اہل صحافت کی اخلاقی قدریں

مجھے”میڈیا ایتھکس“ کے عنوان سے ہی اختلاف ہے‘ کیونکہ کسی پراڈکٹ کی کوئی اخلاقی یا غیر اخلاقی قدریں نہیں ہوتیں ‘اقدار کا تعلق اس پراڈکٹ کے خالق کے قلب وذہن سے ہوتا ہے۔ اس لئے آج کے سیمینار کا موضوع اگر ”اہل صحافت کی اخلاقی قدریں“ یعنی ”جرنلسٹک ایتھکس“ ہوتا تو یہ زیادہ موزوں اور عام فہم ہوتا۔

میڈیا نے کس طرح فروغ پایا اور اس کی تدریجی تاریخ کیا ہے میں اس لاحاصل بحث میں الجھ کر اپنا اور آپ کاوقت ضائع نہیں کروں گا۔میرے آپ اور اس سماج کے لئے اہم یہ ہے کہ آج ”میڈیا“ کس بلا کا نام ہے اور اس کے متاثرین کی حالت زار کیا ہے۔

کبھی ہمارے سماجی رویوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہر شریف آدمی پولیس سے خوفزدہ ہے۔ پھر اخبارات نے جب اپنی اثر پذیری دکھانا شروع کی تو شریف اور ایماندار لوگوں نے قدرے سکھ کا سانس لیا اور وہ کسی اخبار کے نمائندے کو اپنی بپتا سناتے کہ کس طرح انہیں پولیس تنگ کر رہی ہے ۔ ایک سنگل کالمی خبر شائع ہوتی اور پولیس سہم جاتی ‘ اس طرح شریف شہری کے سر سے وقتی طور پر پولیس گردی کا عذاب ٹل جایا کرتا تھا۔ تب معاشرے میں یہ احساس ابھرا کہ پولیس صحافیوں سے بہت ڈرتی ہے اور شریف لوگوں کو صحافت کی صورت میں ایک سہارا مل گیا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے زرد صحافت کا چلن عام ہوا ۔ پھر جہاں ظلم ہوتا وہاں ضرور کوئی نہ کوئی صحافی بھی ملوث ہوتے پایا گیا۔ پولیس اور صحافت دونوں نے آپس میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم کر لی۔ میڈیا اس قدر ترقی کرتا گیا کہ حرف مطبوعہ غیر موثر اور بولا گیا جملہ موثر ہوگیا قلم‘ قرطاس پیچھے رہ گئے اور کیمرہ اور سکرین آگے آگئے۔ گزشتہ ایک دیہائی میں پچاس کے لگ بھگ ٹی وی چینلزابھرے ہیں اور ہر چینل 24گھنٹے اپنی نشریات جاری رکھتا ہے۔ اخبار نے ہر روز چھپنا ہوتا ہے لیکن ٹی وی چینلز ہر گھنٹے بعد نیوز بلٹن دیتا ہے اور وقفے وقفے سے ”بریکنگ نیوز“ کا تڑکا بھی جاری رہتا ہے۔آج جس میڈیا سے میرا اور آپ کا واسطہ ہے اس سے پولیس ڈرتی ہے یا نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ شریف لوگ بہت زیادہ خوفزدہ ہورہے ہیں۔

صحافت کبھی مقدس پیشہ بلکہ پیغمبرانہ پیشہ ہوتا تھا۔ پھر یہ کاروبار بن گیا اور اب یہ باقاعدہ ”مقتدر“ حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا گروپس معرض وجود میں آچکے ہیں۔اب یہ کاروبار کارپوریٹ بزنس کی شکل میں آگے بڑھ چکا ہے اور اس سے بڑھ کر اب حکومتیں گرانے‘ بنانے‘وزیر ہٹانے‘نئی پارٹیاں آگے لانے‘ کرپشن کے راز افشا کرنے‘کرپشن چھپانے سے لے کر انسانی ذہنوں کو کسی پراڈکٹ کی خریداری پرآمادہ کرنے ‘کسی نظریہ کو قبول کرنے‘ دوستوں کو دشمن بنا دینے اور دشمنوں کو دوست قبول کرنے پر آمادہ کرتا اور اپنی ان خدمات کے عوض بے پناہ مالی مفادات حاصل کرتا ہے۔

معاف کیجئے اگر میں یہ کہوں کہ بڑے بڑے کاروباری گروپوں نے اپنے جائز ناجائز کاروبار اور کاروباری مفادات کے تحفظ کےلئے ٹی وی اور اخبار کو اپنی ڈھال بنا لیا ہے۔ جس طرح سیمنٹ اور شوگر بنانے والوں نے اپنی ایسوسی ایشن بنا لی ہیں‘ اسی طرح میڈیا گروپس نے اپنے جتھے بنا لئے ہیں۔ان جتھوں کا کام حکومتوں سے سودے بازی کرکے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنا ہے۔آج ناظرین اور قارئین کے ذہنوں میں انفارمیشن کے نام پر جو کچرا بھرا جارہا ہے اس ملغوبے کا انتخاب دس بارہ انسانوں کے مفادات کے تابع ہوتاہے۔ کارکن‘ صحافی ‘کالم نگار ‘اینکرپرسن اورکیمرہ مین ‘یہ تو محض کٹھ پتلیاں رہ گئی ہیں۔

میڈیا مالکان جس طرح چاہیں انہیں استعمال کریں اور جب چاہیں استعمال کرکے ٹشو پیپرز کی طرح پھینک دیں۔ جس طرح فلم انڈسٹری میں اداکارائیں اور اداکار بک ہوتے ہیں اسی طرح میڈیا سے وابستہ دانشوران رات کی تاریکیوں میں ”ہائر“ہوتے ہیں۔بھاﺅ تاﺅ‘ کس کا میڈیا ٹرائل کرنا ہے ‘کسی کی کس سے ملاقات کرانی ہے ‘ کس کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ سب معاملات ”انڈرورلڈ“ کے معاہدوں کی طرح طے پاتے ہیں۔

ہمیں قبول کرلینا چاہئے کہ میڈیا اب ایک باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے ایک ایسی انڈسٹری جو ٹیکس تو نہیں دیتی لیکن منافع بہت کماتی ہے۔ جس کی بلیک میلنگ پاور کے سامنے کئی ”مَلک“ اور کئی ”ملک“ عاجز ہیں۔میڈیا کا کوئی توڑ نہیں میڈیا کا علاج مزید میڈیا ہے۔ جس طرح پاور مزید پاور کا تقاضا کرتی ہے۔
میڈیا انڈسٹری ہے اور انفارمیشن اس کی پراڈکٹ ہے۔ جس طرح صارف اورخریدار کا یہ حق ہے کہ وہ برگر کی کوالٹی دیکھ کر پیسے دیتا ہے اسی طرح صارفین جو کہ ناظرین اور قارئین ہیں ان کا بھی یہ حق ہے کہ وہ انفارمیشن کی کوالٹی یعنی کریڈیبلٹی کا تقاضا کریں لیکن یہ واحد پراڈکٹ ہے جس کے خریداروں کو حق خریداری سے بھی محروم کردیاگیا ہے۔ انفارمیشن کے نام پرڈس انفارمیشن‘ مس انفارمیشن ‘ایکسس انفارمیشن‘ اینگلڈ انفارمیشن‘ ٹارٹڈ انفارمیشن اور خدا جانے کون کون سی ٹریٹمنٹ سے گذاری گئی انفارمیشن ہمارے کانوں میں‘ ذہنوں میں ٹھونسی جاتی ہے اور ہم مجبور ہیں کہ جو بھی چینل لگائیں کسی نہ کسی طرح ہمارے دل و دماغ مجروح ضرور ہوتا ہے۔

پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اخلاقیات کا دائرہ اگر کھینچنا ہے تو پھر جیتے جاگتے انسانوں کو مخاطب کیجئے‘صحافیوں یعنی کارکن صحافیوں کے ضمیر کو جھنجھوڑئے‘اگرچہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مالکان کے مفادات کے سامنے بڑے بڑے سورما قسم کے اینکر پرسن اور کالم نگار بے بس ہیں اور جب وہ سوچتے ہیں کہ وہ مالکان کے لئے عوام کے ذہنوں میں جھوٹ بھر رہے ہیں تو پھر بہتی گنگا میں خود بھی ہاتھ دھونے کو جی چاہتا ہے پھر بھی یہی وہ کارکن ہیں جن کو آپ اقدار اور اخلاقیات کا واسطہ دے سکتے ہیں۔ورنہ پرتشدد مناظر‘ناپاک رشتوں پر مبنی ڈائیلاگ‘ملک وقوم کے خلاف زیر آلودہ انکشافات اور کرپشن کو ختم کرنے کی بجائے کرپشن کو کلچر بنانے والے ٹاک شوز سے جان چھڑانا ممکن ہی نہیں رہے گا۔

میڈیا بہت ترقی کر گیا لیکن اس ترقی کا فائدہ کس کو ہوا۔کیا ہمارے سماج میں کرائم ریٹ میں کوئی کمی واقع ہوئی؟ کیا ملک کے اندر قاتلوں کی تعداد کم ہوئی؟ کیا عام اخلاقی اقدار پر عملدرآمد میں تیزی آئی؟ کیا طلاق کی شرح میں کمی ہوئی؟ کیا عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کی نوعیت اور اکثریت میں کمی ہوئی۔کیا جمہوریت کی تطہیر ہوگئی ‘ کیا گڈ گورننس کا چلن عام ہوا‘ کیا مذہبی ہم آہنگی‘تشدد‘ دہشتگردی آخر کوئی ایک پہلو جس کو میڈیا نے صحیح کیا ہو۔ کوئی بھی نہیں کیوں کہ میڈیا کی بنیاد بہتری نہیں ابتری ہے۔ کتے انسان کو کاٹیں تو ان کے نزدیک خبر نہیں‘ انسان کتے کو کاٹے تو جلی حروف میں خبر ہے۔ جس پیشے کی بنیاد ہی شر ہے اس سے خیر کی توقع ہوہی نہیں سکتی۔ صحافت لفظ صحفیہ سے نکلا اور صحیفہ کا لفظ آتے ہی تقدس اور حرمت کا تاثر ابھرتا ہے۔اب خدارا یا تو لفظ صحافت متروک تصور کیا جائے اور اس کی جگہ لفظ میڈیا ہی پر اکتفا کیا جائے ورنہ لفظوں اور اصطلاحوں کا تضاد ہمیںمزید الجھاﺅ کی طرف لے جائے گا۔

آخری امید اس شعبہ اور پیشہ سے وابستہ افراد ہیں اور ان افراد کے لئے اطلاع پہنچانے‘نیکی کی تشہیر کرنے اور الزام‘ بہتان اور ابہام کے بارے میں قرآنی احکامات بڑے واضح ہیں۔میرا یقین ہے کہ اگر میڈیا سے وابستہ لوگ انسان‘مسلمان اورپاکستانی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو ترجیح دیں اور پیشہ وارانہ ضرورتوں کے خود ساختہ پنجرے سے باہر آجائیں تو یہی کاروبار اس سے وابستہ لوگ معزز اور محسن کہلائیں گے۔

عام انسانوں اور خصوصاً مسلمانوں کو قرآن حکیم میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی افواہ یا بات سنو تو پہلے اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ گمان مت کرو کہ بعض گمان گناہ کے قریب لے جاتے ہیں۔ انتہائی شاندار حکم میں مزید فرمایا گیا”جب بھی بات کرو تو اچھی بھلائی والی بات کرو“”ایک دوسرے کی کھوج میں مت رہو“بہتان اور غیبت پر تو انتہائی سخت تنبیہہ فرمائی گئی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک صحافی‘اینکرپرسن اور کالم نگار کے لئے سب سے پہلے انسان‘ مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اگر یہ ذمہ داریاں پوری کرنے کی ہمت پیدا ہوجائے تو پھر” میڈیا ایتھکس“ کے حوالے سے ابھرنے والی ضرورتیں خود بخود پوری ہوجائیں گی۔

میں واضح کرتا چلوں کہ تمام میڈیا پرسنز ایسے نہیں ہیں‘ ایسے صاحب کردار کالم نگار اور اینکرپرسنز موجود ہیں جو آج بھی ”لشکر یزید“ میں ہیں لیکن وہ اپنی انسانی‘ اسلامی اور پاکستانی ذمہ داریاں پوری قوت سے نبھا رہے ہیں۔معاشرہ ان کی استقامت کو سلام پیش کرتا ہے۔ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اور آج آرگنائزیشن فار ورلڈ پیس کے اکابرین خصوصاً عابد علی عابد اور ہمارے بہت ہی قریبی دوست جناب شیخ نثار حسین اور علی عباس مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بپھرے ہوئے میڈیا کے لئے ایتھکس کی حدیں تلاش کرنے کے لئے کم از کم اس محفل کا اہتمام تو کیا ہے۔ہمارا غیر مشروط تعاون ان کے ساتھ رہے گا کہ قرآن کا حکم ہے
ترجمہ:نیکی اور بھلائی میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور برائی میں تعاون مت کرو(القرآن)
Dr Murtaza Mughal
About the Author: Dr Murtaza Mughal Read More Articles by Dr Murtaza Mughal: 11 Articles with 8666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.