رمضان کا انعام:آزادی کا پیغام (قسط دوم)

اس سال یوم آزادی کا جشن ماہِ قرآن یعنی رمضان کے دوران منایا گیا اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فرقانِ عظیم سےالہامی آزادی کے حقیقی تصور کی معرفت حاصل کی جائے لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر رمضان اور آزادی کے درمیان مشترک کیاہے ؟ ماہِ رمضان کے اندر پیش آنے والےاہم واقعات پر اگرغور کیا جائے تو ان کا باہم تعلق بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے ۔رمضان کے تین اہم ترین واقعات مثلاًآغازِ وحی،یوم الفرقان اورفتح مبین کا براہِ راست تعلق آزادی سے ہے ۔ آزادی کی ہئیت اور استحکام کا دارومدار اس فکری بنیادوں پر ہوتاہے ۔قرآن عظیم نے انسانی آزادی کی نہایت پائیداربنیادیں فراہم کی ہیں ۔ انسانی حقوق کو بے مثال اندازمیں بیان کرنےکے بعد ان کے پاس و لحاظ کی خاطر ترغیب و ترہیب کا لاثانی اسلوب اختیار کیا ہے ۔اسی کےساتھ انسانی حقوق کی پامالی کے دنیوی و اخروی انجام سےنہایت منفرد اور دلپزیر انداز میں خبردار بھی کیا ہے ۔

آزادی کا تصور انسان کی سرشت میں شامل ہے ۔ بنی نوعِ انسانی پر اللہ رب العزت کی یہ سب سے بڑی عنایت ہے۔ اسی کے باعث انسان کو دیگر تمام مخلوقات میں عزت و تکریم حاصل ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اس کا ذکر کچھ اس طرح ہے کہ ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی ‘‘ ۔یہی وہ فوقیت ہے جس پر ابلیس چراغ پا ہو گیا اور اس نے اعلان بغاوت کرتے ہوئے کہا ’’ دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے" ۔

آزادی کے اس شرف کا تعلق چونکہ انسان کے مقصد وجود سے ہے اس لئےربِ کائنات ارشاد فرماتا ہے’’ اس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی ‘‘انسانوں کی آزمائش کے اس مقصدِ جلیل کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ اسے اختیار و عمل کی آزادی سے ہمکنار کیا جائے تاکہ اخروی فلاح و خسران کی مکمل ذمہ داری خود اس پرہو ۔ سچ تو یہ ہےکہ تکمیل بندگی کی اولین شرط یہ ہے کہ انسان سارے باطل خداؤں کی غلامی سے مکمل طور پر آزاد ہو ۔اللہ رب العزت خود انا نی آزادی کی ضمانت دیتے ہوئے فرماتا ہے ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ اس کے فوراً بعد آزادی کے مضمرات سے بھی آگاہ فرمادیا جاتا ہے’’ کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے ۔ نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی ‘‘

آیت الکرسی قرآن ِمجید کی سب سے طویل آیت ہے ۔ اس میں اللہ رب العزت کی ذات و صفات اور جلال و جبروت کا بیان ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مالک الملک کے ہمہ گیر اقتدار کا بھی ذکر موجود ہے مذکورہ تفصیل بیان کرنے کے فوراً بعد والی آیت میں ارشاد قرآنی ہے ’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘ اس یقین دہانی کا سیاق و سباق اسکی اہمیت کا غماز ہے۔اب اگر اللہ تعالیٰ اپنے دین حنیف کے معاملے میں انسانوں کو مکمل آزادی دیتا ہے تو کسی انسانی نظریہ کی کیا بساط کہ وہ انسانوں پر زور زبردستی کرے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جس آزادی سےدین اسلام انسانوں روشناس کرتا ہے کوئی اور دین یا نظریہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا اسلئے کہ ہراقتدار کو اپنی بساط کےالٹ جانے کا خطرہ بدستورلگا رہتاہے سوائےخدائے واحدالقہارکے کہ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا ۔

انسان اپنی فطرت میں ودیعت کردہ الہامی جذبۂ حریت کے باعث کبھی بھی دیگرانسانوں کی غلامی برداشت نہیں کرتا اور غلامی کی ہر زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا ازلی دشمن شیطان بھی کبھی مایوس نہیں ہوتا وہ نت نئی خوشنما زنجیریں گھڑتا رہتا ہے ۔ یہی وہ سراب ہے جسے انسان آب ِ حیات سمجھ کر اس کے پیچھے سرپٹ بھاگتا رہتا ہے ۔طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد جب اسے رسائی حاصل ہوتی ہےتوپتہ چلتا ہے کہ یہ اسی سورج کا عکس تھا جس سے بھاگ کر اپنی پیاس بجھانے کی خاطر وہ سرگرداں کار رہا تھا ۔ ایسے میں خوابِِ غفلت سے جب کوئی محکوم بیدار ہوتا تو اسے حکمراں کی سامری پھر سے سلا دیتی ہے ۔ابلیس لعین ناکام و نامرادانسانیت کو ایک نئے سراب کا خواب دکھلاکر اس کے پیچھے دوڑا دیتا ہے ۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ اس حقیقت کی بہترین ترجمان ہے ۔ ابلیس کے فریب سے تو وہی بچ سکتا ہے کہ جس کا دل گواہی دیتا ہو’’بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں‘‘۔اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اگر زمین اللہ کی ملکیت ہے تواس پر قانون بھی اسی کا چلنا چاہئے ۔کسی انسان کو(وہ جمہور ہو یا ان کا نمائندہ ) دیگر انسانوں پراپنی مرضی مسلط کرنے کا حق نہیں ہے ۔ فکرو عمل کا یہ انقلاب انسانی جبر واستبداد کے سارے جواز مسترد کردیتاہے۔ یہی وہ الہامی تعلیم ہے کہ جس کے باعث نہ کوئی کسی کا آقا بن سکتا ہے اور نہ کسی کو غلام بنا سکتا ہے ۔

سورۂ اعراف میں ارشادِ ربانی ہے ’’ (پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے‘‘۔اس کے بعد اللہ رب العزت نے نبی کریم ؐ کا مشن بیان فرمایا ہے:
• وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے،
• ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے،
• اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے
• اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے
• لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں
• اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے،
• وہی فلاح پانے والے ہیں

نبیٔ آخرالزماںؐ کی بعثت کے بعد اب تا قیامت امت محمدی کا بھی مقصدِ وجود یہی امر بالمعروف اور نہی ان المنکر ہے جس کا بیان قرآن عظیم میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ۔ لیکن یہاں اضافی طور بوجھ اتارنے کااور بندشیں کھولنے کابھی ذکر ہے ۔یہ کوئی اور نہیں بلکہ رسوم و رواج کابوجھ اور مختلف غلامی کی بندشیں ہیں ۔امت مسلمہ کی ذمہ داری نہ صرف اپنے آپ کو ان جکڑ بندیوں سے آزاد کرنا ہے بلکہ ان تمام لوگوں کی نصرت و حمایت کرنا بھی اس کا فرض منصبی ہے جو آزادی کے حصول کی خاطرجدوجہد کر رہے ہوں ۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہماری کشمکش طاغوتی طریقۂ کار سے علی الرغم قرآن کی روشنی میں ہونی چاہئے اور اس جدو جہد کا بدلہ فلاحِ دارین ہے ۔اس پر نہ صرف امت کی دنیوی بلکہ اخروی کامیابی کا بھی دارومدار ہے ۔اہل ایمان نے اپنی اس ذمہ داری کو کس شان کے ساتھ ادا کیا اس کی ایک نادر مثال رستم کے دربار میں حضرت ربعی بن عامرؒ نے پیش کی جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے آنے کی غرض و غایت کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ؟ ’’ ہم کو اللہ نے اِسی لیے بھیجا ہے کہ جس کی مرضی ہو اس کو بندوں کی بندگی سے نجات دلا کر اللہ کی بندگی میں داخل کر دیں اور دُنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں پہنچا دیں نیز مذاہب کی زیادتیوں سے چھٹکارا دلا کر اسلامی عدل کے سایہ تلے لے آئیں‘‘۔

سیرۃ النبی ؐ میں عام الحزن یعنی غم کا سال خود حضوراکرمﷺاور مسلمانوں کیلئے آزمائش کا سب سے سنگین دور تھا جبکہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے انتقال نے آپ ؐ کو ایک دیرینہ ہمدردو غمگسار سے محروم کردیا اور حضرت ابوطالب کے وفات نے سب سے بڑےدشمنِ حق کوبنو ہاشم کا سردار بنا دیا ۔اس طرح اندرونِ خانہ اور باہر کی دنیا دونوں مقامات پر آپ ؐ کی ذاتِ شریفہ تنہا و غیر محفوظ ہو گئی۔باطل کے حوصلےبلند ہو گئے اور وہ اپنے خطرناک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے پر غور کرنے لگے ۔ اس صورتحال کا بیان قرآنِ عظیم میں اس طرح ہوا ہے کہ’’اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں‘‘ اللہ رب العزت نے اس موقع پر ڈھارس کچھ اس طرح بندھائی کہ‘‘ لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھرا سکیں گے۔یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے’’اسی کے ساتھ نبی کریم ؐ کو یہ دعا سکھلائی گئی ’’اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اوراپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے‘‘

قبل از ہجرت نازک ترین حالات میں مومنین کویہ نصیحت کی گئی کہ تمہارے لئے اہم یہ نہیں ہے کہ تم کس مقام پر رہتے ہو؟ بلکہ اہم یہ ہے کہ تم کیسے رہتے ہو؟اسی لئے فرمایا کہ سچائی کا ساتھ اہم ترین ہے ۔مومن جہاں سے بھی نکلے اور جہاں بھی جائے سچ کا ساتھ لازمی ہےاور اگر ایسا ہوتا ہے تو کسی اور اقتدارکا مددگار ہوناتو درکنارخود اسےاقتدارحاصل ہوجائیگا ۔اسی لئے ان نامسائدحالات میں حکم دیا گیا ’’اور اعلان کر دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘ اس وقت جن لوگوں نے اس اعلان کو سنا ہوگا ان کیلئے اس کی حقیقت تک رسائی خاصی مشکل رہی ہوگی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آٹھ سال بعدجب مکہ فتح ہوا تو حضور اکرم ؐ خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرتے جاتے تھے اور یہی آیت پڑھتے جاتے تھے کہ ’’حق آیا اور باطل مٹ گیا تو اور باطل کو تو مٹناہی ہے‘‘۔ فتح مبین نےاس آیت کی معنویت ساری دنیا کے سامنےکھول کر رکھ دی اورتاریخ انسانی گویا تفسیر قرآنی بن گئی ۔ مظلومیت ایک تاریک ترین رات میں ہجرت کےسفر کا آغازہوا اور اسی کے ساتھ آزادی کی نئی صبح نمودار ہوگئی ۔

مدینہ میں قائم ہونے والی آزاد اسلامی ریاست کا قیام باطل کیلئے سوہانِ جان بن گیا اور طاغوت نے اس چراغ کو بجھانے کیلئے ریشہ دوانیوں شروع کر دیں ۔ابوسفیان کی قیادت میں ایک تجارتی قافلہ شام کی جانب اس مقصد کے تحت روانہ کیا گیا کہ اس سے حاصل ہونے والی ساری آمدنی کا استعمال مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں کیا جائیگا ۔اس قافلہ کو روکنے کا منصوبہ مسلمانوں نے بنایا اور اور اسکے تحفظ کی خاطر کافروں کا لشکر جرار نفرت وعناد کے جذبات سے سرشار مکہ سے نکل کھڑا ہوا ۔مسلمانوں کو قافلہ یا فوج ان دونوں میں سے کسی ایک پرغلبہ کی یقین دہانی اللہ العزت کی جانب سے حاصل ہوگئی تھی ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا عرب روایت کے مطابق مسلمان کفار مکہ سے بدلہ کو ترجیح دیتے لیکن جب حضور اکرمؐ نے صحابہ سے مشورہ کیا تو ابتدائی رحجان قافلہ کی جانب سامنے آیا۔ایسا اسلئے ہوا تھا کہ گوں نا گوں وجوہات کے باعث مسلمانوں کے ہاتھ تیرہ سال تک باندھ دئیے گئے تھے اور انہیں اینٹ کاجواب پتھر سےدینے کی اجازت نہیں تھی ۔اس رویہ کا اثر اہل ایمان کی نفسیات پر یہ مرتب ہوا کہ انہوں نے مشکل کے باالمقابل آسانی کا انتخاب کیا ۔

رہبر عالم ﷺ جانتے تھے کہ اب حالات بدل گئے ہیں اس لئے حکمت عملی بھی بدلنی چاہئے نیز نئی حکمت عملی پر عملدرآمد کیلئے طرزفکرمیں تبدیلی ناگزیر ہے ۔اس لئے آپ نے بار بار استفسار فرمایا صحابۂ کرام آپؐ کا اشارہ سمجھ گئے ۔ پہلے مہاجرین اور پھر اس کے بعد انصار نے لائحۂ عمل کےانتخاب کی ذمہ داری حضور اکرمؐ پرچھوڑ کر ہردوصورت میں مکمل حمایت کا یقین دلایا ۔ نبی کریم ؐ نے قافلہ پر فوج کو ترجیح دی اور اپنی تمام تر بے سروسامانی کے باوجود بدر کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا ۔ اس لئے کہ نوزائیدہ اسلامی ریاست کی آزادی کا دفاع اسی طرح ممکن تھا اور ایسے میں جب کہ کامیابی کی بشارت موجود تھی اپنی مدافعت کا اس سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا ۔ آپ ؐ کے اس جرأتمندانہ فیصلے نے کفار کو مدینہ سے بہت دور میدانِ بدر میں پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کردیا ۔ کفار ِمکہ نے اپنی طاقت کے نشہ میں اس معرکہ کو ازخود الفرقان قرار دے دیا اور اعلان کیا کہ حق و باطل کا فیصلہ اس جنگ کے انجام پر ہوگا؟ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کر کے انہیں فرقانِ عظیم کا نظارہ کروا دیا کہ ’’دیکھو اگرچہ دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘۔ غزوۂ بدر امت مسلمہ کی آزادی کااولین دفاع تھا اور یہ واقعہ بھی ماہِ رمضان کی ۱۷ ویں تاریخ کو پیش آیا ۔ کفار کے سارے بڑے سردار مارے گئےاور مسلمان کامیاب و کامران ہو کر واپس لوٹے گویا وحی الٰہی میں آزادی کی جو بشارت تھی اس کی مدافعت کا آغازاسی ماہِ مبارک میں ہوا اور اس سے فتح وکامرانی کی بشارتوں کا دروازہ کھل گیا ۔

میدانِ بدر سے واپسی کے بعد اہلِ ایمان کا قافلۂ سخت جان احد و خندق کے مختلف معرکوں سے گزرتا ہوا صلح حدیبیہ تک پہنچا لیکن ابھی وہ فیصلہ کن کامیابی جس کی بشارت فتح مبین کے طور پر دی گئی تھی ہنوز دور تھی۔ غزوۂ احزاب میں کافروں کے ناکام و نامراد لوٹ جانے کے بعد یہ خوشخبری تو ہادی ٔ برحق ؐ نے سنا دی تھی کہ اب وہ نہیں آئیں گے بلکہ تم جاؤگے لیکن وہ مبارک ساعت کب آئیگی یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔یہ دورِ مدافعت کب اقدام کے مرحلے میں قدم رکھے گا اس کا علم، عالم الغیب والشہادۃذاتِ باری تعالیٰ کے علاوہ کسی فردِ بشر کونہیں تھا لیکن اس کی آمد کا یقین اور انتظار سارے اہل ایمان کر رہے تھے ۔مکہ کی جانب کوچ عالمِ عرب کو غلامی کی زنجیروں سے چھڑانے والا ایک انقلابی اقدام تھا ۔ اس نے باطل خداؤں سے نجات دلا کرتوحید کی بنیاد پرساری انسانیت کورہتی دنیا تک کیلئے امن و آزادی کے عالمی مرکز سے سرفرازکردیا ۔ مشیت ایزدی نے اس مبارک ساعت کو بھی ماہِ رمضان کےصدف میں لعل و گہر کی مانند محفوظ کردیا تھا ۔گویاوحی الٰہی سے جو آزادی کا چراغ غار حرا میں روشن ہوا تھا اس کو ماہِ تمام بن کر سارے عالم پر چمکنے کا موقع بھی مالکِ کائنات نے اسی ماہِ مبارک میں فتح مبین کے ذریعہ عطا فرمایا ۔
فتح مکہ کے بعد جب باطل سرنگوں ہو گیا اورحق غالب آ گیاتو کہیں سے آواز آئی آج بدلے کادن ہے کفارِ قریش بھی یہی توقع کررہے تھے اس لئے کہ انہیں وہ سارے مظالم یاد تھے جو مہاجرین پر توڑے گئے تھے لیکن اس کے برعکس رحمت اللعالمین ؐ نے منادی فر مادی کہ آج بدلہ کا نہیں بلکہ رحم کا دن ہے اورعام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاآج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا جاؤ تم سب آزاد ہو ۔ اپنی آزادی کیلئے ہر کوئی لڑتا ہے اور اپنوں کو آزادی سے نوازنے کی فکر ہر رہنماکو ہوتی ہےلیکن ان دشمنوں کو جو کبھی خون کے پیاسے تھے مکمل اختیارکے باوجود آزادی کی بیش بہا دولت سے مالا مال کر دینا حقیقی آزادی کی وہ معراج ہے جو صرف اور صرف اسلام کا طرۂ امتیاز ہے ۔ انسانی تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں آزادی کے ثمرات محض آزادی کیلئے عظیم قربانیاں دینے والے متوالوں تک محدود نہیں رہے بلکہ اس کے فیوض و برکات سے دشمنان حق تک کو نواز دیا گیا ۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ حق کے آنے اورباطل کے مٹ جانے کی پیشن گوئی کسی زمان و مکان تک محدود نہیں بلکہ دور حاضر میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب حق کا چراغ ایران میں روشن ہوا تو اس انقلاب کے خوف سے شاہِ ایران اپنے سارے جاہ و جلال کے باوجود بھاگ کھڑا ہوا ، باطل کوتو بہر حال جانا ہی تھا ۔ سر زمینِ افغانستان پر اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین نے نگاہ غلط ڈالی اور اس کے مقابلے میں جب حق کے علرے دار اٹھے تو اسے نہ صرف افغانستان سے نکل جانا پڑا بلکہ صٖفحۂ ہستی سے سوویت یونین نامی باطل طاقت ہمیشہ کیلئے مٹ گئی اور اس کے بعد امریکی طاغوت حق کے آگے سینہ سپر ہوا تو اب اس کے بھی چل چلاؤ کا وقت آگیا ۔ امریکی انتظامیہ ایک طویل کشمکش میں ناکامی کے بعد از خود افغانستان سے بے آبرو ہو کر نکل بھاگنے کی تاریخ طہ کرنے پر مجبور ہے اور خراماں خراماں اسی راہ پر گامزن ہے جن پر چل کر سوویت یونین بے نام و نشان ہو گیا تھا ۔عالم ِ اسلام نہ صرف عالمی استعمار سے بلکہ اس کے باجگزاروں سے رفتہ رفتہ آزاد ہوتا جارہا ہے تیونس سے لے کر مصر تک برپا ہونے والی تبدیلیاں اور شام میں برپا کشمکش اسی حقیقت کی غماز ہے ۔

حق و باطل کی یہ کشمکش ہر دور میں جاری و ساری رہتی ہے اور ہر بار فیصلہ کن فتح اہلِ حق کے حصہ میں آتی ہے اس لئے کہ ارشادِ ربانی ہے اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ’’جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اوروہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو(جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے‘‘۔مسلم سربراہانِ مملکت کا ایک اہم اجلاس اس سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مکہ المکرمہ کی پاک سر زمین میں منعقد ہورہا ہے۔جس میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ایران کے صدر احمدی نژاد شانہ بشانہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اسلامی اتحاد کے اس عظیم مظاہرے کو استحکام عطا فرمائے اور غلبۂ دین اور تکمیلِ آزادی کا اپنا وعدہ ہمارے حق میں پھر ایک بارپورا فرمائے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226765 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.