کشمیر وہ مملکت ہے جس کی سرحدیں
تیسری صدی قبل مسیح میں شمال میں کاشغر اور ختن تک اور مغرب میں کابل اور
کندھار تک پھیلی ہوئی تھیں ،مہاراجہ للتا دت نے 650ء732ءتک کشمیر پر
حکمرانی کی ۔اس کے دور میں کشمیرمشرق میں قنوج تک ،مغرب میں پشاور تک ،شمال
میں بخارا تک اور جنوب میں گندہارا تک پھیلا ہوا تھا ۔آٹھویں صدی عیسوی میں
720ءکشمیر میں راجہ چندر اپیڈ کی حکمرانی تھی ۔مغل بادشاہ نے اٹھ بار کشمیر
پر یلغار کی تب اسے 1586 ءمیں کامیابی نصیب ہوئی ،فاتح محمود غزنوی نے 17
بار ہندستان پر حملے کیے اور ہر بار کامیاب رہا لیکن کشمیر پر غزنوی نے
2بار حملے کیے اور دونوں بار ناکام رہا ۔جموں کشمیر بر صغیر کی وہ پہلی
ریاست تھی جسے 1930 ءکی دہائی میں انتخاب کے ذریعہ قانون ساز اسمبلی چننے
کااختیار ملا۔آج کے دور میں کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ یہ رقبہ کے لحاظ سے
دنیا کے 110آزاد ممالک سے بڑی ہے اور آبادی کے لحاظ سے 135 ممالک اس سے
چھوٹے ہیں ۔جغرافیائی لحاظ سے کشمیر کو ایک اہم مقام حاصل ہے یہ براعظم
ایشیاءکے تقریباً مرکز میں واقع ہے ۔
دنیا میں کئی ملک ایسے ہیں جو اپنے چند وسائل پر یا صرف ایک ذریعہ آمدن پر
ترقی کی بہترین منزلیں طے کر رکہ خوشحالی کی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں آئس
لینڈ ،مڈغاسکر ،ماریشس،،سعودی عرب،بہا ماز،نمیبیا اور سوٹرز لینڈ جیسے بہ
سے ایسے مثالی ملک ہیں جن کا ذریعہ آمدن چند وسائل پر ہے ان ممالک سمیت
بیشتر ممالک ایسے ہیں جن کی بنسبت ریاست جموںو کشمیر کے پاس وسائل حد سے
زائد ہیں لیکن اس خطہ کے وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ اس
ریاست کو مختلف حصوں مں تقسیم کر دینا اور ان حصوں پر ایسے لوگوں کو حکمران
مسلط کر دیا گیا ہے جو ریاست کے وسائل کو لوٹنے کے سوا کوئی اور کام نہیں
کر رہے ۔ریاست کے پاس آبی وسائل ،معدنیات کے بیش بہا خزانے ،قدرت کی طرف سے
کشمیر کو عطا ہونے والی جڑی بوٹیوں سمیت دیگر نعمتیں اور سیاحوں کیلئے''
جنت نظیر کشمیر ''۔ریاست جموںوکشمیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پر
قدرت نے صرف پانی کی جو نعمت عطا کی ہے اگر اس نعمت کا ہی سہارا لیا جائے
تو ریاست کو مختصر سے عرصہ میں اقتصادی طور پر بام عروج پر لے جایا جا سکتا
ہے ۔
کشمیر میں بلند ترین چوٹیوں کی تعداد 300سے زائد جن میں کے ۔ٹو ،نانگاپربت،گیشر
بروم1 سے4،بروڈ پیک،دست غل سر،راکا پوشی،کارنکو و دیگر شامل ہیں ان کے
علاوہ ریاست کشمیر میںگلیشیئرز کی تعداد 86کے قریب ہے جن میں سیاچن
گلیشئر،بلتورو گلیشئر،ہسپر گلیشئر،ریمو گلیشئر،بیافو گلیشئر،چوغا لنگما
گلیشئر ودیگر شامل ہیں ۔ ان چوٹیوں و گلیشئرز پر ہر سال موسم سرما میں برف
جمع ہوتی ہے جو موسم گرما میں پگل کر ندی نالوں کے ذریعے دریاﺅں کی شکل
اختیار کر لیتی ہے ۔کشمیرمیں چھوٹے بڑے دریاﺅں کی تعداد بھی 45کے قریب ہے
جن میں دریائے سندھ،دریائے شیوک ،دریائے گلگت،دریائے نیلم (کشن گنگا)دریائے
جہلم ،دریائے پونچھ ،دریائے چناب اور دریائے راوی شامل ہیں ۔ یہ پانی
زمینوں کو زرخیز کرنے کے علاوہ ،بجلی پیدا کرنے کا بھی بڑا ذریعہ ہے یہاں
پر ہائیڈرل الیکٹرک پاور کے کچھ مزید منصوبے بھی لگاکر اپنی ضرورت کو پوری
کرنے کے بعد ہمسایہ ممالک کو بجلی کی فروخت کر کہ بھاری زرمبادلہ کمایا جا
سکتا ہے ۔ کوہالہ کے مقام پر زیر زمین ہائیڈرل پراجیکٹ کا کام دوست ملک چین
کے تعاون سے شروع ہو چکا ہے جوپانی کی اہمیت کی واضح مثال بھی ہے ۔منگلا
ڈیم کی رائلٹی اربوں روپے سالانہ بنتی ہے لیکن ہمارے حکومتی نظام کی
کمزوریوں اور سیاستدانوں کی نا اہلیوں کی وجہ سے کشمیری اس رائلٹی سے ہی
نہیںبلکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی مثتثنی نہیں ہو پارہے ۔جبکہ حکومت
پاکستان صرف آزاد کشمیر میں ہی 15مزید ڈیم بنانے کا منصوبے پر کام کر رہی
ہے ۔
ریاست کشمیر میں قدرت کی مہربانیاں مختلف قیمتی معدنیات کی صورت میں بھی
موجود ہیں جن میں لوہا ،کائلہ ،گریفائٹ ،سنگ مر مر،جپسم ،سوپ سٹون ،بکسائیٹ
،یاقوت،زمرد ،ایکوا میرین ،نیلم ،تانیہ ،سونا ،ابرق ،نکل ،سیسہ ،گندھک
،بوریکس ،ناراﺅ،سنیگال ،یاقوت ،نیلم ،و دیگرقیمتی معدنیات بھاری تعداد میں
موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کر کہ بھاری زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے
،اسی طرح قدرت نے کشمیر کو دیگر بہت سے نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں جن میں
قیمتی جڑی بوٹیوںکی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ،ان جڑی
بوٹیوں بہل،اجمود ،اجوائن ،آلو بخارا ،آک ،اڑوسہ ،املتاس ،اندرجو ،ایرسہ
،پھگواڑی ،انار،انگور ،السی ،ارنڈ ،اسطوخودوس ،بالچھڑ ،بھنگ ،بہی دانہ
،بادام ،بابچی ،بچھناک ،بداری کند ،بیروزہ ،بنفشہ ،بادیان ،بھوج پتر ،برہمی
بوٹی ،بید شک ،بیر ،پاڈھل ،پاپڑہ ،پتھر جٹ ،پودینہ ،تلسی ،تگر ،جمال کوٹہ
،چنبیلی ،زیرہ ،زعفران ،کھمبی و دیگر سینکڑوں جڑی بوٹیاں شامل ہیں جن سے
فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔
ریاست کشمیر میں جس کی خوبصورتی کے حوالے سے مغل شہنشاہ جہانگیر لکھتے ہیں
کہ ''کشمیر ایک سدا بہار باغ ہے یوں کہہ لیجیے کہ ایک فولادی قلعہ ہے جس کو
کوئی زوال نہیں ۔کشمیر بادشاہوں کیلئے ایک عشرت افزاءگلشن ہے اور درویشوں
کیلئے ایک دلکش خلوت سرائے ہے،کہاں خوشنما چمن اور اور دلکش آبشاریں بے
شمار ہیں ۔دریا اور چشمے حدوحساب سے باہر ہیں ،جہاں تک نگاہ کا م کرتی ہے
سبزہ اور آب رواں ہی دکھائی دیتا ہے ،گلاب بنفشہ اور خود نرگس صحرا صحرا
کھلتے ہیں '' ۔مغل بادشاہ کے علاوہ سرفرانسس ینگ ہسبنڈ ،نائیگل کیمرون
،دیوان جرمنی داس مصنف ''مہا راجہ'' , شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال سمیت
دیگر بہت سی تاریخی شخصیات نے ریاست کشمیر کی خوبصورتی کے حوالے سے کلمات
کہے ہیں ۔ریاست کشمیر کی خوبصورتی اور سیاحوں کو کھینچنے کیلئے جھیلوں کا
کردار بھی بہت اہم ہے ان جھیلوں میںسوپور اور بانڈی پورہ میں واقع ایشیاءکی
سب سے بڑی جھیل وولر ،سری نگر میں ڈل جھیل ،سری بگر کے قریب ہی واقع نگین
جھیل ،جھیل آنچار ،مانس بل جھیل ،پہلگام کے قریب شیش ناگ ،جھیل کونسر ،گنگا
بل جھیل ،جھیل تارسر مارسر ،جھیل کرشن سروشن سر ،ال پتھر جھیل ،شیندور جھیل
،بورٹ جھیل ،کچورہ جھیل ،ست پارہ جھیل ،راما جھیل ،پنگانگ جھیل ،جھیل سرن
جھیل اور وادئی نیلم میں رتی گلی جھیل شامل ہیں ۔اس کے علاوہ ریاست کشمیر
میں مغل بادشاہوں نے باغات پر سخت توجہ دی انہوں نے باغات لگانے کے فن سے
دنیا کو آغاہی دی ریاست کے مشہور باغات میںڈل جھیل کے کنارے شالیمار باغ،ڈل
جھیل کے جنوب میں نشاط باغ ،ڈل جھیل غربی طرف نسیم باغ اور چار چنار باغ
لگوائے ۔باغات کے علاوہ ریاست کشمیر میں مشہور چشمے بھی موجود ہیں جو ریاست
کی خوبصورتی اور پانی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اہم معاون ثابت ہو رہے ہیں
ان باغات میں سری نگر کے قریب چشمہ شاہی ،چشمہ ویری ناگ ،اسلام آباد شہر کے
قریب چشمہ اچھل بل ،انت ناگ میں بے شمار چشمے موجود ہیں ۔چشمہ ماتنڈ ،چشمہ
ککڑ ناگ ،بارہ مولہ میں چشمہ کھیر بھوانی ،ضلع پونچھ ہجیرہ کے قریب گرم
پانی کا چشمہ (تتہ پانی ) کے علاوہ ڈل جھیل کے قریب 51 چشمے دریافت ہو چکے
ہیں ۔
ریاست کشمیر میں بہت سی اہم قابل دید خوبصورت ایسے مقامات موجو ہیں جن کی
ایک تاریخی حیثیت بھی ہے وادی کشمیر میں گل مرگ ،سری نگر میں سونہ مرگ
اورسری نگر سے 96 کلو میٹر دور 'پہل گام 'جگہ موجود ہے ۔قدیم مذہبی اور
دھامرک مقامات بھی موجود ہیں جن میں سری امر ناتھ ،جموں شہر میں تری کوٹا
،چرار شریف ،وادی نیلم میں شاردہ،پونچھ میں تولی پیر،بنجوسہ،باغ میں گنگا
چوٹی جیسے خوبصورت مقامات شامل ہیں۔ریاست میں اہم تاریخی مقامات اکھنور کا
قلعہ سکردو،استور،اونتی پورہ،باغ سر(باغ اور قلعہ )،بج بہا در ،ترال ،توشہ
میدان ،جموں اور چلاس شامل ہیں۔اس کے علاوہ کشمیر کے شمالی صوبہ لداخ کو
عجائبات و طلسمات کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ،لداخ کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ
اس کا موسم بھی طلسماتی قسم کا ہے لداخ کو فضا سے دیکھا جائے تو اس میں تین
رنگ سفید پہاڑون پر برف ،بھورا رنگ زمین کا اور سیاہ رنگ گہری کھائیوں
کانظر آتا ہے ۔لداخ میں جو عجائبات ہیں ان میںکرگل سے 80کلومیٹر دور گرگون
میں ایک ہی نسل کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں جن کی رنگت سفید ہے ،اس کے علاوہ
زنسکار کے دور دراز علاقہ میں مخصوص مدت کیلئے شادیاں کی جاتی ہیں ،لیہہ کے
علاقہ میں مہاتما بدھ کے سونے کے مجسمے بنے ہوئے ہیں ۔
ایک وقت تھا کہ ریاست کشمیر میں قدرت کی جو خاص مہربانیاں ہیں ان کی قدر و
منزلت برقراررکھنے کیلئے دنیا بھر سے بہت سے اہل بصیرت لوگ سامنے آتے رہے
جن میں ڈاکٹر مبشر حسن سابق وزیر خزانہ،جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر
قاضی حسین احمد ،پروفیسر طاہر القادری،پیرپگاڑا،بے نظیر بھٹو،ڈاکٹر اسرار
احمد ،ایئرمارشل اصغر خان ،تحریک انصاف کے معراج محمد خان،نیشنل عوامی
پارٹی کے اجمل خٹک ،ممتاز بھٹو سمیت دیگر اہم شخصیات ریاست کشمیر کا فیصلہ
کشمیریوں کی اپنی مرضی سے حل نکالنے کی حمایت کر چکے ہیں۔ پاکستانی اہل
بصیرت لوگوں کے علاوہ بھارت کے بہت سے دانشوروں جن میں سلمان خورشید
،واجپائی ،خشونت سنگھ ،جے پرکاش نارائن ،من موہن سنگھ ،کلدیپ نیئر نے بھی
کشمیر کے مسئلہ کو سنجیدہ قرار دے کر اس کے حل کی طرف پیش قدمی کرنی کی
کوشش کی لیکن دیگر بہت سے عوامل اس حل کی راہ میں آڑے آتے رہے ہیں ۔بھارتی
دانشوروں کے علاوہ بین الاقوامی دانشوروں جن میں امریکی ٹریک ٹو ڈپلومیسی
،واشنگٹن کے نامور ادیب ولیم بیکر ،سابق ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ابراہیم
یزدی ،امریکی ایوارڈ یافتہ پروفیسر عائشہ جلال ،سابق امریکی وزیر دفاع ولیم
کولین،لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی سمیت دیگر بہت سی عالمی شخصیات نے
کشمیر کے مسئلہ کو فوری طور پر حل کرنے کیلئے اپنی خدمات دینے کی پیش کش کی
تھیں لیکن ریاست کشمیر کے حکمرانوں کے علاوہ پاکستان و بھارت کے حکمرانوں
نے اس ریاست کے وسائل کوذاتی طور پر حل استعمال کیا ۔چاہیے تو یہ تھا کہ
کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی رکھنے والے ان عظیم رہنماﺅں کے
ارشادات ا و ر ان کی رائے کا کشمیریوں اور ان کے لیڈروں کو احترام کرتے
ہوئے اور اپنے جملہ مسائل کے حل کیلئے اس عظیم مسئلے کے حل کیلئے عملی
جدوجہدکی جاتی لیکن کشمیر کے تمام حصوں میں موجود خود کو کشمیر کا نمائندہ
کہلوا کر اس کے نام پر فنڈز کھانے اور دیگر وقتی فائدے اٹھانے والو کی
تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہاہے جو کسی بڑے المیے سے کم نہیں ہے
،کشمیر کے تمام ٹکروں میں بسنے والوں اگر اس مئسلہ کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ
ہونا پڑے گا ، اس مسئلہ کو حل کروانے کیلئے ہر ایک کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر
جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تبھی جا کر تمام کشمیری اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ
پر امن زندگیاں گزار سکتے ہیں ۔
اوپر تفصیل سے کشمیر کے بارے میں معلومات مہیا دی گئی ہیں ان کو بتانے کا
مقصد یہ ہے کہ موجودہ و قت میںمملکت کشمیر میں وسائل کی کسی بھی طور کوئی
کمی نہیں ہے اگر کوئی کمی ہے تو وہ قیادت اور با شعور عوام کی کمی ہے جس کو
دور کوشش سے کیا جا سکتا ہے ،آئیں سب کشمیری مل کر کشمیر کی بہتری کیلئے
جدوجہد کریں۔ |