پاکستان بر صغیر کے مسلما نوں نے
صرف ایک عقیدے کی بنیاد پر حاصل کیا یعنی عقیدہ توحید ورسالت ۔ صرف ایک خدا
،ایک رسول ، ایک قرآن اور ایک مذہب اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کے کونے کونے
کے ہر مسلمان کو متحد کیا اور اس اتحاد اور اتفاق نے دنیا کی عظیم ترین
اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی اس سارے عمل اور جدوجہد کے دوران یہاں کوئی
شیعہ تھا نہ سنی نہ دیوبندی نہ بریلوی۔ اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے
وہ خود کو صرف مسلمان کہتے تھے دیگر مذاہب سے الگ ایک مذہب ۔ آج بھی مسلمان
،دوسروں کی نظر میں صرف مسلمان ہے شیعہ یا سنی نہیں اور اسی بنیا د پر اہل
کفران کے خلاف متحد ہیں اگر ایران کی اکثریت شیعہ ہے تو وہ ان کی نظروں میں
مجرم ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے ۔ اگر پاکستان کی اکثریت سُنی ہے تو وہ بھی
مجرم اور قابلِ نفرت ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے ان کے لیے اہلِ حدیث، شیعہ
یاسنی کی کوئی تخصیص نہیں تو پھر مسلمانوں میں یہ تخصیص کیوں ۔ایسا نہیں کہ
کوئی بھی مسلک ہر ایک پر لاگو کر دیا جائے اور اس کی بنیاد پر دوسرے کو
لادین قرار دے دینا بھی یکسر غلط ہے ۔اسلام تو وہ مذہب ہے جو کسی کے دین
اور مذہب پر پابندی نہیں لگاتا وہ اسلام کی طرف بلاتا ہے لیکن زبر دستی
نہیں کرتا ۔ لَااِکراہَ َفی الدّ ِین۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت
امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اگر جنگ ہوئی تو اس میں عقیدے اور مسلک
کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور تھی جس کو آپ انتظامی اور
حکومتی کہہ سکتے ہیں ۔ناراضگی دینی معاملات پر نہیں ہوئی تھی بلکہ حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گورنری سے ہٹانے پر تھی۔ ہم ان کے غلط اور
درست ہونے کا فیصلہ مذہبی بنیادوں پر نہیں کر سکتے ۔یہی حال حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرنے کا تھایہاں بھی کسی
کو مسلکی ناچاقی نہیں تھی نہ ہی کوئی فقہی اعتراض تھا ۔اگر حضرت امام جعفر
صادق، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے اُستاد تھے تو اُن کی شاگردی امام جعفر
کے لیے بھی باعث فخر تھی ۔انہی روایات کو لے کر مسلمان دنیا کے کونے کونے
میں گئے اور دین پھیلاتے رہے ۔ اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر
عمل اور ہر طریقے کی حفاظت کرنا تھی لہذا کوئی ان کے کسی فعل کا کوئی ایک
طریقہ اور کوئی دوسرا طریقہ اپناتا اور پھیلاتا رہا اور یوں ہر عمل محفوظ
ہوتا رہا ۔مجھے اس بات سے ہر گز اختلاف نہیں کہ ہر ایک اپنا مسلک رکھے اور
پختہ طور پر رکھے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیںکہ دوسروں کو کافر یا واجب
القتل قرار دیا جائے ۔بلکہ اسلام تو ہر انسانی جان کو قابل احترام قرار
دیتا ہے یہی وہ تعلیمات تھیں جس نے اسلام کو دنیا کے ہر کونے میںپہنچا یا
اور اگر ملک اور حکومتیں بزور شمیشر بھی فتح ہوئے تو دل حسن سلوک سے ہی فتح
ہوئے ۔حضرت داتا گنج بخش ، خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت شاہ رکن عالم،
حضرت پیر بابا بونیری، حضرت کاکا صاحب ، حضرت عبداللہ غازی اور سینکڑوں
ایسے نام آج بھی قابلِ صد احترام ہیںیہی حال دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی
ہے جہاں یہ بندگانِ خدااُس کا پیغام لے کر پہنچے اورانسان کو بحیثیت انسان
وہ عزت وتکریم دی کہ وہ خود اس دین کی پناہ میں آتے گئے۔ لیکن دکھ اور
افسوس کا مقام ہے کہ اس سب کچھ کو تسلیم کرنے کے باوجود اسلامی معاشروں میں
عدم برداشت اور مسلکی عدم رواداری کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جس پر
قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے سب سے اہم اور بڑا کردار علمائ
کرام کو ادا کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے معاشرے اورمذہبی معاملات میں جو اہمیت
اِن کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔اس کام کے لیے آج بھی مسجد کو جس
کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے کسی دوسرے پلیٹ فارم کو نہیں کیا جا
سکتا ۔ یہی حال دوسرے مذاہب کے بارے میں ہے کہ جب تک یہ علمائ عام لوگوں
میں رواداری کو فروغ نہیں دیںگے تب تک کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن
دُکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں سارا زور خود کو یا اپنے پیر و مُرشد
کوبڑا عالم ثابت کرنے پر ہے۔ اس کی ایک حیرت انگیز مثال سے اس وقت سامنا
ہوا جب ایک مشہور اور انتہائی قابلِ احترام مترجم قران کے ترجمہ شدہ نسخہ
کے آخر میں مترجم اور ترجمہ کے بارے میں ایک نوٹ پڑھا جس میں آدھا درجن
دوسرے مترجمین کو باقاعدہ نام لے کر اور غلط کہہ کر اور ان کے ترجمے کو غلط
قرار دیا گیا ہے اور ان پر من وعن اِن الفاظ میں الزام عائد کیاگیاہے کہ
انہوں یہ ترجمہ کرکے ایمان کے تابوت میں کیلیں ٹونک دیں ہیں جب کہ یہ فرق
صرف الفاظ کا ہے یا انداز کا ترجمہ میں کوئی فرق نہیں اور یہ سارے مترجمین
انتہائی مستند سمجھے جاتے ہیں اور اِن کے تراجم ، حواشی یا تفاسیر کے بے
شمار نسخے گھر گھر میں موجود ہیں اور ان تراجم کو پڑھنے سے کوئی ایسا تاثر
نہیں ابھرتا کہ ایمان تابوت میں بند ہوجائے ۔میں مفسر قران یا عالم قران
ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتی اور نہ ہی ہوںلیکن اِن میں سے ایک دو تراجم کو
میں بھی پڑھ چکی ہوں کسی بھی غلط تاثر کے بغیر۔ الفاظ کا چنائو یقینا
احتیاط کا متقاضی ہے لیکن کسی کے ایمان پر حملہ کرنے کا یہاں کوئی جواز
نہیں۔ اسی طرح کے تاثرات جب ہماراکم پڑھا لکھا طبقہ پڑھتا ہے تو ان کے لیے
طالبان کا روپ دھار لینا انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔اگرچہ طالبان کے زیر اثر
علاقوں کے پڑھے لوگ بھی اس بارے میں مشکوک ہیں کہ یہ ساری کارستانی کم از
کم مقامی لوگوں کی نہیں ۔ پارا چنار سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے بتا
یا کہ قطع نظر ان کے فرقے اور مسلک کے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پختون ،عورتوں
اور بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے لیکن کرم ایجنسی میں ایسا ہورہا ہے تو پھر یہ
کون ہیں اگرچہ یہ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے تاہم الزام دوسرے کے سر تھوپ کر
ہم برالذمہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ان صنم خانوں کو کارندے اہل کعبہ کے اندر سے
ہی مل رہے ہیں جو لمحہ فکریہ بھی ہے اور باعثِ افسوس بھی ۔ معاملہ صرف یہاں
تک محدود نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک ہی فرقے میں صرف مختلف مکاتبِ فکر
کے درمیان بھی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر مختلف زبانوں بلکہ علاقوں کے درمیان
بھی ہے ۔مسئلہ تشخیص کا نہیں کہ وہ سب جانتے ہیں بلکہ مسئلہ ان تمام عدم
رواداریوں سے نجات پانے کا ہے اور یہ ذمہ دار ی معاشرے کے ہر پڑھے لکھے فرد
کی ہے ورنہ اس دنیا میں ہم اپنے دین کی جس سبکی کا باعث بن رہے ہیں
روزِقیامت ہمیں اس کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا کہ جس دین کو رب العالمین نے
عالمِ انسانیت کے دل ملانے کے لیے بھیجا تھاہم میں سے کچھ نے اس دین کا نام
لیکر خود اپنے ہی اندر دیواریں کھڑی کیں، کچھ نے ان دیواروں کو اونچا
کیااور کچھ باوجود اس صلاحیت کے کہ وہ ان دیواروں کو گراسکتے تھے اپنی ذمہ
داریوںسے چشم پوشی کرتے رہے۔ اگر دین پر عمل کرنے کی بات ہے تو اس کے لیے
جان سے گزر جانا بھی باعث فخر ہے مگر ، اگر دین کو مسخ کرکے اپنی طالبانی
اور خوارج قسم کی شریعیت بنانی ہے تو ہم دین مصطفوی کے مجرم ہیں کہ وہ دین
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے خود تفرقہ اُس دین میں اب آکے پڑاہے۔ آج
اگر لبنان میں سُنی اور علوی برسر پیکار ہیں تو کیا وہ اسرائیل کے خلاف
سرخروہونے کی طاقت اور صلاحیت رکھ سکیں گے۔ اسی طرح پاکستان اگر انہی مسائل
میں الجھارہا تو یہ مان لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیئے کہ ایٹمی قوت
ہمیں دوسروں کے حملے سے تو بچالے گی تباہی سے نہیں کیونکہ ہم دین، فرقے،
مسلک ،مکتبہ فکر ، زبان، علاقے اور نجانے کن کن بنیادوں پر تقسیم ہو کر ایک
ایسے گڑھے کی طرف جارہے ہیں جس میں سے ہماری بازیابی مشکل ہی نہیں بلکہ
ناممکن ہے۔ |