رنگون ہ(یانگون) ہے ۔وہاں کی خاص ایکسپورٹ
میں مچھلی، چاول اور کئی دوسری چیزیں سرِفہرست ہیں۔ یہاں کے لوگ یوں تو بہت
محنت کش ہیں جن میں مسلمانوں کی بھی کثیر تعداد شامل ہے۔برما کی آفیشل
کرنسی کو Kyatکہا جاتا ہے ۔ وہاںبرمی زبان رائج ہے۔وہاں Union Solidarity
and Development Partyکی حکومت ہے ۔
بات گو کہ پرانی ہو رہی ہے مگر کہنے اور لکھنے کو جی چاہتا ہے، کیونکہ اس
کے مضمرات ہمارے لئے سامانِ عبرت ہو سکتا ہے اور لائحہ عمل تلاش کرنے کا
راستہ بھی بن سکتا ہے۔ برما میں ہزاروں بے گناہوں کا سرِ عام قتل ہو رہا ہے
لیکن دنیا بھر کی میڈیا پر ایسی خاموشی طاری ہے کہ جیسے انہیں کچھ پتہ ہی
نہیں ، کبھی اور کسی وقت اس کا ذکر کرنا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کچھ ہوا
ہی نہیں۔ ایسا آخر کیوں ہو رہا ہے یا ایسا آخر کیوں کیا جا رہا ہے یہ تو
ایک سوال ہے؟
کہنا یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کا خون ، خون نہیں ہے، لاکھوں کنبے کو بے گھر
کر دیا گیا ہے اور دنیا بھر کے میڈیا والوں کے پاس اس کو اجاگر کرنے کیلئے
ذرا سا بھی اسپیس نہیں ہے کہ وہ ان کے حالات کو تفصیل سے بیان کر سکے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خاص کر اقوام متحدہ اگر چاہتی تو شروعات میں ہی
برما کے مسلمانوں پر ہوئے ظلم کو روک لیا گیا ہوتا۔ برما میں ہر طرف دہشت
گردی کا راج ہے جگہ جگہ بے گور و کفن لاشیں بکھری پڑی ہیں اور یونائٹیڈ
نیشن کے اہلکار بُت بنے کھڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ یہودیوں ،
عیسائیوں پراگر ہو رہا ہوتا تو بین الاقوامی تنظیمیں خاموش تماشائی ہوتیں،
شاید نہیں ایکشن ہوتا اور یہ سب کچھ فی الفور روک دیا جاتا۔ ان لوگوں پر
ذرا سی کھرونچ بھی لگتی ہے تو ہیومن رائٹس کی تنظیمیں اور پوری مغربی دنیا
چلّانے لگتا ہے مگر برما کے بے سہارا ، معصوم ہزاروں مسلمان کا قتلِ عام ہو
رہا ہے اور ہر طرف سکوت طاری ہے۔
چونکہ برما کی فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیاں بودھ برادری کے لوگ مسلمانوں
کا بے رحمانہ طریقے سے قتل کر رہے ہیں انکی بستی کی بستی خاک و خون میں
نہلائی جا رہی ہیں جن میں ہر عمر کے افراد بشمول ننھے منے بچوں سمیت سب ہی
مارے جا رہے ہیں مگر کوئی داد رسی کرنے والا نہیں۔ہزاروں کی تعداد میں برمی
مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین بن رہے ہیں۔ موجودہ
حالات میں اگر ان لوگوں پر ہوئے ظلم کی ویڈیو کوئی بندہ دیکھ لے تو اس کی
آنکھیں نَم ہو جائیں گی۔ ظلم کی اس قدر انتہا ہے کہ اللہ کی پناہ!
گذشتہ دنوں OICکا اجلاس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا
کہ ایک ٹیم میانمار بھیجا جائے تاکہ وہ فیکٹ اینڈ فائنڈگ کی صورتحال سے
OICکو آگاہ کر سکے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل اس کی روشنی میں طے کیا جائے۔
لگ بھگ دو لاکھ افراد کے گھروں کو وہاں آگ لگا ئی جا چکی ہے ، تمام ساز و
سامان کو لوٹ لیا گیا ہے ، اس موقعے پر وہاں جو بھی سامنے ملا اسے تشدد
کرکے موت کی نیند سلا دیا گیا، گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا گیا،
خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی مثال نہیں ملتی، سچ تو یہ ہے کہ اُس ملک
میں ایک زبان، رنگ اور نسل کا ہونے کے باوجود مسلمانوں کو کوئی اپنا بھائی
نہیں سمجھتا، شاید اس لئے کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں ۔ ہماری حکومت کے بھی
سرکردہ رہنماﺅں نے میانمار کے سربراہوں کو خط لکھا ہے کہ اس قسم کی کاروائی
کو فوری روکا جائے اب دیکھیں کہ کب ان لوگوں کی آنکھیں کھلتی ہیں۔
دنیا بھر میں رمضان المبارک کا بے بہا فضیلتوں کا مہینہ اپنے بامِ عروج پر
ہے اور اس مہینے میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے
مگر پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں جو ہر طرف افرا تفری پیدا کر رہے ہیں اور خود
ہی اللہ رب العزت کے قہر کو دعوت دے رہے ہیں ۔ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم
لوگ اسلام کو، نماز کو، روزہ کو بھلا بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نہ جانے
کیسی کیسی قدرتی آفات اور قہر کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ برما میں جاری قتل
و غارت گری اور ظلم و ستم کی تصویریں دیکھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
پھر یہ کیسے لوگ ہیں جو یہ کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں اور انہیں کوئی
تکلیف تک نہیں ہوتی۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو برما میں ہوئے ظلم پر خاموش ہیں
اور مسلمان بہن، بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کے قتل ہونے پر خاموش تماشائی
بنے بیٹھے ہیں۔(اللہ سب کو ہدایت دے آمین)
ایسے میں ابتصام الٰہی ظہیر صاحب کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے جو حال ہی میں
لکھا گیا ہے کہ:
برمیوں کے قتل پر اُمت خاموش ہے
پٹی ہے آنکھ پر اور دل بھی مدہوش ہے
کہرام ہے کہرام ہے
برما میں قتلِ عام ہے
سنا ہے کہ انصار برنی صاحب نے میانمار جانے کا ارادہ کیا تھا مگر جب ویزے
کی درخواست ان کی طرف سے داخل کی گئی تو ان کی درخواست رَد کر دی گئی یہ
کیسا انصاف ہے کہ اگر کوئی آواز اٹھا نا چاہتا ہے تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔
خیر جناب! ہمارے یہاں کون سے حالات بہت اچھے ہیں پہلے گھر کو دیکھ لیا جائے
تو بہتر ہوگا کیونکہ یہاں بھی روز آنہ ہی قتل و غارت گری مچی ہوئی ہے اور
حد تو یہ ہے کہ اس بابرکت مہینے میں بھی ٹارگٹ کلنگ تھمنے کا نام نہیں لے
رہی ہے اور ارباب کی نظروں میں سب اچھا ہے ؟
ایک اطلاع کے مطابق آج برما میں تقریباً تین سو مساجد بند کر دی گئیں ہیں۔
بیس ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ نوے ہزار مسلمانوں کو نقلِ مکانی
پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اب تک لگ بھگ چار سے پانچ ہزار فیملیز کو زندہ
جلایا جا چکا ہے۔ اور کسی کے سر پر جُوں تک نہیں رینگتی۔نہ جانے ان نصیحتوں
کا کسی پر اثر کیوں نہیں ہوتا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر طرف دیواریں ہی
دیواریں ہیں اور اس سے سب کے سَر ٹکرانے کو ہیں۔اگر آج تمام مسلم ممالک
اپنے اپنے سفیر برما سے واپس ملا لیں اور برما کا بائیکاٹ کر دیں تو اسی
وقت وہاں کی حکومت حرکت میں آجائے گی اور قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ بھی
بند ہو جائے گا لیکن مسلم ممالک کے حکمران اپنے اپنے روٹ ورک پر لگے ہوئے
ہیں۔
ہماری تو بلکہ ہم سب مسلمانوں کی دعا ہے کہ اللہ ربِّ کریم دنیا کے تمام
مسلمانوں میں اتحاد نصیب فرمائے اور پوری دنیا میں امن و آتشی قائم کر دے ۔
اور خاص کر برما میں امن کا قیام فرما دے۔ آمین |