ساری دنیا کی مشکلات میڈیا پر
لانے والے صحافی کہنے کو تو بڑے بہادر ہوتے ہیں اور اپنی باتوں اور خبروں
میں سورمادکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کی اوقات اتنی ہی ہوتی ہے کہ
یہ لوگ اپنے حق کیلئے آواز تک نہیں اٹھا سکتے نہ ہی اپنی مشکلات کسی کو
بیان کرسکتے ہیں -ہمارے معاشرے میں لوگ صحافیوں کو بہت اونچی چیز سمجھتے
ہیں ہر چیز کی خبر رکھنے والے لوگ اور ہر غلط چیز کو سامنے لانے والے بہادر
لوگ `لیکن لوگوں کی نظروں میں اعلی و ارفع یہ صحافی کتنے کمزور ہیں اس کا
اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اپنی تنخواہ تک نہیں لے
سکتے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی آواز اٹھا سکتے ہیں-
مالکان پرنٹ کے ہوں یا الیکٹرانک میڈیا کے ان کی سوچ ایک جیسی ہوتی ہے اور
یہ سارے ہم جیسوں کو لیبر سمجھتے ہیں اور مزدوروں کی طرح ہی سلوک کرتے ہیں
ان کی بڑی بڑی بلڈنگ اور اخبارات ہم جیسے مزدوروں کے خون پسینے سے کھڑی اور
بنی ہیں یہ الگ بات کہ ہم لیبر ہوتے ہوئے بھی نہ تو مزدوروں کی طرح مراعات
حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہمیں یونین سازی کا حق حاصل ہے ہاں اپنے دل کو خوش
کرنے کیلئے ہم اپنے آپ کو صحافی کہہ کر اپنی انا کو دم دلاسہ دے دیتے ہیں-
اس ملک میں کتنے ایسے اخبارات ہیں جن میں کام کرنے والے صحافیوں کو چھ چھ
ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی لوگوں کے مسائل کو شہ سرخیوں میں دینے والے
صحافی کے اپنے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے کبھی کسی نے سوچا ہے -مزے کی بات
تو یہ ہے کہ تنخواہیں نہ دینے والوں میں ایسے اخبارات بھی شامل ہیں جن کے
مالکان ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر بڑی بڑی بڑھکیں مارتے ہیں اور اپنے آپ کو
ولی کا درجہ دیتے ہیں-حکومت کو جمہوریت سمیت پتہ نہیں کس کس چیز کی سبق
دیتے ہیں اور انہیں دیکھ کر ٹی وی دیکھنے والے ناظرین انہیں ولی اللہ سمجھ
بیٹھتے ہیں -
کچھ روز قبل لاہور کی ایک خاتون صحافی نے دو ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر
ہاسٹل کی چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی وجہ تنخواہ کا بروقت نہ ملنا
تھا اس خاتون پر پورے گھر کی ذمہ داری تھی اور اخبار کا مالک اسے تنخواہ
نہیں دے رہا تھا جس کے باعث ہاسٹل میں بھی اسے مسائل کا سامنا تھا اس کی
خودکشی کے باعث بڑی بڑی باتیں ہوئی لیکن کسی نے اس اخبار کے مالک سے کچھ
پوچھا نہ ہی ہمارے کسی صحافیوں کی تنظیم نے نہ ہی حکومتی ادارے نہ اور نہ
ہی کسی عدالت نے اس اخبار کے مالک سے یہ پوچھا کہ آخر کار کیا وجہ ہے کہ اس
طرح کا واقعہ پیش آیا -س کی مرنے کے بعد ایک سیاسی پارٹی کے رہنما کی طرف
سے ایک لاکھ روپے کا چیک متعلقہ خاتون صحافی کے گھر والوں کو بھیج دیا گیا
لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے -
ہمارے ہاںپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ایسے ادارے ہیں جو پانچ ہزار سے آٹھ
ہزار روپے تک تنخواہیں اپنے قلم کے مزدوروں کو دیتے ہیں اور وہ بھی قسطوں
میں- ہم جیسے لوگوں سے تو گدھوں کی طرح قلم کی مزدوری لی جاتی ہیں اور ان
کے مالکان گردن اکڑا کر کہتے ہیں کہ ہم صحافت کے ذریعے قوم کی خدمت کررہے
ہیں حالانکہ یہ جیسی خدمت اپنے مزدوروں ) صحافیوں ( سے کروا رہے ہیں اگر ان
کے اصلی چہرے منظر عام پر آجائے تو لوگوں کو پتہ چلے کہ کیسے کیسے ڈرامے
باز یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں-
ہمارے ایک ساتھی ایک مقامی اخبار جو حقیقت میں بیگار کیمپ ہے میںسے وابستہ
ہے بیگار کیمپ اس حوالے سے کہ قلم کے مزدوروں سے جتنا کام لیا جاتا ہے اتنے
کا آدھا حصہ بھی ان صحافیوں کو تنخواہوں کی مد میں دیا نہیں جاتا -بقول
ہمارے ساتھی کہ میں اپنے کام سے تنگ نہیں لیکن دفتر میںلگنے والے آفس آرڈر
سے تنگ ہوں کیونکہ جب بھی مالکان کے گھر میں ختم قرآن شریف یا خیرات ہوتا
ہے تو دفتر سے مزدوروں کوبلایا جاتا ہے کیونکہ مساجد سے مولوی لانے میں
خرچہ پڑتا ہے جبکہ دفتر میں کام کرنے والے مزدور مفت میں مزدوری بھی کر
جاتے ہیں اور ختم قرآن شریف بھی انہی لوگوں سے کروائی جاتی ہیں تاکہ انہیں
اللہ تعالی بخش دے - یہ مالکان اپنے مزدوروں کے ذریعے اپنے آپ کو بخشواتے
ہیں -بقول ہمارے دوست کے مالکان کے گھر میں ختم قرآن شریف اور خیرات میں
حصہ لینے کیلئے مجبورا تو چلا جاتا ہوں لیکن اس دن لیکن اس دن اپنے گھر میں
فیملی کیساتھ جھگڑا ضرور ہوتا ہے -بقول میرے اس دوست کے کہنے کو تو میں
صحافی ہوں لیکن میری اتنی ہی اوقات ہے کہ میں اپنے مالک کو "نہ "کہہ سکتا
کیونکہ اگر انکار کرونگا تو پھر مالک اور اس کے "چمچے" میرے لئے دفتر میں
اتنے مسائل پیدا کرتے ہیں کہ میرا اس شعبے سے دل بھر جاتا ہے -اس ادارے میں
ہمارے ایک دوست جو آج کل وکیل ہے نے کسی زمانے میں کام کیا تھا اس نے اپنے
غصے کا اظہار کچھ ایسے کیا تھا کہ جب اخبار کے مالک کے رشتہ دار وفات پا
گئے تو دفتر میں آرڈر لگ گیا کہ جنازہ ہے اور سب نے شرکت کرنی ہے تو میرا
وہ دوست جو اس وقت ادارے میں کام کررہا تھا کہ اتنا غصے میں آگیا تھا کہ اس
نے جنازے میں بے وضو شرکت کرکے اپنی غصے کا اظہار کیا تھا -خیر بات کہاں سے
کہاں تک آگئی - ان باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مالکان قلم کے مزدوروں
کو کیاسمجھتے ہیں اور ان کا اپنے ملازمین کیساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے -
کوئی صحافی نہ تو انفرادی طور پر اس حوالے سے آواز اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی
اجتماعی طور پر-کچھ عرصہ قبل ایک تنخواہیں ادا نہ کرنے پر میں نے اس ادارے
کے ایڈیٹر کو ای میل کے ذریعے آگاہ کردیا کیونکہ اس کا ایڈیٹرٹی وی پر بیٹھ
کر اتنی بڑی باتیں اب بھی کرتا ہے کہ لگتا ہے کہ پورا پاکستان یہی چلا رہا
ہے میرے ای میل کا اثر تو کچھ نہیں ہوا الٹا اس ادارے کا ایک شخص میری
ممبرشپ ختم کرانے کیلئے دوڑ دھوپ کرنے لگاکہ اس نے "سچی بات"کہہ کر مجھے
ننگا کردیا ہے خیراس وقت کی انتظامیہ نے معاملے میں دلچسپی نہیں لی لیکن اس
معاملے سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں پر "سچ بولنا"بھی جرم ہے اور کسی کو
اس کی غلطی کا احساس دلانے کی ضرورت ہی نہیں - اب یہاں پر ویج ایوارڈ کی
باتیں تو بہت ہورہی ہیں اور فیصلہ بھی عدالت دے چکی ہیں لیکن اس پر
عملدرآمد کون کروائے - صحافی تنظیموں نے اخبارات کے اشتہارات تنخواہوں کی
ادائیگی سے مشروط کرنے کیلئے بھی بہت زور لگایا لیکن یہ معاملہ بھی جہاںسے
چلا تھا وہیں پر ہی ہے اور اب تو ہمیں سرکار کی وعدوں پر اعتبار ہی نہیں
رہا - |