عید الفطر : سنن ابو داﺅد میں
درج ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے
مدینہ منورہ پہنچے تھے تو اہلِ مدینہ اُس وقت سال میں دو میلے منایا کرتے
تھے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟
یا یہ کیا منا رہے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ
وسلم زمانہ جاہلیت میں ہم ان ایّام میں خوشی مناتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خدا رب العزت نے ان کے عوض ان سے بہتر دو
دن خوشی منانے کیلئے تمہیں عطا فرمائے ہیں۔ ایک عید الفطر اور دوسرا عید
الاضحیٰ۔
رمضان المبارک کا آخری روزہ ایک جانب تو اہلِ ایمان کے لیے نہایت دکھ کا
پیغام دیتا ہے کیونکہ وہ اس کی جدائی پر غمزدہ ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے
ساتھ ساتھ یہ خوشی بھی انہی کے لئے لاتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوں
گے اور اپنی ایک ماہ کی عبادت و ریاضت کا انعام وصول کریں گے، کیوں کہ
پروردگار عالم اس ماہ مبارک میں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے تمام
بندوں کو اپنی رضا کے خصوصی انعام سے نوازتا ہے اور انہیں بخشش کی نوید سنا
کر خوشی خوشی گھروں کو لوٹ جانے کا حکم دیتا ہے۔اسی طرح جب لوگ عید کے دن
لوگ عیدگاہ کی طرف نماز پڑھنے کیلئے نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے
دریافت کرتا ہے کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کو جو اپنا کام پورا کر چکا
ہے؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود ! اور مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس
کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔ پھر اللہ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہو
کر فرماتا ہے، میرے بندے مجھے سے مانگ، میری عزت و جلال کی قسم ، آج کے دن
اس اجتماع میں مجھ سے اپنی ت کے بارے میں جو بھی سوال کرے گا عطا کروں گا
اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر رکھوں گا۔
حضرت ابو امامہ ؓ سے عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے عیدین کی دونوں راتوں میں
خاص اجر و ثواب کی امید پر عبادت کی، اس کا دل قیامت کی اس ہولناک دن میں
مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل خوف و دہشت سے مردہ ہوں گے، یعنی قیامت
کے دن سب پریشان وہ شخص پریشان نہ ہوگا۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سب نے جتنی بابرکت اور محترم راتوں میں
عبادت کیں اتنی کسی اور ماہ میں شاید ہی آتی ہوں ، پھر ان سب راتوں کا
مجموعہ شب عید الفطر ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ کی تمام راتوں
سے زیادہ سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کرتا ہے اور دل کھول کر اپنے بندوں کی
مغفرت فرماتا ہے، اسی لئے تو عید الفطر کی رات کو لیلة الجائزہ کہا جاتا
ہے۔ اس رات میں اللہ رب العزت روزہ داروں کو ماہِ مقدس کی محنت و صبر،
عبادت و ریاضت کا انعام عطا فرمانے میں قطعی دیر نہیں لگاتا ہے۔
عید الفطر کی نماز واجب ہے، نماز عید کے وہی شرائط ہوتے ہیں جو جمعة
المبارک کے ہیں سوائے اس کے کہ عید کی نماز میں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے
اور جمعہ کی نماز میں نماز سے پہلے۔ اور چھ زائد تکبیروں کا بھی فرق عیدین
کی نماز میں شامل ہیں۔ عید الفطر کی نماز جماعت کے ساتھ واجب ہے ، ترک کرنے
پر گناہ کا مرتکب ہوگا، ایک شخص کی موجودگی سے بھی عیدین کی نماز ہو جائے
گی۔
عید الفطر کا انتظار تو مسلم گھرانوں میں سال بھر سے ہی ہوتا ہے۔ عید کی
تیاریاں ماہِ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی شروع کر دیئے جاتے ہیں لیکن
چاند رات کو خاص تیاریاں کی جاتی ہیں۔ کیونکہ چاند رات کی رونق اپنی مثال
آپ ہوتا ہے۔ اس موقع پر بازاروں میں بہت زیادہ چہل پہل اور گہما گہمی نظر
آتی ہے۔ اور ذکر خواتین کی ہو تو چاند رات کے بغیر خواتین کی تیاری بے معنی
ہوجاتا ہے۔ خواتین چاند رات کو بیوٹی پارلر نہ جائیں تو عید کی تمام رونقیں
بے مقصد ہوتی ہیں ان کے نزدیک! خواتین اپنے تئیں عید الفطر کی نماز کا
اہتمام گھروں میں ہی کرتی ہیں اور جن عورتوں کو مسجدوں میں جانا مقصود ہو
وہ وہاں کا بھی رُخ کر لیتیں ہیں۔
عید الفطر کی نماز سے پہلے غسل کرنا ، مشواک کرنا، نئے کپڑے زیبِ تن کرنا ،
(اگر نہیں ہیں تو جو صاف ستھرا کپڑا دستیاب ہے وہ زیب تن کرنا) خوشبو
لگانا، عید گاہ میں ہی عید کی نماز پڑھنا، عید گاہ کی طرف پیدل (پاﺅں پاﺅں)
جانا ، ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، (واللہ علم) نمازِ
عید الفطر سے پہلے کھجور یا کوئی اور میٹھی چیز کھانا ، اگر صدقہ فطر واجب
ہو تو اس کو نماز سے پہلے ادا کرنا۔ اس طرح کے شرائط و ضوابط لاگو ہوتے
ہیں۔
اس بار کی عید ہم سب کیلئے کسی آزمائش کی گھڑی سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ ملک
بھر میں جو افرا تفری ، ہنگامے، قتل و غارت گری، کا بازار گرم ہے اور
روزآنہ ہی کسی نہ کسی گھر میں صفِ ماتم بچھا رہتا ہے، ایسے میں عید کیسی،
خوشیاں کیسی، برما میں لاکھوں مسلمانوں کا بے گھر ہوکر بے وطنی اور لاچاری
کی زندگی نے بھی پوری انسانیت کو اداس اور رنجیدہ کر رکھا ہے، ایسے میں جن
پاکستان میں جن گھروں میں رمضان المبارک اور چاند رات تک جن کی اموات ہوچکی
ہیں ان کے یہاں عید کا جشن تو دور عید کا تصور بھی نہیں ہے۔ ان کی لٹی ہوئی
دنیا اس قدر ویران ہے کہ اس میں احسان کومے میں جا چکا ہوتا ہے۔ وہ تو شاید
اپنے ہم وطن مسلم بھائیوں کو عید کا ، وِش بھی نہیں کر سکیں ۔ پاکستان کے
حالات نے مسلمانوں کی آنکھوں کو نم اور روح کو زخمی کر دیا ہے، ایسے میں
عید کا تنہا جشن کیسے منایا جا سکتا ہے، لیکن اسلام دینِ فطرت ہے اس نے ہر
موقع پر اعتدال پسندی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے عید کے تہوار کا
آغاز نماز دوگانہ کی ادائیگی سے ہوتا ہے تاکہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ
شکر ادا کرکے یہ اظہار کیا جائے کہ مسلمان ہر حال میں اپنے رب کا
فرمانبردار ہے۔
ہمارے یہاں تو چاند رات بھی ایک نہیں ہوتا اس بار تو پاکستان کے قبائلی
علاقے شمالی وزیرستان میں شوال کا چاند وقت سے پہلے ہی نظر آگیا ہے۔ اور کل
رمضان المبارک کی 29 ویں شب کو پشاور کے علماءکے مطابق وہاں بھی چاند نظر آ
گیا ہے اور آج عید منائی جا رہی ہے جبکہ مرکزی ہلال کمیٹی نے بروز پیر عید
منانے کا اعلان کیا ہے۔اس طرح پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں کوئی کسی کی
نہیں سنتا سب اپنی اپنی ہی چلاتا ہے۔ یہ تو محض چاند کی روئیت کا معاملہ ہے
تو یہ حال ہے باقی معاملات میں تو بس اللہ خیر کی رکھے۔ جہاں چاند کی روئیت
کے سلسلے میں اتحاد نہ ہو وہاں کسی اور ملکی مسائل پر کہاں اتحاد ممکن ہو
سکے گا۔ یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں عید تو عید کسی بھی معاملے میں
اتحاد نظر نہیں آتا۔ جبھی تو مغربی دنیا ہم پر آنکھ اٹھارہی ہے۔ افسوس؟
اے خدا ! ہم اس ماہِ مبارک رمضان المبارک کے آخری یوم میں دعائیں کرتے ہیں
کہ اے اللہ تو بے نیاز ہے تیرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ۔ الہٰی تو
پاکستان کو اس کے اندرونی دشمنوں سے بچا جو آئے دن تیرے بے قصور بندوں پر
مصیبتوں اور مشکلات کے پہاڑ تورتے رہتے ہیں۔الٰہی ہمیں اپنی غلطیوں کا
احساس ہے اور ہم تجھ سے سچے دل و دماغ کے ساتھ معافی کے طلبگار ہیں، ہمیں
معاف فرما ۔ الٰہی پاکستان کو توڑنے والوں کو تو تہس نہس کر دے تاکہ اس کی
خوشیاں، امن، سلامتی، روشنیاں واپس آجائے ۔الٰہی کراچی میں پھر سے
روشنیاںبحال ہو جائے ۔ الٰہی دہشت گردوں کو نیست و نابود فرما، جہاں عید سے
قبل عید کا رڈ کا رواج عام تھا وہ سلسلہ دوبارہ بحال کر دے، اور الٰہی ایک
دوسرے کو سچے دل سے گلے ملنے کی توفیق عطا فرما دے۔ (آمین) |