انسان کے مکارم اخلاق میں سے اگر
”برداشت“ کو الگ کر دیاجائے تو لفظ اخلاق کا دامن خالی رہ جاتاہے۔کسی بھی
معاشرے کی معاشی‘اخلاقی‘سماجی ترقی کا انحصار وہاں کے افراد کی
”برداشت“کرنے کی صلاحیت پرمنحصرہوتاہے۔معاشرے میں جتنا عدم برداشت کو فروغ
ملے گا ترقی کی شرح اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔آسمانی مذاہب سے لے کر انسان
کے خود ساختہ مذاہب سمیت سب کا اپنا اپنا فلسفہ ”برداشت“ ہے۔ لیکن کسی بھی
مذہب کی بنیاد ”تشدد“پر نہیں رکھی گئی۔دنیامیں جتنے بھی ادیان آئے سب کے سب
اپنے تئیں برائی کو برائی ہی قراردیتے رہے۔آج تک کسی مذہب نے ظالم کو مظلوم
کا درجہ نہیں دیا۔راہزنی کو نیک بختی قرارنہیں دیا‘غریبوں کی امداد کو ظلم
نہیں کہا‘زناکو ثواب نہیں کہا‘شراب خوری کو صحت کا ضامن اور خالق کی
رضاکادرجہ نہیں دیا۔فلاح انسانیت کے کاموں سے محبت اور بدی سے نفرت ہر مذہب
کی بنیاد ہے ۔باقی عبادات اور عقائد خالق ومخلوق سب کے سب جداہیں‘
اگر وسعت نظری سے جائزہ لیاجائے تو جس برداشت و محبت کا درس آفاقی ادیان نے
دیاہے ‘انسان کے بنائے ہوئے مذاہب اس کی تاب نہیں لاسکتے۔رہ گیابدھ مت تو
سب کے سب عقائد اس کے ذہن کی تخلیق تصور نہیں کیئے جاسکتے ۔کیونکہ ہزارہا
پیغمبر پہلے یہ درس دے چکے تھے۔اور افراد میں اگرچہ عمل کم تھا لیکن
اخلاقیات کا ایک ڈھانچہ ضرور انسانیت کی رہنمائی کرتارہتاتھا۔پھر جہاں کہیں
ضرورت پڑتی مذہبی پیشوا اُسے اپنی تحقیق و نظریات کے سانچے میں ڈھالتا یا
پھر کبھی کبھی اپنے مذموم مقاصد کی بھٹی میں اسے پکاتا جو رفتہ رفتہ انسان
کے اندر نسل در نسل پیوست ہوجاتا۔لیکن خدا کی یہ زمین کبھی بھی اخلاق سے
مزین افراد سے خالی نہیں ہوئی اگرچہ تعداد مٹھی بھر ہی رہی ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ عدم برداشت کا فلسفہ کس نے ایجاد کیا۔تو تاریخ
گواہ ہے اپنی خواہش کی ترجیح ‘طمع ‘حرص اور حسد ہی پہلے انسان کی قتل کی
وجوہات بنیں۔انہوں نے مل کر انسان کی قوت برداشت کو صلب کیا‘مالک کے حکم کی
خلاف ورزی ہوئی اور زمین پر پہلا خون ہوا۔حالانکہ دونوں کے مذہب میں فرق
نہیں تھا‘ایک باپ کی اولاد تھے ۔فرق تھا تو یہ کہ ایک خواہشات کے پنجرے میں
مقید تھااور اپنی مرضی کی دنیاآباد کرناچاہتاتھا اور دوسرا ہوس سے آزاداور
اعتبار کا بندہ تھا۔
قبل مسیح اور اس کے بعد بھی ”طبیعت کی شریعت“ والے لوگ موجود تھے اور ہیں
۔جہنوں نے دنیاکو آتش کدہ بنائے رکھا۔اپنے نظریات و اکابرین کو افضل ترین
اور دوسروں کے معبودوں اور اکابرین کو برا ‘بھلا کہنا ان کا شعار تھا‘جبکہ
کوئی ان کے مذاہب یا اکابرین پر جواباًحملہ کرتاتو اسے قتل کردینے میں وہ
انسانیت کی فلاح سمجھتے تھے۔بقول شاعر
ہے جناب شیخ کا فلسفہ بھی عجیب سارے جہاں میں
جو وہاں پیو توحلال ہے جو یہاں پیو توحرام ہے
دنیا میں سب سے زائد قتل ہوس اور تعصب کی بناءپر ہوئے اور اسکی وجہ عدم
برداشت اور اختلاف رائے کی اہمیت نہ جاننے کے سبب ہی ہوا۔ میرے ملک کی
65سالہ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے ‘تعصب ہی کی لہریں اسے برباد کرتی رہیں
۔اور پھر جرنل مشرف کے دور میں تو بدامنی کو عروج نصیب ہوا۔مسالک و فقہ کی
بنیاد پر توجھگڑے ازل سے ہی ہیں۔لیکن ہمیں اپنے تئیں اسے درست کرنے کی سعی
کرناہوگی۔عید الفطر تمام مسلمانوں کیلئے یکساں نوعیت کا دن ہے۔اس کا اہتمام
ہر حال میں کرنا چاہیئے ۔لیکن زخم خوردہ لوگوں کے جسم ان لمحات میں نڈھال
ہوجائیں تو کس سے گلہ کیاجائے؟زخم دینے والے سے ؟یازخم خوردہ سے ؟لیکن ان
دو آپشنز کے ساتھ ساتھ ایسے عوامل پر بھی تو غور کرناچاہیئے جو کسی بھی
انسان کو ظلم کرنے پر آمادہ کررہے ہوں ۔گوکہ ظلم ہر رخ سے ظلم ہی ہے مگر
بہرطور اس کے اسباب اوراسکووجود میں لانے والے عوامل کو جب تک سزا کا مستحق
نہیں قرار دیاجائے گا۔امن نہیں آئے گا۔سانحہ بابو سر نے شمالی علاقہ جات کی
زمین کواس کے ہی جوانوں کے خون سے سیراب کیا ۔ہم غم زدہ ہوئے اور مبادا پھر
اسے واقعہ سمجھ کر بھلادیا۔لیکن پھر عید کے دن جب گلگت بلتستان کی دھرتی کے
ایک سپوت کو جب میں نے عید مبارک کا پیغام ارسال کیا تو جو اس کا جواب آیا
وہ پیش خدمت ہے:
اُجاڑ راستے عجیب منظر
ویران گلیاں بازار بند ہیں
کہاں کی خوشیاں یہ کیسی عیدیں ‘
شہرتومیرا لہولہوہے
وہ روتی مائیں بیہوش بہنیں
لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں
اے پیارے بھیا گئے تھے پردیس
سفید کرتاتھاسرخ کیوں ہے |