عید نام ہے خوشی کا، اللہ تعالیٰ
کے انعام کا.... اس دن حسب استطاعت اچھے کھانے پہننے اور خوشی کے اظہار کا
حکم ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے، یہ سب بجا لیکن یہ
حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ خوشی کا تعلق دل سے ہے، یہ دل سے پھوٹتی ہے
تو چہرے دمک اٹھتے ہیں، مگرجب دل میں خوشی کی رمق نہ ہوتو مصنوعی غازے اور
سرخی بھی چہرے پر دمک نہیں لا سکتے۔ کئی سالوں سے عید خصوصاً میٹھی عیدخوشی
کی نوید نہیں بلکہ غم والم کے نوحے سناتی آتی ہے۔ شریعت کی اتباع میں ہم
نئے کپڑے بھی پہنتے ہیں اور اچھے کھانے بھی لیکن جب دل اداس ہو تو سب کچھ
بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ پچھلا رمضان اور عید اہل کراچی کو بھولی نہ ہوگی....
اور خاص وہ لوگ تو اسے کیسے بھول سکتے ہیں کہ جن کے لعل اور سر کے تاج عین
ماہِ رمضان میں درندگی اور بہیمیت کی نذر ہو گئے.... کیسے لرزہ خیز ایام
تھے وہ، ایک طرف روزے، تراویح اور قرآن کی بہاریں تھیں تو دوسری طرف قومیت
کے نام پرخون، تشدد اور سرکٹی بوری بند لاشیں تھیں۔ جن کے گھر اس شیطنت میں
اجڑ گئے،عید کا سورج تو ان کے سر پر بھی چمکا ہو گا لیکن ....
اس بار اللہ کا لاکھ لاکھ فضل و احسان رہا کہ پچھلی بار کی بانسبت اس بار
ماہ رمضان خیر و عافیت سے گزرتا رہا۔ گو قومیت اور لسانیت کا ناگ گاہے گاہے
پھنکارتا رہا لیکن دن میں دو تین ٹارگٹ قتل تو اب معمول کی سی بات لگتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی کو میرے اس جملہ میں بے حسی اور سنگ دلی کی بو آئے لیکن
اول تو وہ اس شہر ستم گر کا باسی نہیں ہو گاجس میں لہو کی قیمت سے زیادہ اب
اس موبائل کی قیمت ہے، جس کو چھینتے ہوئے کسی اضطراری حرکت پر بے تکلف ایک
جیتے جاگتے آدمی کو لہو میں نہلا دیا جاتا ہے....دوم اس سے یہ نفسیاتی نکتہ
اوجھل ہو گاکہ زیادہ با خبری بھی بے حسی طاری کر دیتی ہے۔ پرنٹ و الیکٹرانک
میڈیا کے ذریعے خبروں کا ہجوم ایک انسان کو نارمل نہیں رہنے دیتا۔اس لیے
اندرون شہر کی خبریں پڑھ سن کر کراچی کے باسیوں کے نزدیک بہت سی خاص باتیں
بھی اب عام ہو گئی ہیں ۔اوریہ ٹارگٹ کلنگ وغنڈہ گردی اہلیان کراچی کے روز
مرہ میں شامل ہو گیا ہے، اسی لیے عموماً آنکھوں میں آنسو تب ہی آتے ہیں جب
کوئی اپنا اس کا شکار ہو جاتا ہے!
اس کا مشاہدہ مجھے28 رمضان کو ہوا، جب میں ایک جاننے والے کے گھرکسی کام سے
گیا۔ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہماری بات چیت چل رہی تھی کہ خبر آئی ،
نارتھ کراچی میں حالات اچانک خراب ہو گئے ہیں اور ایک مخصوص علاقے میں
ٹارگٹ کلنگ میں پانچ نوجوان جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اتفاق سے اسی خاص علاقے
میں اس گھرانے کا ایک نوجوان کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ گھر والوں کو فکر
لاحق ہوئی تو اس کا نمبرملایا، مگر سیل خلاف معمول آف تھا۔ تھوڑی دیر بعد
دوبارہ کال کی تو بند.... گھر بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پھر جس سے
ملنے وہ نوجوان گیا تھا، اسے کال کی گئی تو یہ انکشاف ہوا کہ ابھی تک
نوجوان ان کے پاس آیا ہی نہیں.... ساتھ ہی ان صاحب نے نصیحت بھی کر دی کہ
حالات بہت کشیدہ ہیں، آج کوئی یہاں کا رخ نہ کرے۔سب مزید گھبرا گئے۔ وہ بار
بار کال ملاتے رہے لیکن فون بند ہونے کا میسج آتا رہا۔پھر اگلے آدھے پون
گھنٹے میں اس کے کئی دوستوں سے رابطہ کیا گیا ، لیکن اس کا کچھ پتا نہ تھا۔
آخر گھر کی مستورات کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور نوجوان کی والدہ تو چیخ
کر رونے لگیں جس کی وجہ سے مرد بھی گھبرا گئے۔انہوں نے اندر جا کر تسلی دی
، پھربالآخر میں اور نوجوان کے دو نوں بڑے بھائی متاثرہ علاقے میں جانے کا
سوچ کر گھر سے نکلے ۔اتفاق دیکھیے کہ اسی وقت سامنے سے ان کا بھائی مسکراتا
ہوا آ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر بھائیوں کی سانس میں سانس آئی۔ معلوم ہوا کہ
اسے کسی وجہ سے دیر ہو گئی تھی اس لیے وہ متاثرہ علاقے میں جا نہیں سکا
تھا۔ فون چارج نہیں تھا اس لیے بند تھا۔ وہ لڑکا گھر گیا تو اس کی والدہ
کافی دیر تک اس سے چمٹے روتی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ سے سب کچھ معمول
پر آگیا۔ اندر ٹی وی سے شہر کی کشیدہ صورت حال مانیٹر کی جا رہی تھی۔ وہ
پانچ نوجوان جو عید سے دو دن پہلے دہشت گردی کا نشانہ بنا دیے گئے،ان کے
بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے چینل بدل دیا اور اب شاید
انڈیا کا کوئی چینل تھا جس کا اندازہ گانوں سے بخوبی ہو رہا تھا۔ میں گھر
سے نکلا تو یہی سوچ رہا تھا کہ دس منٹ پہلے اس گھر میں رونا پیٹنا ہو رہا
تھا مگر اپنے بچے کی خیریت معلوم ہونے کے بعد موسیقی اور ڈرامے سے یوں لطف
اندوز ہوا جا رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ چند کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ
کلمہ گو نوجوانوں کی ناگہانی موت پر ان کے گھر والوں پر کیا گزر رہی ہو گی،
اس کا احساس کسی کو بھی نہیں تھا۔
میں نے سوچا کہ یہ چھوٹا سا ٹیسٹ کیس ہے ، ساری امت مسلمہ پر طاری سفاکانہ
بے حسی ماپنے کا.... پچھلے چند ماہ سے برما کے مسلمانوں کو جس درندگی سے
ذبح کیا جا رہا ہے، ان کے مال و متاع کو لوٹا جا رہا ہے،ان کے گھروں کو نذر
آتش کیاجا رہا ہے اور ان کی عزتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے....یہ ہرگز کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن اجتماعی اور انفرادی طور پر بھی ہماری بے حسی کا
یہ عالم ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہم نے انہیں جانوروں سے بھی کسی نچلی سطح پر
سمجھ لیا ہے کیوں کہ آئے دن میڈیا پر جانوروں کے حقوق پر کوئی نہ کوئی خبر
آتی رہتی ہے لیکن برما کے مظلوم ہزاروں مسلمانوں کی جان و عزت شاید میڈیا
کے نزدیک کسی خبر کا درجہ نہیں رکھتی۔میڈیا اور حکومت کو تو رہنے دیجیے ایک
عام پاکستانی کو بھی شاید اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جہاں ایک طرف برمی
مسلمان بھائی تاریخ کی بدترین خونریزی کا شکار ہو رہے ہیںتو دوسری طرف شام
میں سرکاری فوج کے ہاتھوں شامی مسلمانوں پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے، ایک
ایک دن میں ساٹھ ستر افراد کو نہایت بہیمانہ انداز میں پھانسی دی جا رہی ہے
!یہی نہیں اپنے ملک کا یہ حال ہے کہ انتیس رمضان المبارک کو جب وزیرستان
میں عید منائی جا رہی تھی تو ایک ڈرون حملے نے ایک گھر کو مکینوں سمیت جلا
کر راکھ کر دیا اور اسی دن کراچی میں 17 افراد دہشت گردی کا نشانہ بنا دیے
گئے ۔یہ خاک و خون کے مناظر ایک طرف اوردوسری طرف منظر نامہ یہ ہے کہ ایک
خبر کے مطابق اس بار رمضان میں عید کی تیاری کے سلسلے میں خریدو فروخت کا
ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ ضروریات اور آسائشات سے بڑھ کر، فضولیات اور نمود
ونمائش کی اشیاءپر پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا ہے۔
خوشی کا موقع ہو تو نہ خوشی منع ہے اور نہ خوشی کا اظہار لیکن گھر میں کوئی
بیمار ہو یا اس سے بڑھ کر گھر میںموت ہو تو بہرحال خوشی اور غم کو اپنی
حدود میں رکھنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ ہم اپنے پریشان حال مسلمان بھائیوں کی
مدد نہیں کر سکتے، ان کے ساتھ کوئی مالی تعاون نہیں کر سکتے تو کم ازکم
اپنی خوشیوں میں، اپنی دعاؤں میں اپنے غم زدہ بھائیوں کو تو یاد رکھ سکتے
ہیںکہ شاید اسی طرح باری تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارا عذر قبول ہو جائے....
لیکن جب احساس ہی مر جائے تو اتنا بھی کون کرے! |