میانمار(برما) میں مسلمانوں کا
قتل عام برپا ہے۔ بدھسٹوں کی آنکھوں میں خون اورسرپرجنون سوار ہے۔ روہنگیا
مسلمانوں کی دردناک حالت پر دنیا بے بس ہے مذمت ہورہی ہے۔میانمار کی حکومت
پردباﺅ ڈالا جارہا ہے مگربے رحم میانمار کی حکومت سینہ تان کر کھڑی ہے
اورمسلمانوں کے قتل عام کو جائز قراردے رہی ہے۔برمی فوجی آگ کے شعلوں میں
گھرے روہنگیا مسلمانوں کو بچانے کے بجائے شعلوں میں جلارہے ہیں۔یہاں تک کہ
روہنگیا مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی جارہی ہے ،حکومت کے اشارے پر قاتل
آزادہیں۔امریکہ جودنیا میں آزادی انسانیت اورجمہوریت کاسب سے
بڑاعلمبردارہونے کا دعویٰ کرتاہے، میانمارمیں مسلمانوں کے بہتے خون کودیکھ
کر خاموش ہے۔
برما کی آبادی 75ملین ہیں جس میں سے مسلم آبادی تقریبا7%ہے ۔برما میں ہمشہ
آمریت کاہی راج رہاہے برما کی سرزمین معدنیات اورہیرے جواہرات سے مالامال
ہے۔ اسی وجہ سے برمامیں آنے والی فوجی حکومتوں نے ملک کوغیر ملکی میڈیا سے
دوررکھا ہے۔ باہر کی دنیا سے رابطہ صرف ضرورت کی حد تک ہے۔مہنگائی عروج پر
ہے۔امراءانتہائی سخت گیر اوربے حس جانے جاتے ہیں۔پوری دنیا کا غیرملکی
میڈیا 3جون 2012 کو اس وقت جوش میں آیا جب مسلمانوں سے بھری ایک بس
دارالحکومت ینگون سے تبلیغی سفر کے سلسلے میں ضلع ”ٹاﺅنگ کونگ“ جارہی تھی
کہ بدھسٹوں نے مسلمانوں کو بس روک کراس میں سوار 10افراد کو بے دردی سے قتل
کردیا۔یہ ایک ابتداءتھی،اس کے بعد سے تو مسلمانوں کے قتل عام کا ایک نہ ختم
ہونے والا سلسلہ شروع کردیا گیا اورکوئی دن ایسا نہیں جاتاکہ بدھسٹ درندے
مسلمانوں کو اپنی درندگی کانشانہ نہ بناتے ہوں۔
|
|
قتل عام کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا روہنگیا مسلمانوں کو شروع سے ہی
برما میں نسلی تعصب کاسامنا ہے۔پہلی مرتبہ یہ قتل عام 1941ءمیں صوبے اراکان
میں ہی کیا گیا جس میں ایک بدھسٹ تنظیم کا ہاتھ تھا یہ قتل عام تین مہینے
تک جاری رہااورحکومت تب بھی اس قتل عام کی سرپرستی کرتی رہی۔ مارچ 1942ءسے
جون 1942تک ہونیوالے اس قتل عام میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید کئے گئے جبکہ
پانچ لاکھ مسلمان بے آسرا ہوئے دوسری باریہ قتل عام 1950ءمیں ہوا اس کے
بعد1978ءمیں تیسری بارمسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جس میں میانمار کی غیر
ملکی فوجی حکومت شامل تھی۔اس میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا
گیااوراب ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کرنے اور خواتین کے ساتھ
زیادتی کے واقعات کے ساتھ ساتھ مردوں اورنوجوانوں کو ہزاروں کی تعداد میں
گرفتارکرکے قید خانوں میں ڈالا جارہاہے۔روہنگیا مسلمان عملا فورتھ شیڈول
میں شامل ہیں جو بغیر تحریری اجازت کے سفر نہیں کرسکتے۔مساجد کی تعمیر کی
اجازت نہیں۔مسلمانوں کو علاج معالجہ کے سہولت حاصل نہیں،خریدو فروخت کرنے
گاﺅں سے باہر جاناہو تواس کے لئے تحریری اجازت لیناپڑتی ہے۔برما میں
روہنگیا مسلمان سرکاری اجازت لیئے بغیرشادی نہیں کرسکتاہے اوربچے بھی پیدا
نہیں کئے جاسکتے۔سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے آبی راستے سے پناہ کی تلاش میں
جانے والے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش نے دوبارہ میانمارمیں دھکیل دیا،
یعنی روہنگیا مسلمانوں کے لیے موت کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا اور
یہ مظلوم مسلمان ہمارے بھائی آج بھی بنگلہ دیشی بارڈر پر ہزاروں کی تعداد
میں مہاجر کیمپوں پڑے ہیں۔دودہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی فوج اورپولیس
کی زبردست نگرانی میں مہاجرکیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔
گزشتہ دنوں امیرجماعتہ الدعوة پاکستان پروفیسرحافظ محمد سعید جونہ صرف دفاع
پاکستان کونسل اور جماعتہ الدعوة کے پلیٹ فارم سے دینی اجتماعات میں
روہنگیا مسلمانوں کےلئے کی خصوصی طورپر آواز بلندکرتے رہے ہیں اپنی خصوصی
ہدایت پر برمی مسلمانوں کی تازہ ترین صورتحال جاننے اوران کی ضروریات جاننے
کےلئے رمضان المبارک میں ایک وفد جماعتہ الدعوة سندھ کے انچارج شاہد محمود
کی سربراہی میں بنگلہ دیش وفد روانہ کیاتاکہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کی
جائے۔دورے سے واپسی پر ایک ملاقات میں وفد میں شامل فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن
شاہد محمود اورجماعتہ الدعوة سندھ کے ترجمان احمد ندیم اعوان نے بتایا کہ
مہاجرین کی صورتحال نہایت سنگین ہے لوگ اپنا گھر بارسب کچھ لٹاکر اپنی
جانیں بچاتے ہوئے مہاجرکیمپوں میں پہنچے ہیں جہاں انہیں کھانے پینے کی
سہولتیں میسر نہیں اورنہ کوئی بندوبست موجودہے۔برمی مسلمان انتہائی بے کسی
ولاچارگی کی زندگی گذاررہے ہیں۔علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے
متاثرین میں وبائی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ برما کی طرح
بنگلہ دیش نے بھی میڈیا اوررفاہی اداروں کو سرحدی علاقوں میں جانے اورکام
کرنے سے روکا ہواہے اس لئے وہاں ہونیوالے واقعات سے دنیا بے خبر ہے۔غیرملکی
صحافیوں اور ان کے سرحدی علاقے میں داخلے اورکیمرہ استعمال کرنے پر پابندی
ہے۔اس کے باوجوداپنے مسلمان بھائیوں سے محبت اور اپنے امیرپروفیسرحافظ محمد
سعیدکی خصوصی حکم پرچٹاگانگ کے ساحلی شہر کاکس بازار اورٹیکناف تک طویل سفر
کرکے مہاجر کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں تک پہنچے جبکہ چوری چھپے
بارڈرکراس کرکے بنگلہ دیش پہنچنے والے زخمی مہاجرین سے ملاقات کے لئے مقامی
افراد برما بارڈر کے قریب کئی میٹر طویل پیدل سفربھی کیا۔
|
|
برما سے سے چند روز قبل ہجرت کرکے ٹیکناف آنے والے ایک مہاجر نوراسلام نے
وفد سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ گاﺅں کی بیشترمساجد میں تالے لگادئیے گئے
ہیں اوران علاقوں میں پولیس اوربڈھسٹ گشت کرتے رہتے ہیں۔ چھپ کر مسلمان تین
وقت کی نمازاداکرتے ہیں اورجس مسلمان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا جاتا ہے
اس کو زندان میں ڈال دیا جاتاہے۔برمی روہنگیا آرگنائزیشن کے صدر”ٹن فن“ نے
بتایا کہ مسلمانوں کونہ صرف بزورطاقت نمازپڑھنے سے روکاجارہاہے بلکہ ماہ
رمضان المبارک میں تو مردہ جانوروں کا گوشت بھی کھلایا جاتارہا۔
برما کا دورہ کرنے والے وفد کے رکن اورترجمان جماعت الدعوة احمدندیم اعوان
نے بتایا کہ مقبوضہ اراکان میں مسلمانوں کا موبائل فون رکھنا اسلحہ سے بڑا
جرم ہے۔برما کی کسی موبائل کمپنی کی سروس نہیں، بنگلہ دیشی کمپنیوں کے
سنگلنزرابطہ کا واحدزریعہ ہیں۔برمی حکومت نے ہرطرح کے ذرائع ابلاغ پر
پابندی لگارکھی ہے۔وہاں مقامی سیلولر کمپنیوں کے سنگلنز دستیاب نہ ہونے کہ
وجہ مسلمانوں نے بنگلادیشی کمپنیوں سے سمیں حاصل کرکے بیرون ملک اپنے
عزیزووقارب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جس سے مسلمان عالمی برادری کو اپنے
اوپر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ برما سے ہجرت کرکے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی
کشتیوں پر بنگلہ دیش کی فوج کی جانب سے فائرنگ کی گئی اس فائرنگ کے نتیجے
میں سینکڑوں افرادڈوب کر ہلاک ہوئے جن کی لاشیں کئی روز تک مچھیروں کے
جالوں میں پھنسی رہیں۔ برما کے بارڈرکے نزدیک شہرٹیکناف کے شہری نورالزماں
جو ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتا ہے نے وفد کو بتایا کہ بدھسٹوں
سے جان بچاکر آنے والے مسلمانوں کی کشتیوں پر بنگلادیشی افواج کی جانب سے
فائرنگ کی گئی جس سے کشتیوں میں سوراخ ہوگئے۔ کشتیاں ڈوبنے سے ان میں
سوارمسلمانوں کی بڑی تعدادڈوب کر شہید ہوگئی۔ نورالزماں نے بتایا کہ مقامی
مچھیروں نے جب مچھلیاں پکڑنے کے لئے دریائے ناف میں جال لگایا توان کے جال
میں کئی لاشیں پھنس گئیں جنہیں بعدازاں دفنادیاگیا۔
|
|
جماعتہ الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمدسعید کی ہدایت پرجانیوالے وفد کے
قائداورفلاح انسانیت فاﺅنڈیشن کے انچارج شاہد محمود نے راقم کو بتایا کہ
جماعتہ الدعوة کی جانب سے برمی مہاجرین کیلئے بھرپورامداد سرگرمیاں شروع
کردی گئیں اورمہاجرین میں خشک راشن ودیگر اشیاءضرورت کی تقسم کے علاوہ ان
کے علاج معالجے اورعارضی رہائش گاہوں کا بندوبست کیا جارہا ہے۔شاہد محمود
نے بتایا کہ مہاجرین میں جماعتہ الدعوة کی جانب سے نقدرقوم تقسیم کی
گئیں،شاہدمحمود نے مزید کہا کہ جماعتہ الدعوة سب سے پہلے ان افراد کا علاج
معالجہ کرے گی جن کے فسادات میں اعضاءکاٹ دئیے گئے۔انہوں نے قوم سے اپیل کی
ہے کہ وہ برمی مسلمانوں کے لئے کی جانیوالے امدادی سرگرمیوں میں اپنا حصہ
ڈالیں۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ رہے تھے تو دوسری طرف
ادھردنیا کی علمبردار امریکی صدر بارک حسین اوبامہ میانمار میں امریکی
کمپنیوں کی کا اعلان کررہے تھے تھین سین حکومت کی سیاسی اصلاحات کے گن
گارہے تھے۔ تشدد کا یہ سلسلہ ختم ہونے کے نام نہیں لے رہا۔میانمار میں
روہنگیامسلمانوں کا قتل عام دوماہ سے جاری ہے جس میں شروع میں بدھسٹ شامل
تھے مگراب حکومت کے کردارنے اس قتل عام کو خوفناک بنا دیاہے۔
ہیومن رائٹس واج کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں ہلاکتوں کا اندازہ
لگانامشکل ہے لیکن اب تک تقریبا 20ہزار مسلمانوں کو تشدد اور گولیوں کا
نشانہ بنایا جاچکاہے۔مسلمانوں کی عصمت دری کی جاری ہے مسلمانوں کی بستیوں
کو آگ لگادی گئی اب تک ایک لاکھ افرادبے گھر ہوگئے ہیں مگر میانمار کی
حکومت اس اعدادوشمارکو تسلیم کرنے کو تیارنہیں میانمار کے صدرتھین سین کی
کا کہنا ہے کہ” حکومت صرف روہنگیا مسلمانوں کی تیسری نسل کی ذمہ دارہے جو
1948کے بعدمیانمار کی آزادی سے قبل آبادہوئی تھی۔ ایسے روہنگیا مسلمانوں کو
قبول کرنا ممکن نہیں جو،غیرقانونی طورپر ملک میں آباد ہیں“۔
|
|
کراچی تا لندن مسلمان اس قتل عام کی خلاف مظاہرے کررہے ہیں ۔برمی مسلمان اس
وقت شدید بے بسی کے عالم میں ہیں۔ مسلمانوں کا قتل عام ہورہاہے اورعالم
اسلام کا میڈیا خاموش تماشائی بنا اس قتل عام کو دیکھ رہا ہے۔یہ نہایت
افسوس کا مقام ہے۔ بس ہمارا کام یہ رہ گیا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان فیس بک
پر ایک شئیر کا بٹن دبا کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے نمرود کی آگ کو بجھانے
میں اپنا حصہ ڈال دیاہے۔لہذا اب ہمیں اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ
مسلمانوں کا پہلا قتل عام نہیں جس پر ہم خاموش تماشائی بنے رہے ایسے قتل
عام کشمیر فلسطین، چیچنیا اوربوسنیا میں ہوتے ہوئے ہماری آنکھوں نے دیکھے
ہیں بلکہ میں یہ کہنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتا ان تمام زیادتیوں کے
باوجود ہم خاموش بیٹھے رہے ہیں اقوام عالم کے مسلمانوںنے ان ظالموں کا ہاتھ
نہیں روکنے کی ہمت نہیں کی کم ازکم میری نظر میںیہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ہم
خود ان کے قتل میں ملوث ہورہے ہیں۔ ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیںتو
حیران رہ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو دولت یا اقتدارملا تو انہوںنے کئی ایسی
مثالیں قائم کیں جن کی نظیر آج بھی نہیں ملتی اورسب سے بڑھ کر کے ہمارے نبی
رسول اللہﷺ نے رحمت اللعالمین بن کر ساری دنیا پراپنا ایسا نقش چھوڑا جس سے
غیر مذاہب آج تک خوف زدہ ہیں جس کی سب سے بڑی مثال امریکا ہے۔
دوسری طرف تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اقتدار غیر مسلموں کو ملا توانہوں نے
تشدداورظلم کرکے ایساہی قتل عام کیا جس سے بغداد کے دریا بھی خون میں
نہاگئے۔ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ ہربارمسلمانوں کے ساتھ ہی
ایساکیوں ہوتا ہے؟ ہمیں ہی تشدد اورظلم کا نشانہ کیوں بنایا جاتاہے اور یو
این اواور اس جیسے عالمی ادارے اوربڑی تمام بڑی این جی اوز صرف بیان بازی
اورتماشہ دیکھتی رہتی ہیں اوراس وقت آگے بڑھتی ہیں جب مسلمانوں کے گھروں سے
جلے ہوئے گوشت کی بو آنے لگتی ہے اورانہیں پہچاننے والا کوئی نہیں ہوتا۔کیا
مغربی میڈیا کو یہ سب نظرنہیں آتا۔ہمارے یہاں کے میڈیا کا یہ عالم ہے کہ ہر
سپراسٹارکی بریکنگ نیوزتوچلاتاہے بعض اوقات تو تین تین مرتبہ ایک چھوٹے سے
واقعہ کی بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہے مگراتنی بڑی خبر کو کوریج دینے کے لئےے
تیارنہیں۔ کشمیر میں قتل عام ہو یا میانمار میں صرف خاموشی اورنظراندازی کا
اصول اپنا لیا جاناہمارے منہ پر بے حسی کی کالک کے مترادف ہے۔ |