کہتے ہیں کہ افواہ کے پیر نہیں
ہوتے ،پر ہوتے ہیں۔ زرا دیر میں پھیل جاتی ہے اور خبر بن جاتی ہے ۔لوگ اس
کی حقیقت پر غور نہیں کرتے اور خلاف عقل باتوں کو بھی سچ سمجھ بیٹھتے
ہیں۔آج کل ایسی ہی کچھ افواہیں آسام کے تعلق سے گرم ہیںجن کا حقیقت سے کوئی
واسطہ نہیں اور جن کی بدولت اصلیت آنکھوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔مگر ان کے ذکر
سے پہلے ایک پرانے واقعہ کا ذکرجو 17سال پہلے پیش آیا تھا۔ 21ستمبر 1995 کی
صبح تھی، منگل کا دن تھا ، جنوبی دہلی کے ایک مندر سے یہ افواہ پھیلی کہ
گنیش جی کی مورتی دودھ پی گئی۔ ہوا یہ کہ صبح کے دھندلکے میں جب ایک پجاری
نے دودھ کا چمچہ گنیش جی کی سونڈ سے لگایا تو چمچہ خالی ہوگیا۔ یہ دراصل اس
کشش کا مظہر تھا جس کو ’سرفیس ٹنشن ‘کہا جاتا ہے۔پتھر سے تراشی ہوئی کوئی
مورت کھا پی نہیں سکتی۔ گنیش جی کی سونڈ پردودھ اوپر سے بہتا ہوا نیچے آگیا
۔ لیکن یہ خبر پھیلتے ہی جا بجا گینش مندروں میں عقیدتمندوں کا ہجوم لگ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس ایک دن میں جتنا چڑھاوا آیا اتنا دس برس میں بھی نہیں
آتا۔ پانڈوں کے وارے کے نیارے ہوگئے۔ دودھ فروشوں نے بھی خوب کمائی کی۔
دودھ بازار سے غائب ہوگیااور عقیدتمندوں نے منہ مانگے دام دے کر
خریدا۔ہزارہا لیٹر دودھ مندروں میں سے بہتا ہوا نالیوں میں آگیاجبکہ غریبوں
کے کئی بچے دودھ کے بغیر ہی رہ گئے۔ یہ افواہ موبائل فون کی برکت سے چشم
زدن میں ساری دنیا میں پھیل گئی ۔ امریکا اور یوروپ کے مندروں میں بھی بھیڑ
لگ گئی۔ وشو ہندو پریشد نے اس کو” چمتکار“ قراردیا۔
اس زمانے میں راقم الحروف روزنامہ’ قومی آواز‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ
تھا۔اس دن صبح کی شفٹ سنبھالنی تھی۔ راستے میں مندروں کے پاس ٹریفک جام
ملا۔ آفس ٹائم سے نہیں پہنچ سکا۔ خیال تھا کہ ایڈیٹر صاحب (موہن چراغی) نے
کام شروع کرادیا ہوگا ، مگر وہ تو خلاف معمول اور بھی دیر سے پہنچے۔ ہرچند
کہ وہ کشمیری برہمن تھے مگر مندر وغیرہ نہیں جاتے تھے ۔ البتہ اس دن یہ خبر
سن کر وہ بھی گئے اور بڑے وثوق کے ساتھ اپنا مشاہدہ بیان کیا۔ اسی دوران
معروف کالم نویس رئیس مرزا تشریف لے آئے۔ وہ بھی اس ’معجزہ‘ سے مسحور تھے۔
اتنی دیر میں چائے آگئی اور میں نے چائے کا چمچہ پیالی کی ڈنڈی سے چھو ا
دیا۔ چمچہ اسی طرح خالی ہوگیا جس طرح گنیش جی کی سونڈ سے خالی ہوگیا
تھا۔دفتر کے ساتھیوں میں تجسس اس قدر تھا کہ یہ عمل مجھے کئی مرتبہ دوہرانا
پڑا ۔ پتہ چلا تو یونین کے جنرل سیکریٹری مسٹرراوت بھی دیکھنے آگئے ۔ مگر
ان کو اندیشہ ہوا اس سے عقیدتمندوں کی شردھا کو ٹھیس پہنچنے گی۔ چراغی صاحب
نے بھی ان کی تائید کردی۔ میں نے چمچہ دراز میںرکھ دیا اور بچی ہوئی چائے
پی لی۔ کہاوت مشہور ہے ’پیر صاحب خود نہیں اڑتے، عقیدت مند اڑادیتے ہیں۔‘
اس واقعہ کوبیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ افواہ چاہے کیسی ہی بے بنیاد کیوں
نہ ہو،اچھے اچھوں کو بہا لیجاتی ہے ۔ آسام کے تعلق سے کچھ ایسی ہی افواہیں
گردش میں ہیں جن کی وجہ سے اصل حقیقت نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے اور مفروضوں
کو اصل سمجھ لیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک افواہ تو عرصہ سے یہ پھیلائی جارہی ہے
کہ ریاست میں بڑی تعداد میں ”غیر قانونی مہاجرین“ آبسے ہیں اور وہی آسام
مسئلہ کی اصل بنیاد ہیں۔ دوسری افواہ حال ہی میں یہ پھیلائی گئی کہ شمال
مشرقی ریاستوں کے باشندوں کو دیگر ریاستوں میں مسلمانوں سے خطرہ لاحق ہے۔
چنانچہ ان میں بھگڈر مچ گئی اور ہزاروں لوگ اپنا کام دھندا اور تعلیم گاہیں
چھوڑ کر وطن کےلئے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان دونوں افواہوں اہم پہلو یہ ہے
ملوّث مسلمان کئے گئے ۔آسام میں ہر بنگلہ بولنے والے مسلمان کو مشکوک کردیا
گیا اور جنوبی ریاستوںمیں خطرہ مسلمانوں سے بتایا گیا۔ نیا پہلو یہ ہے کہ
افواہ کے پھیلانے والوں میں بھی مسلمان پکڑے جارہے ہیں اور ایک پڑوسی مسلم
ملک کو افوا ہ کا مبدا بتاکر زور و شور سے مطعون کیا جارہا ہے۔ انٹر نیٹ کی
کئی سینکڑوں ویب سائٹس ، جن پر برما کے واقعات سے متعلق تصاویر اور تفاصیل
تھیں، بلاک کردی گئی ہیں۔ ان میں پاکستانی بھی ہیں ،مگر انڈین ایکسپریس میں
امیتابھ سنہا کی رپورٹ(22اگست) کی سرخی ہے ’مسدود کی گئی اکثر ویب سائٹس پر
آسام کا کوئی ذکر نہیں‘ ۔بہر حال اس طرح سرکار خودبری الذمہ ہوگئی ہے
اورگوگوئی سرکار کی ناکامی ساتھ ہی ان عناصر پر بھی پردہ پڑگیا جو 2014 کے
پارلیمانی الیکشن کے پیش نظر فرقہ ورانہ ایجنڈے کو از سر نو ابھاررہے ہیں۔
عدم تحفظ کی افواہ:
اگر نیوٹن کے تیسرے اصول ’ہر عمل کا ایک مخالف اور یکساںرد عمل ہوتا ہے‘ کا
اسی طرح حوالہ دیا جائے جس طرح مودی نے گجرات میں مسلم کشی کے بعددیا تھا
تو جنوبی ریاستوں سے آسامیوں کے بھاگ کھڑے ہونے کو آسام میں پیش آنے والے
واقعات کا رد عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر ہم اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں ۔
نیوٹن کے اصول کا تعلق طبیعات (فزکس) سے ہے جس کا اطلاق مادوں پر ہوتا ہے،
انسانی رویہ اورسیاسی مکاریوں پر نہیں ہوتا۔ تاہم اس افواہ اور اس کے اثر
نے ’ہندتوا‘ کے علمبرداروں اور ’آسام آسامیوں کےلئے‘ کا نعرہ لگانے والوںکو
یہ پیغام ضرور دیدیا ہے کہ اگر تم آسام کو غیر آسامی بولنے والوں کےلئے آتش
کدہ بنادوگے تو خود بھی دوسری ریاستوں میں اطمینان کی فضا سے محروم ہو سکتے
ہو۔آسام میں یہ ہوچکا ہے جب کہ اے جی پی کی تحریک کے دوران ہزاروں غیر
آسامیوںکو نکل بھاگنا پڑا تھا۔ اتنا ہی نہیں آسام کے عسکریت پسندوںنے عراق
جنگ کے دوران تیل کی پائپ لائنوں کو نقصان پہنچاکر اور ملک کےلئے تیل کی
سپلائی کومسدود کرکے اوروہاں کے چائے باغان سے غیر آسامی ورکروںاور
انتظامیہ کو بھگاکربھی ہند مخالف اور باغیانہ حرکتوں کا ارتکاب کیا تھا، جن
کو نظر انداز کردیا گیا۔ ہندستان جیسے ملک کےلئے ، جس میںمختلف زبانیں
بولنے والے ، مختلف عقیدے والے اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں،
ریاست، ذات یا قبیلے کی بنیاد پر اس طرح کی تنگ ذہنی اور علیحدہ خطہ کی
مانگ کی ذہنیت انتہائی خطرناک ہے ۔ ہم اس’ریاست واد‘ کی مذمت کرتے ہیں۔
ہندستان ایک ملک ہے اور اس کو ایک قوم بن کر رہنا چاہئے۔ خطوںکی بنیاد
پرایک قوم میں درجنوں قومیتیںقابل قبول نہیںہوسکتیں۔ ہر باشندے کو یہ حق ہے
کہ جہاں چاہے جاکر بس جائے۔ سرکار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی فضا بنائے
جس میںملک کو کوئی حصہ کسی دوسرے حصہ کے باشندے کےلئے غیر محفوظ نہ
ہوجائے۔یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کہ اس ذہنیت کو کس پریوار کے لوگ
پروان چڑھا رہے ہیں؟ اپنشد کی تلقین ہے ، ’غیر اور اپنے کا فرق تنگ ذہن لوگ
کرتے ہیں۔ جن کے دل بڑے ہوتے ہیں وہ ’وسدیو کٹمبکم ‘( ساری دنیا میرا کنبہ
ہے ) پر یقین رکھتے ہیں‘۔ ہم ہندستانی ہیں ہمارا دل بڑا ہونا چاہئے۔ غیر
بھی آجائے تو اس کا بھی استقبال ہونا چاہئے جس طرح ہم تبتیوں کا کرتے ہیں۔
مہاجروں کا مفروضہ:
جنوبی ریاستوں میں حالیہ افواہوں اور اس کے نتیجے میں آسامیوں کے بھاگ کھڑے
ہونے پر تشویش کا اظہار بجا ہے۔ مگر اس دوران بنگلہ دیشی غیر قانونی
مہاجروں کے مفروضے کو جس طرح مرکز بحث بنایا گیا اور اب جس طرح اس معاملے
کو پاکستان کی طرف ڈھالا جارہا ہے اس سے مسئلہ کی اصل نوعیت دب گئی ہے۔ ٹی
وی چینلز پر لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) اجے سنگھ کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا
ہے کہ ہرروز 6ہزار افراد غیر قانونی طور سے بنگلہ دیش سے آسام میں داخل
ہورہے ہیں ۔ یہ چونکا دینے والا بیان انہوں نے 2005میں ریاست کے گورنر کی
حیثیت سے دیا تھا۔چھ ہزار یومیہ کے حساب سے یہ تعداد ایک سال میں
21لاکھ90ہزار ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے 2001تک یہ تعداد6کروڑ 57لاکھ
ہوچکی ہوجانی چاہئے جبکہ 2001کی مردم شماری میں آسام کی کل آبادی اس سے
آدھے سے بھی کم کل 3کروڑ11 لاکھ 69 ہزار تھی۔ جنرل صاحب کے اس بیان کو اگر
درست مان لیا جائے تب توآدھا بنگلہ دیش خالی ہوچکا ہوگا۔ گھما پھرا کر یہ
بھی باور کرایا جاتا ہے کہ تارکین وطن مسلمان ہیں ۔تھوڑے بہت تارکین وطن کا
امکان توہے۔ مگروہ مسلمان نہیں غیر مسلم ہوسکتے ہیںجنکا یہاں پاکستان اور
افغانستان سے آنے والے غیرمسلم بھائیوں کی طرح استقبال ہوتا ہے۔ آسام میں
حالات مسلمانوں کےلئے ایسے پرکشش ہرگزنہیں کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنا گھر
بار چھوڑ سرحد پار کریں اور اپنی جان خطرے میں ڈالیں۔
مسلم شرح آبادی :
کچھ اعداد شمار ایسے گنوائے جاتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ ریاست میں مسلم شرح
آبادی بڑھی ہے اور اس کی وجہ تارکین وطن کو بتایا جاتا ہے۔ 2001 کی مردم
شماری کے مطابق آسام میں کل مسلم آبادی صرف 8لاکھ 58ہزار ہی تھی۔وہ لاکھوں
تارکین وطن کہاںگئے جن کا دعوا کیا جاتا ہے مسلمان ہیں؟ بیشک 1991 کے
مقابلے 2001 میں مسلم آبادی میں قدرے اضافہ ہوا اور ان کی شرح 28.4فیصد سے
بڑھ کر 30.9فیصد ہوگئی ہے۔ مگر اس کی کئی دوسری وجوہات ہیں۔مثلاً سابقہ
مردم شماری میں یہ شکایت تھی کہ بہت سی مسلم آبادیوں کو شمار ہی نہیں کیا
گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان عام طور کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کے
کنبے بکھرے ہوئے نہیںہیں۔ جبکہ دیگر آسامی نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار
کےلئے بیرون ریاست رہتی ہے، اس لئے ان کے یہاں شرح پیدائش کم ہے۔ ایک بڑی
وجہ یہ ہے مسلمانوں میں جبری اسقاط کو سخت گناہ تصور کیا جاتا ہے جب کہ
دیگر اقوام میں کثرت اولاد کو مصیبت جانا جاتا ہے۔ قومی کمیشن برائے اقلیت
کی ایک ٹیم نے کوکراجھار وغیرہ کا دورہ کرنے کے بعد جو رپورٹ پیش کی ہے اس
میں بھی یہ بات زور دیکر کہی گئی کہ آسام میں حالیہ تشدد کہ وجہ تارکین وطن
کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ اس خطے میں بوڈو آبادی 25فیصد ہے۔ بوڈو
عسکریت پسندوںکی چال یہ ہے کہ بوڈو ڈسٹرکٹ میں انکی آبادی 50فیصد سے زیادہ
ہوجائے تاکہ ان کا الگ ریاست کا مطالبہ قابل قبول ہوسکے۔ چنانچہ یہ عسکریت
پسند بندوق کی نوک پر دیگر اقوام کو وہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو
نشانہ خاص طور سے اس لئے بنایا جارہا کہ بوڈو عسکریت پسندی کی راہ میں
مسلمان ہی مزاحم ہیں۔
عسکریت پسندوں کو شہ :
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ حکومت عسکریت پسندوں کو ڈھیل دے رہی ہے جو الگ
بوڈولینڈ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کی منھ بھرائی کےلئے بوڈو خود مختار ضلع
قایم کرکے اختیاران کے حوالے کردیا گیا ہے۔ کوتاہ نظری یہ ہے کہ سیاسی
فائدے کےلئے ملک بھر میں اس طرح کی ذہنیت کو تقویت پہنچائی جارہی ہے۔ ایک
ملک میں آباد ایک قوم کو مختلف قومیتوںمیں بانٹا جارہا ہے۔ ’ہم سب ہندستانی
ہیں‘کے بجائے قبیلوں یا ریاستوں سے شناخت قایم کرنا اور یہ تنگ نظری کہ
کوکراجھار پر صرف بوڈوﺅںکا حق ہے، ممبئی مہاراشٹری نزاد لوگوںکےلئے ، پنجاب
پنجابیوں کےلئے ہے وغیرہ ملک کو کئی قومیتوںمیں تقسیم کرنے کی نادانی ہے۔
پنجاب اس نادانی کا سخت خمیازہ بھگت چکا ہے۔ آسام بھی ترقی کی راہ سے بھٹک
گیا ہے۔ مسٹر مودی صرف گجراتی وقار کی بات کرتے ہیں۔ ہم ان تمام نظریات کو
فاسد سمجھتے ہیں۔ ہندستان کے کسی بھی شہری کےلئے دیگر ریاستوں میں عدم تحفظ
کی فضا قائم کردینا ملک کی یک جہتی کےلئے سخت مضر ہے۔ قوم پرستی کا نعرہ
لگانے والے اس زہر کو ہر ریاست میں پھیلا رہے ہیں۔ چنانچہ آسام کی تازہ
مصیبت پر بھاجپا نے پرانا فرقہ ورانہ کارڈ کھیلا ہے اور اس کو بوڈو نسل
پرستوں کی شرارت قرار دینے کے بجائے ان کو معصوم قراردیدیا ہے اور غیر
قانونی تارکین وطن کے مفروضے کو اصل وجہ قرار دیکر اس کو فرقہ ورانہ رنگ
دیدیا ہے۔ حکومت کا رویہ بوڈو عسکریت پسندوں کے تئیں نرمی برتنے کا ہے، یہی
وجہ ہے کہ ان کے پاس بھاری مقدار میں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے جو کو وہ
ڈرانے دھمکانے کےلئے استعمال کررہے ہیں اور گوگوئی سرکار نے آنکھیں بند کر
رکھی ہیں۔ |