ڈینگی اور ہماری حکومتیں

خادم اعلیٰ پنجاب نے صوبہ بھر کے سکولوں میں آدھی بازو کی شرٹس اور نیکر پر فوری طور پر پابندی لگادی ہے۔ انہوں نے یہ جذباتی اور فوری فیصلہ ڈینگی کے حملے سے بچاؤ کے لئے کیا۔ پنجاب میں اتوار کو ”ڈینگی ڈے“ منایا گیا، تمام سرکاری ملازمین کو ڈیوٹی پر آنے کے لئے پابند کیا گیا تھا، کونسا محکمہ ہوگا جس نے ’واک‘ یا ’سیمینار ‘ منعقد نہ کروایا ہو، تصاویر بنوائی گئیں، اخبارات میں شائع کروانے کے اہتمام کئے گئے، ڈینگی کے بارے میں آگاہی دی گئی، اس کی علامات اور بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کیا گیا۔ خادم پنجاب خوش ہوئے اور کہا کہ ڈینگی کے خلاف مہم اب تحریک بن چکی ہے۔

کہا گیا کہ اتوار کو اگر یہ آگاہی مہم برپا نہ کی جاتی ، اس کا انعقاد پیر کو کر لیا جاتا تو یقینا بہت ہی زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا جاسکتا تھا، مثلاً سکولوں کا ہی حساب لگا لیں طلبا و طالبات کی تعداد کروڑوں میں ہوگی، مگر اتوار والی آگاہی مہم میں یہ طبقہ شامل نہ تھا، اسی طرح دفاتر میں سائل اور دوسرے لوگ موجود نہ تھے۔ اگر یہ سب کچھ ہوجاتا تو عوام کو یہ کیسے معلوم ہوتا کہ حکمرانوں کے دل میں جو بات بھی آ جائے وہ اس پر عمل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں، وہ چاہیں تو اتوار کو بھی سرکاری دفاتر کی رونقیں قائم کرسکتے ہیں، یہی ان کی رٹ ہے۔ ناقدین اور مخالفین کا تو کام ہی تنقید کرنا ہے، کام خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ، یا ر لوگ اس میں سے بھی کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں۔

بات شروع ہوئی تھی ، بچوں کی شرٹس اور نیکر سے ، خادم پنجاب کا یہ خیال ہے کہ جسم اگر پورا ڈھانپا ہوا ہوگا تو ڈینگی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، اللہ کرے یہ بچے ڈینگی سے محفوظ ہی رہیں، (شاید یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ گزشتہ برس ڈینگی کے شدیدحملے سے متاثر ہونے والوں میں شاید بچوں کا کہیں ذکر نہیں تھا) خیر بچے معصوم اور کمزور ہوتے ہیں، انہیں زیادہ حفاظتی بندوبست کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے پورے بازو کی شرٹ پہننے اور نیکر کی جگہ پتلون پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اتوار کو تمام سرکاری ادارے کھول کر آگاہی دینے میں اگرچہ کروڑوں روپے صرف ہوئے ہونگے ،مگر ان کے سوچے ہوئے کو تبدیل کرنا بھی ممکن نہیں۔

ہمیں جس بات نے پریشان کیا ہے وہ یہی آدھی بازو والی شرٹ ہے۔ صوبائی حکومت اس پر پابندی لگارہی ہے، وفاقی حکومت اس کے بالکل برعکس اقدام کررہی ہے، وفاقی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے ذریعے قوم کو جس لباس پہننے پر مجبور کردیا ہے ، اس کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ لوڈشیڈنگ اور شدید ترین حبس کے موسم میں پورے کپڑے پہننا تو بہت دور کی بات ہے ، خود ستر ڈھانپنے کو ہی غنیمت سمجھا جائے تو بہتر ہے، پہلے کرتا دھوتی کا کچھ تصور پایا جاتا تھا، حبس بڑھا تو کرتے کی جگہ بنیان نے لے لی۔ بنیان کی کہانی الگ ہے، جسم سے چمٹ جاتی ہے تو پسینے کے عالم میں اور بھی عذاب بن جاتی ہے۔ گرمی اور حبس نے مزید جلوہ دکھایا تو بنیان بھی رخصت ہوئی ، صرف دھوتی کا سہارا رہ گیا، نوجوان اور ماڈرن طبقہ نے گھٹنوں تک کی نیکر سے ہی کام چلایا، یہ الگ بات ہے کہ دھوتی بقول عطاءالحق قاسمی ”کھلے ہوادار کمروں“ کی مانند ہوتی ہے، جبکہ نیکر میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔

قوم کدھر جائے ، پورے کپڑے پہنتی ہے، تو گرمی سے جان جاتی ہے، کیونکہ بجلی کا گزر تو گھر میں کسی وقت ہی ہوتا ہے، لوڈشیڈنگ ایک عذاب کی طرح قوم پر مسلط ہے۔ اگر لوگ پورے کپڑے نہیں پہنتے تو خادم پنجاب کے غیظ وغضب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور ڈینگی بھی موت کا ٹیکہ لگانے کے لئے تیار رہتا ہے، دونوں طرف موت ہی سامنے کھڑی ہے۔ مگر یہ حکمران لوگ اس موسم میں بھی کوٹ ہی میں کیسے ملبوس رہتے ہیں؟ وہ ڈینگی سے بھی محفوظ ہیں اور گرمی سے بھی، کیا کبھی یہ نسخہ عوام کے ہاتھ بھی لگے گا؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429557 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.