قوم کا” سرمایہ“ محفوظ رکھیں

19سالہ محمد وسیم نے ایک قصبہ کے متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی ،وہ آٹھ سال کا تھا کہ باپ کے سایہ سے محروم ہوگیا۔محمدوسیم بچپن سے نہایت شریف ،ذہین اورلائق تھا،سکول میں وقت پر جانا اور پھر وقت پر گھر آنا اس کا معمول تھا۔ آٹھویں جماعت تک وہ سکول میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر منواتا رہا، عمدہ خوبیوں اوراچھے اخلاق کی بدولت اساتذہ اورطلباءنہ صرف اس سے محبت کرتے بلکہ اس کی تعظیم بھی کرتے تھے۔ لیکن ۔۔۔!پھرآہستہ آہستہ غلط طلباءکے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنامعمول بن گیا ۔وقت پر گھر آنا ،سکول جانا،پڑھائی میں دلچسپی لینا اوراس کی وہ معصومانہ عادات جن کی بناپروہ ہر ایک کی نظر میں قابل تعظیم تھا دھیرے دھیرے سب ختم ہوتی گئیں،اس کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ میٹرک کے امتحان میں دو کتابوں سے رہ گیا۔بہرحال میٹرک کا امتحان تو اس نے کلیئرکرہی لیا لیکن مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔اس کے گھر والوں نے اسے ایک ڈاکٹر کے پا س چھوڑ دیا تاکہ کچھ نہ کچھ ہنر سیکھ لے اور اپنی زندگی سنوار لے لیکن بجائے سنورنے کی اس کی زندگی مزید بگڑگئی ۔تقریبا تین سال تک وہ ایک ڈاکٹر کے پا س کام کرتا رہا،پھر اس نے ایک میڈیکل سٹور پر کام کرناشروع کردیاوہاں بھی دو سال تک کام کیا،ان پانچ سالوں میں جتنے پیسے اس نے کمائے خود ہی خرچ کئے، گھر والوں کو اپنی تنخواہ سے ایک روپیہ تک نہیں دیابلکہ گھر سے ہر مہینہ اسے ” الاﺅنس “ملتارہا۔گھر والوں کی ”دور اندیشی “دیکھئے کہ کبھی اس سے یہ پوچھنا گوارا نہ کیا کہ وہ اتنے سارے پیسے کہاں خرچ کرتاہے ؟۔اسی دوران وہ ایک مہلک اور جان لیوا عادت کا شکار ہوگیا،نشے جیسے ناسور کا گرویدہ ہوگیا ۔ نوبت یہا ں تک پہنچ گئی کہ نشہ اس کی خوراک بن گیا،لیکن گھر والوں نے کبھی اس طرف دھیان نہ دیا۔پھر ایک دن ایساآیا کہ بھرے چوک میں وہ نشے میں دھت کھڑا نشے کے کرتب دکھارہاتھااور کچھ لوگ اس کی حالت پر رحم کھارہے تھے اور کچھ اس کی حرکتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے ،تب جاکر گھر والوں کو محمد وسیم کا خیال آیا،لیکن تب تک بہت دیرہوچکی تھی ۔ اب ماسوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ تھا۔سچ کہا کسی نے ”جب چڑیاں چگ جائیں کھیت تو پچھتانے کا کیا فائدہ“؟

محمدوسیم جیسے سینکڑوں نوجوان ہیں جو فطرتی صلاحیتوں اور عمدہ خوبیوں کے مالک ہیں ،جو ملک کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں مگران جواہرسے آراستہ ہونے کے باوجود بھی نشے جیسی بری اور جان لیو ا عادات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔سرمایہ صرف وہ نہیں جسے لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھا جاتاہے جیبیں بھربھر کرگھروں میں زندگی بھربیٹھ کراڑایا جاتاہے یہ نوجوان بھی قوم کا سرمایہ ہیں ۔سرمایہ جو بھی ہو اسے لوٹنااورلٹواناشرعاتو نا جائز ہے ہی اخلاقااورقانونا بھی جرمد ہے۔ اس سرمایہ کو جس بے دردی سے لوٹا اور لٹوایا جارہاہے اس سے ہر دردمند دل خون کے آنسوروتاہے ۔ملک کے دیگر شعبوں میں لوٹ کھسوٹ ،کرپشن اور اقراباپروری کی خاطر انتظامیہ اور مقتدر اداروں کی ”ملی بھگت “سمجھ میں آتی ہے پر اس شعبہ میںانتظامیہ اور مقتدر اداروں کی پر اسرار خاموشی نا قابل فہم اور عقل سے بالا تر ہے۔کتنے نوجوان ہیں جن کی زندگیاں ملک وملت کی خدمت کی بجائے اس مکروہ دھندے کی نظر ہوجاتی ہیں ،کتنے ننھے پودے ہیں جو قدآور درخت بن کر ہرکسی کو سایہ فراہم کر سکتے ہیں لیکن ان کی جڑوں کودیمک سے نہیں بچایا جاتااور یہ کونپلیں نکلنے سے پہلے ہی مرجھاجاتے ہیں ۔ملک میں کتنے چشمے اورتالاب ہیںجو پو ری قوم کو سیراب کر سکتے ہیں ،پیاس بجھاسکتے ہیں مگر قوم کی بھاگ ڈورسنبھالنے کے دعویدار اپنے ہی ہاتھوں سے ان تالابوں کو گنداکردیتے ہیں اوران چشموں کو زندگی بھر کے لیے خشک کردیتے ہیں ۔

یہ بات بالکل بر حق ہے کہ ماحول انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتاہے ۔یہی ماحول ہے جو انسان کوقوم کامعمار اور خادم بنادیتاہے اور یہی ہے جوقوم کے لیے زہرقاتل بن جاتاہے ۔ہمارے ازلی دشمن رات دن اس سوچ اور فکرمیں مشغول ہیں کہ کس طر ح امت کے ان راہبروں کانام ونشان صفحہ ہستی سے مٹایاجائے ۔اس سوچ اور فکر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کررہے ہیں ،کبھی اپنے کاسہ لیس نمک خوروں کو اقتدار کی راہداریاں دکھا دیتے ہیں تو کبھی قوم کے معزز لوگوں کو( جن پر یہ قوم اندھا اعتماد کرتی ہے)ہمنوابناکراپنے منصوبوں پر پاک صاف ہونے کی مہر ثبت کروالیتے ہیں ، ماحول کی آلودگی کے لیے ہمارے یہ” خیرخواہ“ اوردشمن کبھی میڈیا کواستعمال کرتے ہیں تو کبھی سیاستدانوںکو،کبھی نوجوان آلہ کار بنتے ہیں تو کبھی قوم کی بیٹیاں ملک کی عزت اوروقار کو مجروح کرتی ہیں ۔ہمارے ان نوجوانوںکی ہنستی مسکراتی زندگیوں کو اجاڑنے والے دراصل یہی ہرکارے ہیں مگران کے ہمنوا خواہ وہ سیاستدان ہوں یا انتظامیہ سبھی اس جرم میں برابر کے شریک اور قصوروار ہیں ،رہی سہی کسر والدین کی بے توجہی اور حد سے زیادہ محبت اور شفقت پور اکردیتی ہے ۔اگر محمد وسیم کے والدین اس سے آمدنی کااستعمال پوچھ لیا کرتے ،ما حول کے اثرات سے اسے بچاتے ،بے جاشفقت، پیار سے گریز کرتے اور اس کے دوستوں پر نظر رکھتے توشاید آج وہ اس جگہ نہ ہوتا بلکہ کسی اعلی مقام پر کھڑا والدین کاسربھی فخرسے بلند کرتا اور ملک کا نام بھی روشن کرتا۔

یہ حقیقت ہے کہ نوجوان ملک وملت کے بازو ہوتے ہیں جن کی طاقت ،قوت کے بل بوتے پر قومیں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں اور ترقی کی منازل طے کرتی ہیں ۔ترقی یافتہ قومیں ”ان بازﺅں “کی نگہبانی کی بدولت آج خوشحالی اور امن وسکون کی زندگی سے بھی لطف اندوز ہورہی ہیں اور اپنانام ونشان بھی باقی رکھے ہوئی ہیں۔ اگرہمیں ترقی یا فتہ اقوام کی صفوں میںکھڑا ہونا ہے تو ”ان بازﺅں “کو ان ہرکاروں اور میر جعفروں کے ناپاک عزائم سے بچاناہوگا ورنہ اگریہ نوجوان اس طر ح تباہ ہوتے رہے تو ایک دن ہمارا نام ونشان بھی مٹ جائے گا اور دشمنوں کے ناپاک منصوبے،عزائم خود بخود پورے ہوجائیں گے ۔اب بھی وقت ہے تبدیلی کا ،سنبھلنے کا ،سوچنے کا ،تیا ری کر نے کا !ہمیں ضرور اپنی خامیوں سے سیکھنا ہوگا والدین کو اپنا کردار اداکر نا ہوگا ،قوم کے ہر ہر فرد کوصحیح اسلامی فلاحی ریاست کی خاطر اپنی تئیں اس فرض کو نبھانا ہوگا اور رشوت خور ،ملک دشمن میر جعفروں کو اپنی صفوں سے چن چن کر نکالنا ہوگا ،تب جاکر یہ سرمایہ محفوظ ہوگااور ملک اسلام کا قلعہ بنے گا۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.