ابھی کچھ دنوں قبل ہونے والے غم
ناک سانحے سے قوم پوری طرح باہر نہ آ سکی تھی ۔سیاچن گلیشئر یعنی دنیا کا
بلند ترین محاذ اور برف زاروں کی جہنم جو سطح سمندر سے تقریباً 21ہزار فٹ
کی بلندی پر ہے۔ہمارے جوان اپنی عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر ان برفیلے
میدانوں میں دشمن کے ناپاک قدموں کو مزید آگے نہ بڑھنے دینے کے عزم سے
سرشار اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے۔7اپریل کو برفانی تودہ گرنے سے
128جوان اور افسر اور کچھ شہری منوں برف کے نیچے مدفن ہو گئے تادم تحریر
بھاری مشینوں کے ذریعے برف کو ہٹایا جارہا ہے۔ابھی تک سیاچن کے برف زاروں
میں ٹنوں برف تلے دفن ہمارے بہادر جوانوں کا کچھ نہیں پتا چلا ۔ابھی ہم اس
دل شکن صدمے سے آزاد بھی نہ ہوئے تھے کہ قدرت نے ہمیں ایک اور سانحے سے دو
چار کر دیا ۔ پورے ملک میں غم کی فضا چھا گئی اور پوری قوم سوگوار ہو گئی
۔20جمعہ کی شام کو ایک نجی کمپنی بھوجا ائر لائن کا بوئنگ طیارہ کراچی سے
اسلام آباد آرہا تھا کہ اپنی منزل سے چند کلومیٹر دو ر گر کر تباہ ہو گیا
اور اپنے ساتھ 121مسافر جن میں 6شیر خوار بچے اور عملے کے چھ افراد کو بھی
نگل گیا ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ طیارہ گرنے سے پہلے تین مرتبہ زمین سے
ٹکرایا اور ہوا میں ہی طیارے کے کچھ حصے کو آگ لگ چکی تھی۔ایک مرتبہ پھر
پاکستان سوگوار ہو گیا ۔ اس سانحے کی کسک ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے۔ جس
میں کئی خاندان اجڑ گئے ہیں۔کسی کا باپ ، کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا
ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا ۔پورے ملک میں غم و افسردگی کی فضا چھا گئی اور اس
حادثے میں لقمہ اجل بننے والوں کے پسماندگان کی بے بسی و کرب کا اندازہ
نہیں لگایا جا سکتا ۔ ڈی جی سول ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ طیارے میں کوئی
فنی خرابی نہ تھی ۔ بھوجا ائیر لائن کا یہ طیارہ دس سال سے گراﺅنڈ تھا۔
طیارے کے اس ماڈل کی پہلی پرواز 18اگست 1967ءیعنی آج سے تقریباً35سال پہلے
تھی ۔بد نصیب طیارے کی آخری پرواز بھوجا ائیر لائن کی گیارہ سال بعد پہلی
پرواز تھی۔دو برس کے دوران طیارہ حادثے سے تقریباً 300افراد لقمہ اجل بن
گئے ۔28جولائی 2010ءکو نجی ائیر بلیو کا کراچی سے اسلام آباد آنے والا
طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا اس حادثے میں 152قیمتی
جانیں ضائع ہوئی تھیں۔1996ءمیں ملتان میں گرنے والا پی آئی اے کا فوکر
طیارہ جو45افراد کو نگل گیا تھا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر
تازہ سانحہ پر جو ڈیشل کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ماضی میں ہونے والے حادثوں
پر بھی کمیشن بنائے گئے ۔ لیکن کیا کبھی کوئی مجرم پکڑا گیا ؟کیا کبھی کوئی
سرمایہ کار انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔ان حادثوں کی کئی شفاف تحقیقاتی
رپورٹ سامنے نہیں آئی ویسے بھی وطن عزیز میں کسی واقعے کی رپورٹ آتی ہے؟جاں
بحق ہونے والوں میں ایک جوڑا ہنی مون منانے جارہا تھا ۔ائیر ہوسٹس پر نسز
فلیبویا کی چند ماہ بعد شادی تھی ۔ چھر شیر خوار بچے بھی تھے اور باقی بھی
پتہ نہیں کس کی غفلت ،کس کی لا پرواہی اور کس کی نااہلی کا نشانہ بنے۔کوئی
کہہرہا جہاز کی مشینیں خراب تھیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔کیا طیارے کو
پروز سے پہلے کلیئر نہیں کیا گیا تھا؟ اب کیا ہو سکتا ہے سوائے چند دن رونے
پیٹنے کے اس کے بعد یہ کیس بھی ردی کی ٹوکری میں ہوگا ۔جس شام یہ افسوسناک
حادثہ پیش آیا نجی ٹی وی چینلز حادثے کے متعلق خبریں دیتے رہے لیکن ہمارے
سرکاری ٹی وی چینل ” پی ٹی وی“ کا رویہ انتہائی افسوسناک تھا ایسا محسوس ہی
نہیں ہو رہا تھا کہ کوئی سانحہ پیش آیا اسی طرح گانے بجانے کے پروگرام اسی
طرح میوزک کی محفلیں چل رہی تھیں۔اس پر رہی سہی کسر پنجاب حکومت نے نکال دی
۔ جو تین دن کا کلچرل میلے کا نعقاد کروا رہی تھی۔جس کا عنوان تھا ” یہی ہے
پاکستان“ اس حادثے کی اگلی شام الحمرا کلچرل کمپلیکس میں گانے بجانے کے
مقابلے ہو رہے تھے۔ثقافت کو زندہ کرنے کے لیے رقص بھی کا جارہاتھا۔بڑے
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے ۔ ایک وہ لوگ تھے جو اس حادثے کے بعد لاشوں سے
قیمتی سامان چرا رہے تھے ۔دوسرے وہ لوگ تھے جو اگلی شام ” یہی ہے پاکستان “
کے نام سے کلچرل میلہ سجا کر بیٹھے تھے ۔121مسافروں اور شیر خوار بچوں کے
جسموں کے ٹکڑے چیخ چیخ کر یہ سوال کر رہے تھے۔
” کیا یہی ہے پاکستان؟ “
ائیر ہوسٹس پرنسز فلیبویا جس کی چند ماہ بعد شادی تھی اور ہنی مون پر جانے
والا بد قسمت جوڑا پنجاب حکومت اور اس کلچرل میلے کی انتظامیہ سے سوال کر
رہے ہیں کیا یہی ہے پاکستان؟ |