سات ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے
خصوصی تحریر
عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس اور وہ بنیاد ہے جس پر دین اسلام کی پوری
عمارت کھڑی ہے،یہی وہ عقیدہ ہے جو جسد اسلام کی روح ہے،یہی وجہ ہے کہ اس
عقیدہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر مسلمان ہر دور میں تحفظ ختم نبوت
کیلئے بڑے حساس اور چوکس رہے ہیں،تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب بھی کسی کمینہ
خصلت نے قصر نبوت پر ڈاکہ زنی کی ناپاک جسارت کی تو غیور مسلمانوں کی
تلواریں اللہ کا انتقام بن کر اس کی طرف لپکیں اور اس جہنم واصل کر
دیا،مسلمانوں کی تاریخ اس عقیدے کے تحفظ کیلئے قربانیاں دینے والوں سے بھری
ہوئی ہے،ختم نبوت اتنا اہم مسئلہ ہے کہ قرآن مجید میں سو سے زائد مقامات پر
اس کا واضح الفاظ میں ذکر موجود ہے جبکہ خود رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم
نے کم و بیش دو سے زائد احادیث مبارکہ میں اس امر کی وضاحت مختلف پیرائے
میں کی کہ پوری امت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم نبوت کے مسئلہ پر یکسو اور متحد
ہو گئی اور یہ پوری امت کا متفقہ عقیدہ قرار پایا،حضور ختمی مرتبت صلی اللہ
علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لے کر آج تک ہر دور میں دنیا کے حریص اور طالع
آزماؤں نے جھوٹ،فریب،مکر و دجل اور شعبدے بازیوں سے قصر نبوت میں نقب لگانے
کی جسارت کی،مگر امت مسلمہ اس جعلسازی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ مستعد
رہی،مسیلمہ کذاب،طلیحہ بن خویلد،اسود عنسی سے لے کر مرزا قادیانی تک امت
مسلمہ نے ہر دور میں ان نقب زنوں کا کامیاب تعاقب کیا،1901 میں جب سے مرزا
غلام احمد قادیانی نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیا،تو علماءو
مشائخ نے اس فتنے کے سدباب اور ہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ جاری رکھا۔
بیسویں صدی کا آغاز امت مسلمہ کیلئے جن بدترین حالات میں ہو ا،اس کا آج
تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،لیکن اس تاریک دور میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے
خصوصی فضل و کرم سے امت کو ایسے افراد سے نوازا جنھوں نے کفر و طاغوت اور
ظلم و استحصالی نظام کے خلاف ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑی،اُن نفوس قدسیہ
میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو ایک ممتاز اورمنفرد مقام حاصل
ہے،علامہ شاہ احمد نورانی کی زندگی اسلام کے عملی نفاذ،دینی قوتوں
اورجمہوری اداروں کی فروغ وبقاء،پاکستان کے استحکام و سا لمیت،مسلم وحدت کی
مسلسل جدوجہد،احیائے اسلام اور کفر کے خلاف عالم اسلام کی بیداری سے عبارت
ہے،یکم اپریل 1926 میں مبلغ اسلام سفیر پاکستان حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم
صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کے گھر پیدا ہونے والے اس فرزند ارجمند نے زندگی بھر
اپنے ایمان،ضمیر اور نسبی تقاضوں کوسامنے رکھ کر احقاق حق اور ابطال ِ باطل
کی شمع روشن رکھی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ اسلام اور
پاکستان دشمن قوتوں کے آگے آہنی چٹان کی مانند کھڑے رہے، مولانا شاہ احمد
نورانی کی زندگی کا واحد مشن ملک خداداد پاکستان میں نظام مصطفی کا نفاذ
اور مقام مصطفی کا تحفظ تھا،آپ پہلی بار1971 میں جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ
پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور15 اپریل 1972 کو قومی اسمبلی کا سہ
روزہ افتتاحی اجلاس کے پہلے ہی روز ہی جمعیت علماءپاکستان کے پارلیمانی
قائد کی حیثیت سے عبوری آئین کے حوالے سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو اپنا
موضوع گفتگو بنایا،یہ پاکستان کی تاریخ میں قومی اسمبلی کے فلور پر عقیدہ
ختم نبوت کے تحفظ میں بلند ہونے والی سب سے پہلی آواز تھی،قومی اسمبلی میں
اپنے اوّلین خطاب میں علامہ نورانی نے آئین کے اندر مسلمان کی تعریف شامل
کرنے کا پر زور مطالبہ کیا اور کہا کہ ”جو لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہم ان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔“آپ کے اس
مطالبے کا مقصد پاکستان کے اس اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر عقیدہ ختم نبوت
کے مخالف قادیانیوں اور غیر مسلموں کے فائز ہونے کے امکانات کا ہمیشہ ہمیشہ
کیلئے خاتمہ تھا ۔
دراصل علامہ نورانی کا آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ
قادیانیوں کو کافر اور غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کانقطہ آغاز اور
1974 کی تحریک ختم نبوت کی بنیادی اساس تھا،اس اجلاس میں مولانا نورانی نے
مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلمان وہ ہے کہ جو کتاب وسنت اور
ضرویات دین پر یقین رکھتا ہو اور قرآن کو ان تشریحات کے مطابق مانتا ہو جو
سلف صالحین نے کی ہیں،نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتا
ہو،اگراسلامی آئین میں مسلمان کی یہ تعریف شامل نہ کی گئی تو ہم ایسے آئین
کو اسلامی آئین نہیں کہیں گے۔“چنانچہ 17 اپریل 1972 کو جمعیت علماءپاکستان
اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مسلمان کی جامع تعریف کو پہلی بار اسمبلی میں
پیش کی گئی،جسے بعد میں 1973 کے آئین میں شامل کرلیا گیا،علامہ نورانی کی
کوششوں کی بدولت مسلمان کی تعریف پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکی تھی اور
آئین میں اس تعریف کی شمولیت نے قادیانیوں کو ایک ایسی غیر مسلم اقلیت قرار
دے دیا تھا،جس کا مستقبل میں صرف اعلان ہونا ہی باقی رہ گیا تھا،دوسری طرف
اس تعریف کی شمولیت سے قادیانیوں کو بھی یقین ہو چلا تھا کہ وہ ایک غیر
اعلانیہ غیر مسلم اقلیت قرار پاچکے ہیں،علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان کی
پارلیمانی اور آئینی تاریخ میں پہلے سیاستدان تھے،جنہوں نے سب سے پہلے آئین
میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور آپ نے آئین سازی کیلئے
قائم کمیٹی میں سب سے پہلی ترمیم مسلمان کی تعریف اور اسلام کو ریاست کا
سرکاری مذہب قرار دینے سے متعلق پیش کی ۔
مولانا نورانی کو منکرین ختم نبوت قادیانیوں اور قادیانیت سے شدید نفرت تھی
اور اسی نفرت نے انہیں زندگی بھرفتنہ قادیانیت کے خلاف مصروف جہاد
رکھا،قیام پاکستان کے بعد اُمت مسلمہ کو امید تھی کہ ایک اسلامی نظریاتی
ملک ہونے کی وجہ سے حکومت وقت عوام کے مذہبی جذبات و احساسات کا خیال کرتے
ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے گی،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا
اور وقت کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہوتا
چلا گیا،یہاں تک قادیانیوں کی اسلام اور ملک دشمن سرگر میوں کی وجہ سے اُمت
مسلمہ کی نفرت نے 1953 کی تحریک ختم نبوت کو جنم دیا،جسے حکومت نے طاقت کے
بل پر وقتی طور پر دبالیا،لیکن قادیانی ذرّیت سے یہ نفرت اُمت مسلمہ کے
دلوں میں سلگتی رہی،علامہ نورانی جو کہ نوجوانی میں تحریک ختم نبوت 1953
میں جید اکابر علماء کے ساتھ”علماءبورڈ کے ممبر اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت
سندھ کے جنرل سیکرٹیری“کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کرچکے تھے،اس تحریک کی
ناکامی کے اسباب و عوامل سے پوری طرح واقف تھے، چنانچہ آپ نے تحفظ ختم نبوت
اور عظمت مصطفی کو مملکت کا قانون بنانے اور آئینی تحفظ دینے کیلئے کام
کرنا شروع کردیا،اس سفر کی کامیاب ابتداء آئین میں مسلمان کی تعریف کی
شمولیت،ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ،دیگر اسلامی دفعات کو آئینی تحفظ دینے
کے علاوہ عائلی قوانین کی تنسیخ،تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کیلئے مسلمان
ہونے کی شرط،فتنہ ارتداد کو روکنے کی ضمانت حاصل کرنے اور پاکستان کے دستور
کو دو قومی نظریے سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں سے ہوچکی تھی اور آپ اپنے
اہداف پر نظر رکھے ہوئے مرحلہ وار اس منزل کی جانب رواں دواں تھے ۔
دوسری جانب مرزائی آئین میں مسلمان کی تعریف کی شمولیت سے پہلے ہی سخت
پریشان تھے کہ 29 اپریل 1973 کو آزاد کشمیر اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر
مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد کی منظوری نے ان کے تمام خدشات کو یقین
میں بدل دیااور انہیں محسوس ہونے لگا کہ عنقریب اب پاکستان کی قومی اسمبلی
میں موجود علماء ان کے مستقبل کے بارے میں قرار داد پیش کرکے ان کیلئے رہے
سہے راستے بھی بند کردیں گے،اس صورتحال نے مرزا ناصر کو اس قدر سیخ پا
کردیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہذیان بکنے لگا،اتفاق سے اسی دوران سانحہ
ربوہ پیش آگیا،جس نے قادیانیوں کے خلاف عوامی نفرت کو مزید گہرا کردیا،بعد
میں یہی سانحہ تحریک ختم نبوت 1974 کی اصل بنیاد بنا،علامہ شاہ احمد نورانی
جو کہ تمام حالات کا نہایت ہی باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے،نے محسوس کیا
کہ اب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے آئینی اور قانونی جنگ
لڑنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے،چنانچہ آپ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت
قرار دینے کی تاریخ ساز قرار داد تیار کرکے 30،جون 1974 کو متفقہ اپوزیشن
کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی،جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا
اور مزید کاروائی کیلئے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی جو کہ پورے ایوان پر
مشتمل تھی،تشکیل دے دی ۔
اس کمیٹی نے دو ماہ میں قادیانی مسئلے پر غور خوض کیلئے 28 اجلاس اور 96
نشستیں منعقد کئے،اس دوران قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے روبرو قادیانی
گروہ کے سرخیل مرزا ناصر،لاہوری گروپ کے امیر صدرالدین اور انجمن اشاعت
اسلام لاہور کے عبدالمنان اور مسعود بیگ پر ان کے عقائد و نظریات،ملک دشمنی
اور یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ کے حوالے سے جرح ہوئی،علامہ نورانی فرماتے ہیں
کہ”مسلسل گیارہ روز تک مرزا ناصر پر جرح ہوتی رہی،اور سوال اور جوابی سوال
کیا جاتا رہا،مرزا کو صفائی پیش کرتے کرتے پسینہ چھوٹ جاتا اور آخر تنگ آکر
کہہ دیتا کہ بس اب میں تھک گیا ہوں،اسے گمان نہیں تھا کہ اس طرح عدالتی
کٹہرے میں بٹھاکر اس پر جرح کی جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنا عقیدہ خود اراکین
اسمبلی کے سامنے بیان کرگیا اور اس بات کا اعلان کرگیا کہ مرزا(غلام احمد
قادیانی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود اور امتی نبی ہے،جن
اراکین اسمبلی کو قادیانیوں کے متعلق حقائق معلوم نہیں تھے،انہیں بھی معلوم
ہوگیا اور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ مولانا نورانی جنہیں اقلیت قرار
دلوانے کی سعی کررہے ہیں وہ لوگ واقعی کافر،مرتداور دائرہ اسلام سے خارج
ہیں۔“قادیانی مسئلے پر فیصلہ کرنے کیلئے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے
قادیانی مسئلہ کو جانچنے اور پرکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں
چھوڑا،کمیٹی کی کارکردگی اور اس کی کاروائیوں پر حزب اختلاف کے لیڈروں نے
بھی پورے اطمینان کا اظہار کیا،اس طویل جمہوری و پارلیمانی کاروائی کے بعد
قومی اسمبلی نے پورے تدبر سے کام لیتے ہوئے 7،ستمبر 1974 کو وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں آئین کی وہ واحد دوسری ترمیم منظور کی جس
کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت
قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جو شخص خاتم الانبیاءحضرت
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حتمی اور غیر مشروط ختم نبوت میں یقین
نہیں رکھتا یا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،کسی بھی لفظ یا بیان کے ذریعے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ایسے دعویدار کو نبی تسلیم کرتا
ہے،یا کہ مذہبی مصلح جانتا ہے،وہ آئین یا قانون کی رو سے مسلمان نہیں ہے ۔“
یوں مولانا شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرار داد کی منظور ی نے ختم نبوت
کے ہر منکر کو خارج اسلام قرار دے دیا،آپ کے ہاتھوں پاکستان کی قومی اسمبلی
کے ذریعے اس نوے سالہ فتنے کا اختتام ہوا اور تحریک ختم نبوت اپنے منطقی
انجام تک پہنچی، پروفیسر مفتی منیب الرحمن چیئرمین رویت ہلال کمیٹی لکھتے
ہیں کہ ”علماء اُس سے پہلے بھی موجود تھے......مگر یہ سعادت ماضی میں کسی
کے حصے میں بھی نہیں آئی،تاریخ پاکستان میں پہلی بار ایک مرد حق،پیکر صدق و
صفا،کوہ استقامت اور حاصل جرات و شجاعت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی اسمبلی
میں پہنچے اور فتنہ انکار ختم نبوت یعنی قادیانیت کو کفر و ارتداد قرار
دینے کی بابت قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی،تاریخ
اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفر و ارتداد
قرار دینے اور ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ
اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز
انہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔“بے شک
علامہ شاہ احمد نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے
سردار ہیں،آپ نے مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کیلئے بے پناہ
خدمات سرانجام دیں اوراپنی جان کی پرواہ کئے بغیر زندگی کے آخری لمحے تک
اپنے موقف پر ڈتے رہے ۔ |