کیا خود کو سدھارنے کا وقت نہیں آگیا؟

یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ابھی تک قوم آزادی کے حقیقی ثمرات سے محروم ہے لیکن یہ بھی سمجھنا غلط ہو گا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے یا کچھ نہیں بچا۔ قوموں کی زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں۔ کبھی اندرونی مسائل شدت اختیار کرتے ہیں تو کبھی بیرونی خطرات سر پر منڈلاتے ہیں۔ لیکن با ہمت قومیں کامیابی کے ساتھ وقت کی آزمائش پر پوری اترتی ہیں اور زمانے سے اپنا وجودمنواتی ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہم اپنے پڑوسی اور دنیا کی عظیم قوم چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کلینڈر میں تو چین ہم سے ایک سال بعدآزاد ہوا لیکن آج وہ ترقی کی دوڑ میں ہم تو کیا دنیا کی کئی ترقی یافتہ اقوام سے آگے نکل کرایک عظیم مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ معیشت، دفاع، ٹیکنالوجی، عالمی سیاست اور ڈسپلن میں چین اس وقت دیگر اقوام میں نمایاں ہے۔ چین کی اس ہوش ربا ترقی کا راز ان کی قوم کے ڈسپلن میں چھپا ہوا ہے۔ کہنے والے ان کے طرز حکومت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات بھی لگاتے ہیں لیکن ان سب الزامات سے بے نیاز ہو کر چینی قوم کسی بھی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ ان کی قیادت نے قوم کو ڈسپلن کا عادی بنا دیا اوراس کی وسعت نظری نے قوم کو ان کی منزل کی نشاندہی کی اور پوری چینی قوم یکجا ہو کر اس منزل کی طرف رواں دواں ہے باوجود اس کے کہ چین کے دشمن پوری کوشش میں ہیں کہ چین کے اقتصادی جن کو قابو میں لایا جائے۔ چین کے لئے ہر قدم پر مشکلات پیدا کی جائیں لیکن چینی قوم ان تمام مشکلات سے دل جمعی اور ہوشیاری کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ آج عالمی سیاست، معیشت، اور اسٹراٹیجک معاملات میں چین کے کردار کو کوئی ملک یا بلاک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ میں یہ کہنے سے ہرگز نہیں رک سکتا کہ عالمی معاملات میں چین کی دانشمندی وسعت نظری اور ثابت قدمی نے آج دنیا کو تیسری جنگ عظیم سے بچا یا ہوا ہے۔

پاکستان کی خوش قسمتی کہ یہی چین اس کا آزمودہ، سچا اور عظیم دوست ہے جس نے ہر گام اور ہر مشکل میں پاکستان کی مدد کی اور اسے عالمی سازشوں سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور میں داخل ہو گیا ہے۔ ہم آج اندرونی انتشار کا شکار ہیں، معیشت بھی ڈانوا ڈول ہے اور تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات بھی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ دفاعی ادارے بھی بیرونی سازشوں کی زد میں ہیں اور ملک کی سالمیت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اس بگاڑ میں بڑا حصہ خود ہمارا ااپنا ڈالا ہوا ہے لیکن یہی وقت قوم کے لئے دراصل آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔ ایک قوم بننے کی ضرورت آج سے پہلے کبھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔مجھ ناچیز کی رائے تو یہ ہے کہ اب شروعات کرنی ہے تواپنے اندر سے ہر طرح کے تعصبات کو خدا حافظ کہہ دیں اور ایک قوم کے احساس کو اجاگر کریں، تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں، کام کرنے کی عادت کواپنا لیں ، ایمانداری اور خوف خدا کو سامنے رکھیں تو سماجی سطح پر اتنے مضبوط ہو جائیں گے کہ پھر ملک کے اندر سیاسی سطح پر تبدیلی لانا مشکل نہیں ہوگی۔ سیاسی قیادت کو اپنا قبلہ درست کرنا پڑ جائے گا ۔ جب لوگ انفرادی سطح پر برائی کو برائی سمجھیں گے اور اپنا کردار درست کرلیں گے تو سرکاری اہلکاروں کو بھی اپنے اندر سدھار لانا پڑ جائے گا۔ جب قوم کی سطح پر مضبوط ہو جائیں گے تو کسی کو ہمارے تشخص کے اندر نقب لگانے کا موقع اور راستہ نہیں ملے گا۔ کہنے اور پڑھنے کو تو یہ باتیں بڑی عجیب اور کتابی لگتی ہیں لیکن سدھرنے کا راستہ شاید اسی میں سے نکلے۔
Syed Shafi Ahmed Zubairi
About the Author: Syed Shafi Ahmed Zubairi Read More Articles by Syed Shafi Ahmed Zubairi: 6 Articles with 4625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.