نئی کرنسی کا وبال

گزشتہ سالوں کی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس سال بھی عید الفطر کے مو قع پر نئے نوٹ چھاپ کر عوام الناس میں تقسیم کر نے کا اہتمام کیا ۔مگر لوگوں کی اکثریت نئے نوٹوں کے حصول کیلئے عید سے ایک روز پہلے تک ماری ماری پھر تی رہی۔سٹیٹ بینک نے نئے نوٹوں کی تقسیم کمر شل بینکوں کے ذمے لگا کر اس ذمہ داری سے بظاہر جان چھڑالی ہے مگر بھولی بھالی عوام کو نئی کر نسی کی چاٹ لگا کر لوگوں کے مزاج اور نفسیات پر نہائیت مضر اور فضول اثرات مرتب کر دئیے ہیں۔ہم نے آج تک یہ کبھی نھیں سنا کہ مہذب اقوام عالم بھی اپنے مذہبی تہواروں پر اس قدر شدت سے نئے کر نسی نوٹ کا اہتمام اور انتظار کرتے ہوں۔ان کے حصول کیلئے بینکوں کے چکر کاٹتے ہوں ۔لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں رُسوا ہوتے ہوں ۔

البتہ یہ ضرور سنا ہے کہ مہذب اقوام عالم اپنے تہواروں پر لوگوں کو بہت سی رعائتیں اور سہولتیں فراہم کر تی ہیں ۔اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بہت کم کر دی جاتی ہیں۔تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ خوشی اور سہولت کے ساتھ تہوار منا سکیں ۔

مگر " اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں مر کزی بینک عید الفطر کے پر مسرت موقع پر نئی کر نسی کا ایک ایسا فتنہ بر پا کر دیتا ہے کہ لوگ اور بینک ملا زمین اس" سعی لاحاصل" سے کبھی شاداں اور مسرور نہیں ہوتے۔رمضان کی بابرکت ساعتوں میں بجائے اس کے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہوں ،بینک ملازمین سارا دن مختلف قسم کے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اپنے صارفین کو ٹالتے رہتے ہیں اور رمضان اور روزے کے ثواب میں کمی کا موجب بنتے ہیں ۔لوگ بھی ایک بینک سے دوسرے بینک رمضان کا آخری عشرہ نئی کر نسی کے حصول کیلئے چکر کاٹتے گزارتے ہیں ۔زیادہ سے زیادہ نئی کر نسی کا حصول ان کی منزل ِ مقصود ہوتا ہے۔اس بھولی سادہ عوام کو حکومت اور حکومت کے مرکزی بینک نے کن فضولیات کا رسیا بنا دیا ہے کہ یہ بجائے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کے مطالبے کے ،آخری عشرہ نئی کر نسی کے حصول اور خواہش کی نذر کر دیتے ہیں ۔

مرکزی بینک نئی کر نسی کا ڈھول ما تحت کمر شل بینکوں کے گلے میں ڈال کر اس فتنہ سے بری الزمہ نہیں ہو سکتا ۔پھر آخری چند روز میں مختلف قسم کے دھمکی آمیز احکامات کے ذریعے کمر شل بینکوں کے ملا زمین کو ڈرایا جاتا ہے اور لوگو ں کو زیادہ سے زیادہ وقت نئی کر نسی کے حصول میں صرف کر دینے کیلئے مجبور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نئی کر نسی کے عوض عوام کو ایک تولہ چیز بھی زیادہ نہیں ملتی تو پھر اس نفسیاتی علت کا فائدہ ؟

پڑھے لکھے صارفین اور مصروف کا روباری حضرات بھی بینک ملازمین سے تکرار کر تے اور نئی کر نسی کی عدم دستیابی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔نئی کر نسی کی خواہش کے پیچھے نفسیاتی عوارض اور مذہبی حکم عدو لی بھی چھپی ہو ئی ہے۔نئی کر نسی کی خواہش کی وجہ سے ارتکاز ِ دولت اور مال و دولت سے پیار کی قبیح عادتوں کا رجحان زیادہ ہوتا جارہا ہے۔لوگ مال و دولت سے بہت زیادہ پیار کر تے ہیں۔

نئی کر نسی کو جمع رکھنے اور خرچ نہ کر نے کی عادت بھی سرایت کر تی جارہی ہے۔اور یہ سب خرافات اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں ۔حکومت اور حکومتی بینک کی اس چال کی وجہ سے عوام اپنے اہم اور جائز مطالبات کو بھول کر اس نئی کر نسی کے سُر اب کے پیچھے بھاگتے جا رہے ہیں ۔نہ کو ئی مہنگائی کا رونا روتا ہے ،نہ کو ئی بیروزگاری ،لوڈشیڈنگ امن و امان کی ابتر صورتحال پر نوحہ کناں ہوتا ہے بلکہ رمضان کا آخری عشرہ نئی کر نسی کے حصول کی نذر ہو تا جا رہا ہے۔اگر یہ بچوں کا مطالبہ ہو تا تو پھر بھی بچوں کو اس ذ ہنی علت اور مذہبی احکامات کی رو گر دانی پر سمجھایا جا سکتا تھا مگر عمر رسیدہ اور بظاہر سمجھ دار انسان بھی بچوں کے نام پر اپنی اس قبیح خواہش نفسانی کے گھوڑے کو سَر پٹ دوڑاتے نظر آتے ہیں۔ نئی کر نسی مکمل طور پر ایک شیطانی آلہ کار بن چکی ہے جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی بابر کت ساعتوں میں عوام الناس اور بینک ملازمین کیلئے گناہ کا موجب بن رہی ہے۔بینک ملازمین روزہ رکھ کر مختلف حیلے بہانوں سے اپنے صارفین کو مطمئن کر تے نظر آتے ہیں۔ نہائیت محدودتعداد میں کر نسی ملنے کی وجہ سے وہ محدود صارفین کو بھی سیر نہیں کر سکتے جسکی وجہ سے عوام الناس بھی اس فضول خواہش کیلئے گھنٹوں روزے کی حالت میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔کئی لوگ اس طرح نئی کرنسی کیلئے تڑپتے نظر آتے ہیں جیسے یہ کو ئی" زندگی بچانے والی دوائی" ہو۔نشہ کی حد تک اس علت کو دل و دماغ میں سرایت کر دینے کی اکلوتی ذمہ داری مر کزی بینک (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کی ہے۔

سٹیٹ بینک کو چاہیئے کہ سارا سال نئی کر نسی کی تقسیم معمول کے مطابق کر تا رہے ۔عید الفطر کے نزدیکی ایام میں نئی کر نسی کی سپلائی کی تشہیر بالکل نہ کر ے ۔بازاروں میں نئی کر نسی کے کاروبار اور لین دین کو غیر قانونی قرار دلوانے کیلئے قانون سازی کا فوری مطالبہ کر ے ۔اس کا روبار اور فضول سر گرمی میں ملوث لوگوں کو سزا دینے کی تجویز دے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کو صارفین کی اس فضول لا حاصل خواہش کی تسکین کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کر نے چاہئیں بلکہ لوگوں کی زندگیوں سے اس عادت کو ختم کر نے کیلئے فوری اور مﺅثر اقدامات کر نے چاہئیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ملک ِ پاکستان کے عوام اور بینک صارفین کو قابلِ رشک حد تک ایجوکیٹ کر نا چاہیئے،جس سے نہ صرف بینک صارفین اور مرکزی بینک کی عزت میں اضافہ ہو گا بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اجتماعی طور پر مہذب اقوام کی صف میں شمار ہو گا ۔
اَثر کر ے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد!
Shehryar Ahmed
About the Author: Shehryar Ahmed Read More Articles by Shehryar Ahmed: 16 Articles with 63483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.