وہ بچے جن کو بیوہ ماں سلا
دیتی ہے فاقے سے
آئیے کائنات ارضی کی راجدھانی ،وادی حجاز چلے، جہاں عید سعید کے مبارک
ومقدس دن ہم بے کسوں کے کس، ہم بے بسوں کے بس، ڈوبتی ہوئی کشتی امت کے
کھیون ہارے محبوب کبریامصطفےٰ جان رحمت ﷺ عید گاہ کی طرف جارہے ہیں۔ آپکے
دوش اطہر پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہے اور حضرت امام حسن رضی
اللہ عنہ انگشت مبارک کو تھامے چل رہے ہیں ۔اچانک سرراہ کسی بچے کی سسکیوں
کی آواز رسول گرامی وقار ﷺ کی قوت سماعت سے ٹکرائی وہ رسول جنھوں نے بڑے
بڑے مصائب وآلام کے بوجھ کو تبسم فرما کر سہہ لیا مگر ان سے اپنی امت کی
مثرگاہ پر ڈھلکنے والے دو آنسوﺅں کے قطروں کا بار نہ آٹھ سکا۔جیسے ہی قلب
شگاف رونے کی آواز کو سنا۔ بڑھتے ہوئے قدم ساقط ہوگئے۔ دل کی اتھاہ گہرائی
میں امت کا درد طوفانی لہروں کی مانند موجیں مارنے لگا۔ مثرگاہ نبوت پر
چشمہ سیال نمودار ہوگیا۔ لبوں کی تبسم ریزی خاموشی میں تبدیل ہوگئی۔ نہ
جانے چشم امید کی وہ کون سی ادا تھی کہ اچانک غیرت کرم کا سمندر ابل پڑا۔
لب کشاں ہوئے اور فرمایا۔ بیٹا!آج مسرت وشادمانی کا دن اور تمھارے لبوں پر
نالہ، ماجرا کیا ہے؟
کچھ اس طرح سے اس نے میرا مدعا پوچھا
چھلک پڑا میری آنکھوں سے گوہر مقصود
بچے نے کہا، ہم روئے نہ تو کیا کریں؟
عید کے دن سب ملے گے اپنے اپنے یار سے
ہم گلے مل مل کے روئے گے درود دیوار سے
باری تعالیٰ نے اس کم سنی میں یتیمی کے عظیم منصب سے سر فراز فرمایا۔ پورا
مہینہ کبھی کھجور کھا کر سحری ا وفطار کی تو کبھی ایک گلاس پانی پر ہی
اکتفا کرلیا۔ دوسری لذیذ غذائیں تو در کنارکسی دن خشک چھوہارے بھی میسر نہ
ہو سکے۔ کاش کہ بابا جان ہوتے تو اوروں کی طرح عید پر ہم بھی نئے لباس کو
زیب تن کرتے۔ بابا جان ہم کو اپنے کاندھوں پر سوار کر کے عید گاہ لے جاتے۔
اب ہم کس کے ہاتھوں شیر خورمہ کھائیں گے؟ کس سے عیدی طلب کرینگے؟ اب ہم کس
کی انگلی کو تھام کر راہ حیات کی سنگین کٹھنائیوں کو طئے کرینگے؟ اور ہم کس
کے شانوں پر بیٹھ کر عید گاہ جا کر بصد عجزو نیاز اپنی پیشانی کو بارگاہ
صمدیت میں خم کرینگے؟ہماری امیدوں کے لا شریک امید گاہ مصطفےٰ جان رحمت ﷺ
اس نو نہال کو لے کر اپنی لخت جگر بنت رسول حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
کے کاشانہ پر تشریف لائے۔ سیدہ نے اس نو نہال کو غسل دیا۔ نیا لباس پہنایا۔
اب قدرت کی عجیب نیرنگیاں دیکھو۔اب دوش رسول ﷺ پر سیدنا امام عالی مقام
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ یتیم بچہ بیٹھا ہے اور دونوں نواسہ رسول
دائیں بائیں دست رسول کو تھامے خرامہ خرامہ عیدگاہ کی جانب رواں دواں ہے،
چند لمحے پہلے تک دوسرے اس یتیم کو دیکھ کر پھبتیاں کس رہے تھے۔ اپنے جبے
قبے پر ناز کر رہے تھے۔ مگر اب انہی بچوں کے دلوں سے یہ ہوک اٹھ رہی تھی۔
کاش!! ہمارے سروں سے والدین کا سایہ اٹھ جاتا۔ کاش!! ہم یتیم ہوتے تاکہ
رسول اکرم ﷺ کے دوش اطہر پر سوار ہونے کا یہیں موقع مل جاتا۔
قارئین کرام! آج بھی بے شمار بچے عید کے دن نئے لباس کی بجائے پرانے بلکہ
پھٹے ہوئے پیوند زدہ کپڑوں پر عید مناتے ہیں۔ نہ انھیں عیدی کا سامان میسر
آتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کا پر سان حال ہوتا ہے ۔حتی کہ عید کے دن بچے
اپنی والدہ سے شیر خورمہ، سیوئیاں، بریانی، اور پلاﺅ کی فرمائش کرتے ہیں
مگر ماں اپنے بچوں کو عید کے دن بھی سوکھی روٹیاں پیش کرتی ہیں ۔
وہ بچے جن کو بیوہ ماںسلادیتی ہے فاقے سے
کسے معلوم ان بچوں کی کسیے عید ہوتی ہے
اللہ پاک ہمیں عید کے دن یتیموں ،مفلسوں کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فر
مائے۔ |