پاکستان میں پرنٹ میڈیا دو واضح حصوں میں
بٹا ہوا ہے.... یہ اردواخبارات اور انگریزی اخبارات کا فرق ہے۔ آپ کو ایک
خبر اردو اخبارات میں شہ سرخی میں ملے گی اور اس پر طویل تبصرے بھی کالم کی
صورت ہوں گے ، لیکن یہی خبر انگریزی اخبارات میں سرسری نظر آئے گی اور اس
پر تبصرے اگر ہوں گے بھی تو اردو اخبارات کے مقابلے میں بالکل دوسرا پہلو
لیے ہوں گے۔اسی طرح کئی خبریں انگریزی اخبارات میں تو نظر آئیں گی مگر اردو
اخبارات میں نہایت سرسری اور بعض اوقات بالکل نظر نہیں آئیں گی۔ یوں لگتا
ہے کہ زبان کی بنیاد پر یہ فرق جو دراصل موضوعات کا فرق، سوچ اور ویژن کا
فرق ہے،اپنی اپنی جگہ ایک خاص کلاس کی نمایندگی کرتاہے، یعنی اردو اخبارات
عوام کے لیے اور انگریزی اخبارات( ایک خاص انداز کے)خواص کے لیے ہوتے
ہیں۔اس تمہید کا مقصد بس یہ ہے کہ صحافت سے تعلق رکھنے والوں کواپنے خاص
شعبہ میں رہتے ہوئے اردو ، انگریزی پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیااور کمرشل
میڈیا سب جگہ حسب توفیق چَرناضرور چاہیے۔ یوں نہ صرف اپنے موضوع کی خبروں
سے آدمی اپ ٹو ڈیٹ رہتا ہے بلکہ مختلف حلقہ فکر رکھنے والے لوگوں کی کسی
خاص موضوع پر سوچ کا اندازہ بھی اسے بخوبی ہو جاتا ہے۔
تمہید طول پکڑتی جا رہی ہے، آج کا میرا موضوع صحافت اور میڈیا ہرگز نہیں....
بلکہ آج تو آپ کو ایک ’عبرت انگیز‘ لطیفہ سنانا ہے جو میں نے ایک انگریزی
اخبار ایکسپریس ٹریبون کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا، جسے پڑھ کر بے ساختہ
ہنسی بھی آئی اور کچھ اپنے قابل وزیروں کی کارکردگی کا بھی معلوم ہوا۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو خبر کچھ خاص نہ لگے کیوں کہ پاکستان میں اس سے بھی
زیادہ عبرت اثر لطیفے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں.... کبھی پانی بطور
ایندھن کی ساٹھ سالہ پرانی تھیوری کو نیا لباس پہنا کراپنی تحقیق اور ایجاد
باور کرانا اور پھراس ایجاد کے ذریعے پانی سے کار بلکہ جہاز اڑانے کے اونچے
اونچے بے بنیاد دعوے کرنے والے بڑے طمطراق کے ساتھ سامنے آتے ہیںتوکبھی
کوئی اور نعرہ مستانہ بلند کر کے ملک و قوم کی قسمت راتوں رات بدلنے کا
دعویٰ کرتا ہے.... بہرحال میڈیا کی بے مثال ترقی اور تیز ترین ذرائع کی وجہ
سے اب کیسی بھی خبر ہو، زیادہ عرصہ تک چھپی ہوئی یا محدود نہیں رہ سکتی،حتیٰ
کہ چوکس صحافی لوگوں کے بیڈ رومز ہی نہیں بیت الخلاءکی خبریں بھی نکال لاتے
ہیں۔
لیجیے پھر بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، میں عرض کر رہا تھا کہ میں نے انٹر
نیٹ پر جگالی کرتے ہوئے ایکسپریس ٹریبون پر یہ خبر دیکھی جو شایع تو جولائی
میں ہوئی تھی لیکن اپنی نظروں سے مہینہ بعد گزری۔ خبر کا موضوع صحت کے شعبے
سے منسلک ایک خاتون وفاقی وزیر کی جعل سازی ختم کرنے کی وہ کوشش تھی جس نے
خود ان کی قابلیت اور ان کی منسٹری کے ماتحت چلنے والے دواﺅں کی ریگولیشن
کے ادارے کی اہلیت کا پول کھول دیا۔آپ حیران ہوں گے ، کہ جعل سازی ختم کرنے
کی جدوجہد تو بڑی اچھی بات ہے ، اس میں قابلیت اور اہلیت کا سوال کہاں سے
آگیا۔ تو جناب تھوڑا صبر کر کے خبر کے مندرجات اچھی طرح پڑھ لیجیے، پھر آپ
کو سب لگ پتہ جائے گا۔
ہوا یوں کہ ہماری مذکورہ ہونہار وفاقی وزیر صاحبہ جب ضرورت سے فارغ ہونے کے
لیے بیت الخلا تشریف لے گئیں تو انہوں نے اپنے فضلے میں ثابت دوا کی وہ
گولی پائی، جو وہ ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق لے رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر انہیں
نہایت تشویش ہوئی کہ یہ دوا کی گولی جو انہوں نے کھائی تھی، پورے نظام
انہضام سے گزر کر کیسے ثابت نکل آئی؟ اس کا مطلب دو اور دو چار کی طرح یہی
ہوا کہ اس گولی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے! اپنی منسٹری کے ماتحت چلنے والے
دواﺅں کی ریگولیشن کے ادارے اور شاید اس دوا کی” مستقل ضرورت“ کی وجہ سے
انہوں نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ چلو اس بہانے
غریبوں کابھلا بھی ہو جائے اور اپنا بھی کچھ نام ہو جائے۔فوراًایک شکایت
نامہ متعلقہ ادارے کو بھیجا گیا۔ کوالٹی کنٹرول کے چیئرمین ڈاکٹر
عبدالرشیدنے ادویات کے نمونے لینے کے آرڈرز جاری کیے، جسے وصول کرتے ہی
وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کراچی اور اسلام آباد میں اس دوا کے سیمپل جمع کرنے
دوڑے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے بارے کچھ اس مظلوم دوا کے پڑھ لیجیے۔اس دوا کوجو کہ
براؤن رنگ کی تہہ چڑھی ہوئی ایک گولی ہے اور جس کا کمپنی نیم(Adalat 30)ہے
،ایک جرمن کمپنی تیار کرتی ہے اور یہ ہائی بلڈ پریشر یا انجائنا کی تکلیف
میں پچھلے دس بارہ سال سے پاکستان میں استعمال ہورہی ہے۔اب شاید کسی کو
حیرت ہو کہ پچھلے دس سالوں میں ہزاروں لوگوں نے اس دوا کو استعمال کیا ہو
گا لیکن کبھی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ مذکورہ دوا کی گولی جسم سے ثابت
خارج ہو رہی ہے، لیکن حیرت کی کوئی بات نہیں، دورانِ فراغت فضلہ کا معائنہ
کرنے کی مکروہ عادت ہر ایک میں تو نہیں ہوتی ! خیر تو جب دوا سینٹرل
لیبارٹری کراچی پہنچی تو وہاں موجود تجزیہ کار ڈاکٹر عبید علی کو خاصا صدمہ
ہوا کہ کسی نے بھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ اس گولی میں دوا کا ایکٹو
جز یعنی نیفےڈیپن (Nifedipine)اس خول میں ایک لیزر سے کیے ہوئے سوراخ میں
موجود ہوتا ہے۔ یہ دواجسم میں جا کر اس سوراخ میں سے نکل جاتی ہے جب کہ خول
ویسے کا ویسا ہی فضلے میں آجاتا ہے۔
اس گولی کے بنانے والوں نے تو بڑی عرق ریزی کے بعد اسے اس طرح تیار کیا
تاکہ یہ دوا جسم میں اس طرح خارج ہوکہ اخراج قابو میں رہے اور دیر تک ہوتا
رہے۔ لیکن گولی بنانے والے کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہو گا کہ اس کی یہ
تکنیک دس پندرہ سال بعد پاکستان میں تشویش پھیلانے کا سبب بن جائے گی،
حالانکہ اس دوا کے ساتھ موجود اطلاعی پرچے میں صاف لکھا ہوتا ہے کہ اسے
لیزر سوراخ میں داخل کیا گیا ہے۔ کسی نے وہ اطلاعی پرچہ نہ پڑھا،اگر پڑھا
تو سمجھا نہیں اور نہ ہی انٹر نیٹ کے اس زمانے میں کسی نے ایک بٹن دبا کر
اسکی خصوصیات جاننے کی کوشش کی۔ یوں جرمنز کی بنی ہوئی اس دوا نے وزیر
صاحبہ کے گھر بلکہ بیت الخلاءسے لیبارٹری تک کا سفر طے کر ڈالا۔
وفاقی خاتون وزیر صاحبہ جنہوں نے بزعم خودپاکستان میں ہونے والی ایک بڑی
جعل سازی پکڑی اور پھر اس جعل سازی کو ختم کرنے کے لیے اپنی منسٹری کے
ذریعے زمانے بھر میں ہلچل مچائی....اس انکشاف کے بعد خاموش ہیں۔اب ہم نہیں
بلکہ وہ لوگ جن کا کام ہی تنقید کرنا ہے، کہہ رہے ہیں کہ وزیر صاحبہ آخر
کیسے اس وزارت کو چلا رہی ہیں ؟اس خبر سے موصوفہ ہی نہیں بلکہ کنٹرول یونٹ
کے چیئر مین ، جن کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگا ہوا ہے اور دیگرڈرگ
انسپکٹرزکی پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت کی سطح کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے
!تو جناب یہ ہے وہ سوال جو ہم نے ایک وزیر کی قابلیت اور ایک ڈرگ ریگولیشن
ادارے کے کرتا دھرتاؤں کی اہلیت پر اٹھایا تھا.... آپ ہم سے متفق ہیں کہ
نہیں؟ |