اس وقت پاکستان میں خبروں کا
موضوع بنی ہندو کمیونٹی کے بارے میں حقائق کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی
تعداد ممکن ہے زیادہ ہو۔لیکن دیکھنے میں آرہاہے کہ ہر شخص اپنے ہی آئینے
میں دیکھ کر اپنے جذبات‘عقائد‘سوسائٹی اور نظریات کے مطابق
تحریریاتقریرکررہاہے۔جبکہ اس حساس موضوع پر لکھنے کیلئے انسان کو وسعت قلبی
اور تعصب سے پاک ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔مذہب یا لادینی نظریات ہوں انسان کو
اپنے قلم سے حق ہی لکھناچاہیئے ۔سچا اور دیانتدار لکھاری یا اینکر وہی ہے
جواپنے خیالات کی گھتی (چاہے وہ لبرل سوچ کی ہویا مذہبی)ایک طرف رکھ کر
دریادلی سے تجزیہ کرے‘تب جا کرہی وہ اپنے پیشے سے وفاکرپائے گا۔
عید سے قبل جب ایکسپریس ٹریبون پر پاکستانی ہندﺅوں کی نقل مکانی کی خبر
پڑھی تو یک لخت آنکھیں نم اور دل پریشان ساہوگیا۔چونکہ اس معاملے میں ذرا
کمزور دل کا بندہ ہوں اس لیئے ایسے مناظر یا باتیں شروع ہی سے میری آنکھوں
میں پانی بھردیتیں ۔اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جب دوستوں نے ایک ایسی فلم
لگائی جوہندوپاک ہجرت سے متعلق تھی تو میں مضطرب ہوگیا(واضح رہے کہ تقسیم
برصغیرکہ موقع پر 82لاکھ سے زائد مسلمانوں نے موجودہ انڈیاکے علاقوں سے
پاکستان کی جانب نقل مکانی کی جبکہ پاکستان کی سرزمین سے ہجرت کرنے والے
غیرمسلموں کی تعداد 72لاکھ کے لگ بھگ تھی)‘سسپنس کی وجہ سے کچھ مناظردیکھے
جو انتہائی دردناک لگے اور پھر مزید دیکھنے کی سکت نہ رہی۔تازہ ترین خبر
پڑھ کروہی مناظریاد آگئے۔اور اس دن سے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے
پاکستانیوں کے بارے میں لکھنے کی ٹھان لی۔
لیکن پہلے ایک نظر برصغیرکے انڈیاکہلانے والے حصے پرڈالتے ہیں ۔دہلی ہائی
کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کہتے ہیں کہ ہندوستان کشمیر میں موجود
نامعلوم قبروں کی شناخت کے بارے میں مثبت اور شفاف قدم کیوں نہیں
اُٹھاتا؟اپنی رپورٹ میں وہ کہتے ہیں کہ ”انڈیاکی بیوروکریسی میں مسلمانوں
کی تعداد2.5فیصد ہے جبکہ یہ انڈیا کی کل آبادی کا 14فیصدہیں“(وکی
پیڈیا)۔مزید اسکی حقیقی تصویر انہوں نے اپنی کتاب میں پیش کی ہے ‘جسے بھارت
کے بک سٹالوں سے غائب کردیاگیاہے۔ڈیلی نیوز اینڈ اینلائسزکی ویب پر انسانی
حقوق کی تنظیم کے نمائندے خرم پرویز(کشمیر)کا بیان موجودہے کہ پچھلے
دوعشروں میں وادی کشمیر سے لاپتہ ہونے والوں کی تعداد 8000سے زائدہے“۔آسام
میں حالیہ فسادات کے دوران انڈین مسلمانوں کے ہزاروں گھر اُجڑے ‘سینکڑوں
افراد تعصب وبربریت کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے۔جبکہ احمد آباد کو قبروں کا
شہرکہاجاتاہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے مابین اقلیتوں کے حقوق سے متعلق معاہدہ 1949میں
لیاقت علی خان اور نہروکے مابین طے پاگیاتھا۔جس پر پاکستانی ریاست عمل
پیراہے۔ماناکہ محترم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک واضح
پالیسی دی تھی لیکن یہ بات جدید قلم کے مالکان ایسے دہراتے ہیں جیسے یہ
اصول وضع ہی بیسویں صدی میں ہوئے ہوں ۔انکی خدمت میں ادب سے گذارش ہے کہ آج
سے چودہ سوبرس قبل ہمیں اقلیتوں کے متعلق آئین کی تمام دفعات مل چکیں تھیں
اور ہمیں کسی بھی شخصیت کو وہاں تک فالو کرناہے جہاں تک وہ اسلام کی پیروی
کرے۔
ایک غزوہ کے موقع پر آپﷺ اور انکی افواج کو ایک کافر عورت نے پانی پلایاتو
اس کے قبیلے کی جان بخشی کردی گئی۔اس سے حسین وخوب صورت” دفعہ“ تو دنیاکہ
کسی آئین میں موجود نہیں۔لیکن ہم بھلادیتے ہیں ۔اور پھر لفظوں کے جادوگر ہم
شخصیات کے بھنور میں پھانسنے کی سعی ناکام کرتے ہیں ۔
ہمیں سوچنا چاہیئے کیا جے کالج‘لاکالج‘سوبھراج میٹرنٹی ہوم اور اوجھاسینی
ٹوریم ہندﺅ کی دولت سے نہیں بنے؟ توپھر کیاوجہ ہم ان کے ہم مذاہب اور قبیلے
والوں کی جان ومال کی حفاظت نہیں کرپارہے؟۔
یہ ہے وہ سوال جسے بڑھاچڑھاکر وہ مخصوص طبقہ پیش کررہاہے ‘جس کے آقا کی
خوشنودی ہی اسی میں ہے کہ پاکستان پر دشنام طرازی کے بدبودار جوہڑکھول دیئے
جائیں۔دراصل ملک بھر کی لاءاینڈ آرڈر کی کیفیت دگرگوں ہے ۔کراچی میں کم
وبیش سات سے آٹھ افراد روزانہ کی بنیاد پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
۔گلگت بلتستان میں بھی کلمہ گو ہی شناخت کے بعد قتل ہورہے ہیں‘بلوچستان میں
بھی مسلمانوں ہی کی ٹارگٹ کلنگ عام ہے‘جبکہ خیبر پختونخواہ میں ارض پاک ہی
کی زمین سے ڈرون حملہ آور ہورہے ہیں۔اگر کوئی ہندو قتل ہوتاہے یا اغوا
ہوتاہے تو اسکایہ مطلب ہرگز نہیں کہ محض ان سے ایساسلوک کیاجارہاہے یہ
صورتحال پوری ریاست کو درپیش ہے۔لیکن یہ بات ضرور ہے کہ بحثیت اکثریت کہ
ہمیں ان پر ہونے والے مظالم کا فوری نوٹس لینا چاہیئے ۔تاکہ ہمارے ہم وطن
ہندو‘سکھ ‘عیسائی اسے دیار غیرنہ سمجھیں ۔اور ملک دشمن ‘مذہب دشمن عناصر کو
کھل کر کھیلنے کا موقع نہ ملے ۔
سندھ کے صوبائی وزیر مکیش کمار چاولہ اور موہن لال کوہستانی نے ہندوﺅن کی
نقل مکانی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے بنیاد خبریں پاکستان
دشمن عناصرملک میں پھیلارہے ہیں ‘انہوں نے بتایاکہ جیکب آباد میں ہندو
برادری کی تعداد بیس فیصدہے جبکہ کاروبار میں انکی شرکت سترفیصدہے۔نقل
مکانی کے حوالے سے کہاکہ اگر ہرہفتے سات خاندان ہجرت کرجاتے تو سندھ میں
آباد چالیس پینتالیس لاکھ ہندﺅوں میں سے ایک گھرانہ بھی سندھ کی سرزمین
پراسوقت موجود نہ ہوتا۔
آپ دیکھتے ہوں گے کہ جوں ہی کوئی اکا دکا واردات اقلیت کے علاقے میں ہوتی
ہے یا کوئی بھی موقع ملتاہے تو فورا ًسے پہلے کچھ عناصر توہین رسالت قانون
کیخلاف مشکیں کس لیتے ہیں ۔حالانکہ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ اس ایکٹ کے تحت
سب سے زیادہ سزائیں مسلمانوں کوملیں۔ ہم بھی اس حق میں ہیں کہ اس کا غلط
استعمال نہیں ہوناچاہیے لیکن اسے ختم کرنے کے خواب دیکھنے والے سراب کے
متلاشی ہیں ۔انہیں یہ ناچیز بتادیناچاہتاہے کہ یہ محض اللہ اور اس کے پاک
محمدﷺ کا پاکستان ہے‘اور اسلام وہی ہے جس میں شخصیت پرستی کو پنپنے کی
اجازت ہی نہیں دی جاتی اگر ایساہوتانظرآرہاہوتوخالدؓ بن ولید جیسا مایہ ناز
جرنیل بھی معزول کردیاجاتاہے کسی ایرے غیرے کی پھرہم نے کیا اتباع کرنی ہے
‘۔ |