مولانا محمد الیاس گھمن
رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے کے بعد اب شوال میں دینی علم کی نورانی
تجلیوں کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنے کے لیے طالبین علم مدارس کا رخ کر رہے
ہیں۔مختصر سا زادِراہ ساتھ لیے سفر کی صعوبتیں جھیل کر علومِ نبوت کے حصول
کے لیے جوق در جوق چلے آئے ہیں، انہیں دیکھ کر مجھے 93ھ میں ایک 16 سالہ
طالب علم کا منظر یاد آنے لگا کہ اپنے والد گرامی کے ہمراہ سفر حج پر آیا
ہوا ہے ۔
کہنے لگا ابو جان !میں نے ایک سن رسیدہ بزرگ کو دیکھا ہے جس کے اردگرد
لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہے ،ابو بتائیے یہ بزرگ کون ہیں ؟والد نے جواب دیا
بیٹا !یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔
ابو جان !ان کا نام کیا ہے ؟
بیٹا! ان کا نام عبد اللہ بن الحارث جزء الزبیدی ہے ۔نوجوان اپنے والد کو
کہنے لگا ،پھر ابو جان مجھے بھی ان سے ملا دیجیئے۔تاکہ میں ان سے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم حدیث سن سکوں !
والد اپنے بیٹے کا ہاتھ تھا مے مجلس حدیث میں لے جاتا ہے ۔نوجوان کہتا ہے
جب میں اس بزرگ کے قریب پہنچاتو وہ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:” جس کسی نے دین الٰہی میں تفقہ حاصل کر لیا اللہ
تعالیٰ اس کو فکر رزق سے اس طرح سبک دوش کر دے گا کہ اس کے وہم وگمان میں
بھی نہیں ہو گا ۔
جامع بیان العلم وفضلہ
یہ 16سالہ نوجوان جس نے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن الحارث بن جزاء
الزبیدی اس حدیث کو براہ راست سنا اور اس کو اپنے علم کے لیے بنیاد قرار
دیا ۔ اسے دنیا سرتاج الفقہاءوالمحدثین امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت
کے نام سے یاد کرتی ہے ۔
طلباء برادری کی اکثریت میں ہمیں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو غربت زدہ ہوتے ہیں
۔پھٹے پرانے ۔۔۔۔مگر پاک اور صاف ۔۔۔لباس میں ملبوس دینی کتب کو سامنے لیے
بالکل با ادب ہوئے سبق کا تکرار کر رہے ہوتے ہیں ۔راقم چونکہ خود بھی دینی
مدارس کا خوشہ چین ہے ۔مجھے اپنا زمانہ بھی یاد آنے لگتا ہے ۔۔میں سوچ رہا
تھا کہ کیا ہماری حالت اب ایسی ہو گئی یا ۔۔۔۔؟
اچانک مجھے وہ ایک اونچا سا ٹیلا …… اصحاب صفہ کا چبوترہ …….. یا دآیا جہاں
طالب علم صحابہ کرام بیٹھا کرتے تھے ان پر بھی لباس کی تقریبا ًوہی کیفیت،
وہی مالی وسائل کی قلت ،وہی بھوک اور افلاس ۔
تاریخی جھروکوں سے چند اور طالبعلم بھی میری نظر میں گھومنے لگے ۔
جن کے بارے علامہ ابن عبد البر اندلسی نے اپنی کتاب میں لکھا ”حضرت عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لڑکوں کو پڑھتے دیکھتے تو فرماتے ۔شاباش !تم
حکمت کے سر چشمے ہو اندھیروں میں روشنی ہو، تمہارے کپڑے پھٹے پرانے ہیں مگر
)ہو نہارو( تمہارے دل تروتازہ ہیں تم علم کے لیے )بظاہر (قید ہوئے ہو لیکن
تم ہی قوم کے مہکنے والے پھول ہو۔ “
جامع بیان العلم وفضلہ
ہمارے معاشرہ میں علم دین کی قدردانی برابر مٹتی ہی چلی جا رہی ہے ،دین کے
طلباء کی حوصلہ افزائی کا کہیں نام و نشان تک نہیں ۔دنیاوی فنون کے
طلباءبھی ہمارے بھائی ہیں ہمیں خوشی ہے کہ ان کو انعامات سے نوازا جائے
لیکن کیا”علم دوست “ کہلانے والوں کا یہ جانبدارانہ رویہ طلباء دین کے ساتھ
سوتیلی ماں جیسا سلوک نہیں کہلائے گا۔ یا اندھا بانٹے ریوڑیاں ہِر پھر کے
دے”اپنوں“کو ۔
ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ان جیسے نذرانوں کی قطعاً ضرورت نہیں لیکن”علم
دوستی “کے دعویداروں کو یہ بات نہیں بھلانی چاہیئے کہ علم حقیقی ،علم
مقصودی اصل میں علم دین ہی ہے باقی سب فنون ۔۔۔والسلام |