گلگت بلتستان کو بچایا جائے

عید الفطر کے دنوں کاغان کے بالائی لولوسر جھیل کے علاقے میں دہشت گردوں کے ایک حملے میں متعدد مسافر جاں بحق ہو گئے۔اس اندوہناک واقعہ سے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور تمام گلگت بلتستان میں سخت کشیدگی پھیل گئی۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب گلگت بلتستان جانے والے مسافروں کو ان کے مذہبی فرقے کی بنیاد پر قتل کیا گیاہے۔اس سے پہلے بھی متعدد بار شاہراہ ریشم پر مسافر بسوں میں سوار معصوم افراد کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر گلگت میں ہونے والے حملے سے صورتحال مزید خراب ہوئی اور گلگت بلتستان میں کئی روز کرفیو کا سا سماں رہا۔اب بھی گلگت بلتستان کی صورتحال غیر یقینی کا شکار ہے۔

گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان اور بھارت کی طرف سے بھی منظور کردہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔گلگت بلتستان کا انتظام1949ءمیں وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت وفاق کے حوالے کر دیا گیا۔اس کے بعد آزاد کشمیر کو وفاق کی طرف سے ایسے حکومتی سیٹ اپ ملے جس میں آزاد حکومت کا دائرہ کار آزاد کشمیر کی حد تک ہی محدود کر دیا گیا اور اسی وجہ سے آزاد کشمیر سپریم کورٹ کو اس بات سے ہٹ کر فیصلہ کرنا پڑا کہ آزاد کشمیر حکومت گلگت بلتستان کا انتظام حاصل کرنے کے لئے وفاقی حکومت سے رجوع کرے۔گلگت بلتستان کا ایک عوامی طبقہ اس علاقے کو ریاست کشمیر کا حصہ قرار دیتا ہے اور دوسرا عوامی طبقہ ریاست کشمیر سے لاتعلقی اور فوری بنیادوں پر پاکستان میں مکمل شمولیت کا مطالبہ کرتا ہے۔آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان کو بھی وفاق کی طرف سے فراہم کردہ آئین دیا گیا ہے ۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئین میں فرق یہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے اپنے آئین کو اسمبلی سے منظور کرایا ہے جبکہ گلگت بلتستان اسمبلی سے اس کے آئین کی منظوری نہیں لی گئی۔گلگت بلتستان کے عوام عشروں سے مقامی حقوق تفویض نہ کرنے کے شاکی ہیںاور اس بات کا وہاں کے عوام میں گہرا احساس پایا جاتا ہے۔

پاکستان کے لئے گلگت بلتستان کی انتہائی اہمیت کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس وقت کی صورتحال کے مطابق بھارت لائین آف کنٹرول(جنگ بندی/سیز فائر لائین)کے آخری طے شدہ پوائنٹNJ9842سے سیاچن گلیشئر کے آخر تک کے علاقے پر قابض ہے۔دوسری طرف جنرل ضیاءکے دور سے ہی گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی گئی۔یہ بات نہ صرف افسوسناک بلکہ ایک قومی المیہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت آٹھ دس لاکھ کی آبادی والے اس علاقے کا مناسب انتظام اور دیکھ بھال نہ کر سکی جہاں کے غیور عوام نے کرنل حسن خان،میجر بابر اور کیپٹن حیدر کی سربراہی میںگلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا اور درہ تراگبل اور بانڈی پورہ کی پہاڑی ڈھلوانوں تک ڈوگرہ اور انڈین آرمی سے بے سروسامانی کے عالم میں برسرپیکار رہے اور انہیں شدید نقصان سے دوچار کیا۔مملکت پاکستان کے لئے غیر متزلزل ایمان رکھنے والے گلگت بلتستان کے چند لاکھ عوام کے ساتھ اس طرح کا روئیہ کسی طور بھی قومی مفادمیں نہیں بلکہ قومی مفادات کو شدید نقصان سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

یہ عمومی مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئین سازی کے عمل میں شریک کیا جائے،وہاں کی حکومت کو مکمل اندرونی امور کا اختیار دیا جائے،وہاں بااختیار اور ذمہ دار حکومت کا قیام یقینی بنایا جائے،اس متنازعہ خطے کو پاکستانی سیاسی جماعتوں کی منفی سیاست کا اکھاڑہ نہ بنایا جائے،گلگت بلتستان کو مکمل مالیاتی حقوق بھی دیئے جائیں بشمول پانی و بجلی کی رائلٹی وغیرہ،علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے حسب ضرورت فنڈز فراہم کئے جائیں،فرقہ وارانہ کشیدگی ختم کرانے کے اقدامات علاقہ کے عوام کے تعاون سے کئے جائیں،غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا جائے۔ہمیں یقین ہے کہ ان مخلصانہ اور وسیع تر قومی مفادات پر مبنی ان اقدامات سے نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ تشویش دور ہو گی، مشکلات کے خاتمے کی راہموار ہوگی،عوام میںوفاق پر اعتماد میں اضافہ ہوگا اور یہ خطہ ملک و قوم کے لئے ایک اہم طاقت ثابت ہو گا۔تاہم گلگت بلتستان کے ان تمام امور کی کنجی وفاقی حکومت اور مسلح افواج کے پاس ہے ۔اور عوام کے یہ مطالبات مبنی بر حق اور وسیع تر قومی مفادات کے حق میں ہیں جنہیں پاکستان میں بری طرح نظر انداز کرنے کی رسم چل نکلی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699341 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More