رمضان المبارک امن سلامتی اور
برکات الہیہ سے مستفیدہونے کا مہینہ ہے۔اسلام میں تین مہینوں میں جہاد کرنے
پر بھی صبر کے احکامات دئے گئے جس میں رمضان المبارک کا مہینہ بھی شامل ہے۔
عبادات سے بھرپور اس ماہ رمضان میں سائل اور گناہ گار اپنے گناہوں کی مغفرت
اور عاقبت و آخرت کو محفوظ بنانے کےلئے رب تعالٰی کے آگے سر نگوں رہتا ہے
اور عشرہ آخر اعتکاف کا وہ مقدس ایام ہیں جب لاکھوں کی تعداد میں فرزندگان
توحیدمساجد، گھروں میں بیٹھ کر اپنے لئے ، اپنے اہل و عیال کےلئے رب تعالی
سے خلوت میں رضا الہی پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ لیکن پاکستان میںاسلام
کے نام لیواوں پر یہ بابرکت مہینہ ان اسلام کے نام نہاد لیڈروں کے ہاتھوں
کیسا گذرا اس کی عمومی جھلک ہی اس تحریر کا مقصد ہے۔میں رمضان کے تقدس کا
اسی طرح احترام کرتا ہوں جیسا ہرخاص عام مسلم کرتا ہے، بلکہ غیر مسلم بھی
اس رمضان المبارک کے مہینے میں عبادات اسلامی کے سائنسی پہلوﺅں کو تلاش
کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان کے شہری خوف زدہ ، حیران پریشان ، دہشت زدہ جبکہ
حکمران اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف اور عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کے
بجائے اپنے تند و تیز بیانات کی دہشت گردی سے عوام کو نفسیاتی مریض بنانے
میں کامیاب کردار ادا کر رہے ہیں۔زیر نظر مضمون دہشت زدہ رمضان کی ہلکی سی
عکاسی کرتا ہے کہ کیا ہر سال رمضان المبارک پہلے سے زیادہ دہشت زدہ اور خون
آشام ہوگا ۔۔؟
ماہ ِرمضان کا آغاز ہی عالمی ادراہ صحت کے ڈاکٹر اسحاق جو پولیو مہم کے
انچارج تھے سہراب گوٹھ میں دہشت گردی کے نشانے بننے سے ہوا۔ جبکہ اس کے
علاوہ 7افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے تو دوسری جانب صفورا چورنگی پر رینجرز
کو بم دہماکے کے ذریعے نشانہ بنانے کے ناکام کوشش کی گئی۔اگر 13کلو وزنی بم
پھٹ جاتا تو یقینی طور پر بڑی تباہی ہوتی۔ آغاز ماہ ِرمضان نے بتا دیا
تھاکہ ماہ ِرمضان دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہوگا۔جس کا عملی مظاہرہ
بلوچستان کے علاقے گوادر میں سیکورٹی چوکی پر راکٹ حملے میں 8کوسٹ گارڈز کی
شہادت سے ہوا۔جب اہل پاکستان پہلا روزہ رکھ رہے تھے تو کراچی کے بھتہ خور ،
بھتے کے تنازعے پر جنگ و جدل میں مصروف ہوچکے تھے اور سہراب گوٹھ میں 5
افراد بھتہ خوری اور 5افراد دہشت گردی کی جنگ میں جاں بحق ہوچکے تھے۔جبکہ
شدت پسندی کی لہر میں خیبر پختونخوا میں حکومتی لشکرکے اراکان پر حملے کے
نتیجے میں 13ارکان ہلاک ہوئے۔
کراچی بدستور ماہ ِرمضان میں دہشت گردی کامرکز بنا ہوا تھا اور پی پی پی کے
سندھ کونسل کے رکن سمیت 5افراد اگلے روزے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے
تھے۔جبکہ بلوچستان میں بولان میڈیکل کمپلکس کے ڈاکٹر کے اغوا سمیت واسک میں
محکمہ فوڈ کے افسر بھی بلوچستان میں دہشت گردی کا شکار بنے۔مملکت کے طول
وعرض دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا جہاں عام انسان محفوظ نہیں
تھا تو دوسری جانب دہشت گرد سیکورٹی اہلکاروں کو بھی مسلسل نشانہ بنا رہے
تھے۔ماہ ِرمضان میں پیر آباد کراچی میں سوات ست تعلق رکھنے والے پولیس
انسپکٹر فضل محمود کوگھر کے سامنے ٹارگٹ کرکے ہلاک کردیا گیا۔جب کہ اسی دن
متحدہ کے کارکن عبدالوحید سمیت 5افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے۔
ماہ ِرمضان کا تیسرا روزہ شمالی وزیر ستان میں درون حملوں کی صورت میں
نمودار ہوا جب شوال کے علاقے میں میزائیل حملے سے 13افراد بیرونی جارحیت کا
نشانہ بنے۔اور کراچی میں چینی قونصل خانے کے نزدیک دہشت گردی سے رینجرز کا
اہلکار بم دھماکے سے زخمی ہوا۔ اس حملے کی ذمے داری لشکر بلوچستان نے قبول
کی۔06رمضان باجوڑ میں دھماکے سے11افراد ہلاک ،تو 07رمضان کراچی کا علاقہ
پاک کالونی میدان کارزار بنا ہوا تھا۔09رمضان ایک اور امریکی ڈرون حملہ جس
میں 7 ٓافراد ہلاک ہوئے ۔ مغربی میڈیا کے مطابق سات ماہ میں29ڈرون حملوں
میں324شہری بیرونی جارحیت کا نشانہ بن چکے تھے۔یہ دہشت گردی کا سلسلہ کراچی
میں مزید شدت اختیار کرگیا جب بنارس میں 11رمضان کو حساس ادارے کے دو
افسران کو ٹارگٹ کرکے ہلاک کیا گیا۔جبکہ آئندہ ایام رمضان کے 15ویں تک
کراچی میں 11افراد دہشت گردی اور گلشن اقبال ، جیکسن تھانے دستی بموں کے
نشانے جبکہ کراچی میں بھتے کے لئے تاجروں اغوا اور قتل معمول سے بڑھ چکے
تھے۔بلوچستان بھی کراچی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا شکار رہا اور ڈاکٹر ،
پیش امام سمیت 3افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے تھے۔
16 تا 19رمضان کوئٹہ میں گھر میں دھماکے سے چار افراد جبکہ تربت میں
کانسٹبلری کے قافلے پر حملے سے 5اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ بم دہماکے میں
کراچی کے گلبرگ کا علاقہ بھی محفوظ نہیں رہا جس میں کار دھماکے میں دو
افراد زخمی ہوئے۔20رمضان میںکراچی کے علاقے اورنگی ٹاﺅن میں دہشت گردی سے
چار افراد ہلاک ہوئے تو خیبر پختوخوا کے علاقے دیر بالا میں افغانستان سے
آنے والے دہشت گردوں کے حملے سے دو اہلکار شہید ہوئے۔21رمضان یوم علی پر
فرقہ وارنہ فسادات کرانے کی کوشش میں کراچی میں اعزا داروں کو مشتعل کرنے
کےلئے فائرنگ کی گئی جبکہ23رمضان میں سنی تحریک کے عہدےدار کی دھماکے میں
ہلاکت سمیت6 فراد نشانہ بنے۔24رمضان اے این پی کے مرکزی کونسل کے رکن
امیرسردار شدت پسندوں کا نشانہ بنے اور چار افراد ہلاک ہوئے تو25رمضان
متحدہ کے کارکن سمیت چار افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے۔26رمضان کوئٹہ کے
علاقے آولران بم دھماکے میں پولیس گارٰی پر فائرنگ سے چار افراد ہلاک اور
پولیس تنخواﺅں کے 25لاکھ روپے لوٹ لئے گئے۔فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی
خطرناک ترین لہر ناران کے علاقے میں 3بسیں رکوا کر 25 بیگناہ افراد کو
نشانہ بنانا تھا جبکہ کراچی میں 5افراد ہلاک کردئےے گئے۔27رمضان یوم آزادی
پاکستان کے دن کامرہ بیس پر شدت پسندوں کے حملے سے ہینگر اور جاسوسی طیارے
کو شدید نقصان پہنچا تو اگلے دن یوم القدس کے موقع پرریلی کو بم دہماکے کا
کراچی کے علاقے سفاری پارک کے نزدیک نشانہ بنایا گیا۔29اور30رمضان میں جہاں
کوئٹہ میں خودکش حملہ آور ہلاک ہوئے تو کراچی میں 18افراد دہشت گردوں کا
نشانہ بن چکے تھے اور اس دہشت گردی میں بیرونی جارحیت اپنا حصہ ڈالنا نہیں
بھولی جب عید کے دن شمالی وزیر ستان کے علاقے شوال میں 12افراد میزائل حملے
کا نشانہ بن گئے۔
یہ وہ چیدہ چیدہ واقعات تھے جو ماہ رمضان میں ہوئے اس کے علاوہ جرائم کے
واقعات ، لوڈشیڈنگ پر مظاہرے ، ہنگامہ آرائیاں، بسوں گاڑیوں، دفاتر کا ملک
میں نذر آتش کئے جانے کے واقعات اس کے علاوہ ہیں ۔ یہ میرے نزدیک دہشت
گردوں کی مرہون منت خون آلود رمضان بنا۔ اس صورتحال میں جب ملک کا ایک حصہ
بھی دہشت گردی کی اندرونی و بیرونی جارحیت سے محفوظ نہیں رہا تو کسی عید
کونسی خوشی ، اسلام تو بھائی چارے کا درس دیتا ہے ۔ یہ سب کرنے والے کون
ہیں کس اسلام کا درس دےتے ہیں کس کا پیغام کس مذہب کے مانے والوں کو پہنچا
رہے ہیں۔اس کا مظاہرہ تو عید کے چاند دیکھنے پر ہی ہوگیا کہ جب علما ءہی
متفق نہیں تو وہ کس قوم کس فرقے کو متفق کریں گے۔آخر عید مناﺅں میں کس کے
لئے ؟۔۔۔ |