خیر و شر کی قوتیں ہمیش سے آپس
میں نبرد آزما رہی ہیں۔ ہابیل کی حق پرستی اور قابیل کی گمراہی سے شروع
ہونے والی یہ جنگ تا ابد جاری رہے گی- آج بھی یہ معرکہ اسی طرح گرم ہے اور
اپنا آپ دکھا رہا ہے۔ آنکھ والے دیکھ بھی رہے اور اس کے خلاف متحرک بھی، جو
فہم و فراست سے محروم ہیں وہ اس جنگ کو سمجھتے ہیں نا اس کے خلاف زبان
کھولتے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ قابیل کی اس مکروہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لیئے
اپنا سب کچھ داؤ پہ لگائے بیٹھے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ اپنی قابیلی سوچ
کی ترویج و اشاعت کے لیئے متحرک ہیں۔
نقشئہِ کائنات پر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی واحد ریاست پاکستان کے
حصول کے لیئے بھی کچھ ایسی ہی قوتوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ پھر اللہ کریم
کی مدد و رحمت سے اہل حق کو فتح نصیب ہوئی۔ بدخواہوں نے پاکستان کو
کافرستان اور اس کے بانی کو کافرِ اعظم کے القابات بھی دیئے۔ وہ علٰیحدہ
بات ہے کہ آج انہی بدخواہوں کی اولاد اور فکری جراثیم پاکستان اور اسلام کے
تحفظ، دفاع، ترقی اور خوشحالی کے گیت گا رہے ہیں۔ مدینہِ ثانی کہلانے والے
اس پاکستان میں ان گنت مساجد ِ "ضرار" بھی انہی کی قائم کردہ ہیں۔ ان کی
حقیقت اللہ کریم کے حکم سے اس کے رسول ﷺ کے ظاہری دور سے ہی طشت ازبام ہو
چکی ہے۔
پاکستان کے قیام سے ہی یہ المیہ رہا کہ غریب مزید غریب ہوتا چلا گیا اور
امیر کے اثاثوں میں تواتر سے اضافہ ہوتا رہا۔ امن و امان، زندگی کے بنیادی
حقوق، تعلیمی و عدالتی نظام اور اسلامی فلاحی ریاست کے خواب آج تک شرمندہ
تعبیر نہی ہو سکے۔ نوجوانوں کو سکولوں کالجوں اور جامعات میں ایسا مواد
پڑھایا گیا جو نا تو ہماری تاریخ کی ترجمانی کرتا ہے اور نا ہی تحقیقی و
علمی میدان میں کوئی کردار ادا کرسکا۔ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت اس
بات سے بالکل ناواقف ہے کہ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا، اس کے حصول کے لیئے
کون سی اور کیسی قربانیاں دی گئیں ۔ مغرب زدہ ثقافت میں ملبوس "جدید"
مسلمان خواتین کے مورننگ شو دیکھ کر اپنی صبح کا آغاز کرنے والے نوجوان کیا
جانیں کہ ان کے آباء و اجداد نے اس کلچر سے نجات کے حصول کے لئیے ہی تو
پاکستان بنایا تھا۔
جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو شرک و گمراہی میں لت پت سیاسی و سماجی خداؤں
سے نجات کے حصول کے لیئے ایک ولولہ اور جذبہ ہند کے مسلمانوں میں سرایت کر
چکا تھا، خلوص، لگن، عزم، استقلال، ایمانداری، شوقِ شہادت، دینی و ملی عزت
اور ناموس کی حفاظت کرنے کے جذبے اور اتحاد نے کامیابی کے اس سفر کی
بنیادیں مضبوط کر دی تھیں۔ اور ایسا کیوں نا ہوتا کہ خود رسول اللہ ﷺ اس
تحریک کی نگرانی اور حمایت فرما رہے تھے، یہ میرا کہنا نہی، پوچھ لیجیئے اس
وقت کے خان آف قلات سے، امیر ملت سید جماعت علی شاہ سے یا پھر علامہ فضلِ
حق خیر آبادی سے۔ بلکہ وجدان جب کمال کو پہنچتا ہے تو پھر میرا ایمان گواہی
دیتا ہے کہ میرے اقبال اور قائد اعظم گنبد خضریٰ کے مکین ﷺ کے اشاروں پر ہی
ملک و ملت کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ان تمام ہستیوں کے دامن صاف تھے۔ ان
لوگوں کے غیر ملکی بینکوں میں کھاتے تھے نا مغرب کے ٹھندے ساحلوں پر عیاشی
کے اڈے۔ جعلی ڈگری بھی کسی کے پاس نہی تھی۔ جو باہر سے جتنا معزز نظر آتا
تھا اس کا دل بھی اتنا ہی صاف و شفاف ہوتا تھا۔ وہ حقیقت میں اللہ کی
بارگاہ میں بھی اتنا ہی معزز ہوتا تھا کیونکہ ان میں سے نا کوئی سینما کی
کمائی کھا کر پلا تھا، نا کوئی ٹھیکوں سے رشوت کھاتا تھا، اور نا ہی اس وقت
خفیہ ادارے رقوم تقسیم کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ" مومن ایک سوراخ سے دو بار نہی
ڈسا جاتا"۔ مگر پاکستان کے مومنین ایک بار نہی بار بار اور کئی بار انہی سے
ڈھنگ کھاتے چلے آ رہے ہیں جو صدیوں سے مثل صیاد اپنی شاطر مزاجی سے نشانے
باندھ رہے ہیں اور اس میں وہ اچھی خاصی حد تک کامیاب بھی ھوئے ہیں۔ بنیادی
طور پر ہم اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ اچھے اور برے کا فرق ہی مٹ گیا۔ جس
منفی قوت سے ہم نے نجات حاصل کی تھی وہ پورے آب و تاب کے ساتھ آج بھی ہمارے
اوپر راج کر رہی ہے۔ انہی کی تہذیب و ثقافت کو ہمارے سیاسی خدا اپنی تہذیب
سمجھتے ہیں۔ جس ملک میں دشمن کے مذہب کی فحاشی و عریانی پر مبنی فلموں کی
تجارت کی جائے، جس "اسلامی ریاست" میں شراب و کباب بیچنے کے لئیے باقاعدہ
طور پر اجازت نامہ جاری کیا جائے، جہاں زنا کے لئیے علاقے مختص کر دئیے
جائیں، جہاں کھانے پینے کی چیزوں میں حرام اجزاء کا کھلے عام استعمال کیا
جائے، جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دلانے کے لئیے راگ الاپے جائیں،
وہاں غربت، جہالت، برائیاں، بیماریاں، زلزلے اور سیلاب ہی تو آئیں گے۔
اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد جب میں "آزاد" کشمیر کے دارالحکومت مطفر آباد
پہنچا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک بینر پر رسول اکرم ﷺ کے یہ فرامین
لکھے ہوئے تھے-
جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہو گی وہ فنا کے گھاٹ اُتر کر ہی رہے گی۔
جس معاشرے میں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خونریزی لازماً ہو کر رہے گی۔
پاکستان میں یہ تمام برائیاں بھر پور طریقے سے ہو رہی ہیں، اس بیچارے ملک
نے ایک ایسا حاکم بھی برداشت کیا ہے جو شراب و زن کا اس قدر رسیا تھا کہ
ایک دن کیف و مستی میں وہ اس قدر بے خبر ہو گیا تھا کہ لگ بھگ چوبیس گھنٹوں
تک کسی کو کوئی خبر ہی نا تھی کہ حاکمِ وقت کہاں ہے اور تقریبا پورا ایک دن
پاکستان نے بغیر اپنے سربراہ کے گزارا۔ رقاصاؤں اور گانے والیوں پر نوٹ
نچھاور کرنا بھی ہمارے پاکستانی "اکابرین" کا حصہءِ شغل تھا اور ہے۔ یہ
ساری صورتحال دیکھ اور سمجھ کر آپ کو ان لوگوں کے بڑے بھائی اور اپنے ابا
جی حضور آدم علیہ السلام کی بگڑی ہوئی اولاد " قابیل" کی سمجھ آ ہی گئی ہو
گی۔ بلکل اسی راہ کے مسافر ہیں آج یہ لوگ۔
کس کس ستم ظریفی پہ ماتم کیا جائے، اس ملک میں تو ایسے لوگ بھی بستے ہیں
جنہوں نے برسوں پاکستان کے قانونی، داخلی اور ریاستی اداروں کی سربراہی کی،
صدارتی و وزارتی محلات کی زینت بنے مگر سورہ اخلاص اوپر دیکھ کر پڑھتے ہیں
پھر بھی بھول جاتے ہیں، یہاں پر تو اذان "ہونے" کی بجائے "بجائی" جاتی ہے،
ایک ہی شہر میں صوبے کا گورنر روزے سے ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ عید منا رہا
ہوتا ہے۔ میرے خدایا کس کس جہالت کو لکھوں یہ وہ ملک ہے جس کا صدر اور وزیر
اعظم سرکاری خرچ پر عمرہ کرنے جائیں تو مسجد الحرام کے اندر پہنچ کر پوچھتے
ہیں احرام کہاں سے باندھنا ہے؟
اس ملک کے مذہبی رہبروں کی منافقت بھی کوئی ڈھکی نہی، جو قیام پاکستان کے
مخالف تھے آج وہی سب سے بڑے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں۔ جیسا کی پاکستان
ایک مذہب کے نام پر حاصل کی گئی ریاست تھی، یہاں کے لوگ سیاستدانوں کی
بجائے مذہبی رہنماؤں کی زیادہ سنتے ہے۔ ملاؤں کی اکژیت نے غیروں کے ٹکڑے
کھا کر انہی کی زبان بولی، نفرت اور منافقت پھیلائی، کفر و شرک کے فتوے
جاری کئیے، اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھانے کی بجائے مریدوں اور عقیدت مندوں
کے گھر اجاڑے۔ دوسروں کو تقویٰ و پرہیزگاری اور قناعت پسندی کی ترغیب دلانے
والوں کی اپنی توندیں بے قابو ہیں۔ آپ اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ کتنے ایسی
مذہبی رہنما ہیں جو ہمیشہ سے حکومت میں رہے ہیں یا پھر کسی نا کسی ذریعے سے
ایوان اقتدار کے اگے پیچھے رہے ہیں، ان میں سے کتنے ایسے ملا صاحبان ہیں جو
اپنی کمائی سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں؟ سیاست میں آنے سے پہلے
ان کے وسائل و روزگار کیا تھا؟ اسلام آباد میں بڑے بڑے بنگلے، یورپ کے دورے،
لمبی لمبی گاڑیاں، مہنگی شیروانی اور پگڑیاں کہاں سے آ گئیں؟ معذرت ۔۔(قاضی
حسین احمد پگڑی نہی جناح کیپ سر پہ رکھتے ہیں)۔ خود امریکہ و یورپ کو
گالیاں اور آل اولاد سرخ پاسپورٹ لے کر مغرب ہی میں مقیم ہے۔ اب اس حالت
میں جب قوم کے رہبر بگڑ جائیں تو کیا ہو گیا؟ جیسا امام ویسا مقتدی۔
قوم کے رہنماؤں اور رہبروں میں قابیل کی شر انگیز روح دوڑ رہی ہے۔ انہوں نے
ہمیں ہماری ہی قربانیاں بھلا دی ہیں مگر اس کی بنیادی ذمہ داری ہم پر بھی
عائد ہوتی ہے کی انفرادی لحاظ سے سوچ اور عمل ہمارا اپنا اختیار ہے، ہم
کیوں مسلمان ہیں؟ پاکستان کیوں بنا؟ ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ اس کا جواب نا
صدر مملکت نے دینا ہے اور نا ہی وزیر اعظم نے۔ اپنی ملکی و ملی ذمہ داریوں
کو ہمیں خود سمجھنا ہو گا۔ قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت
ہوئی، دشمنوں نے کتنے بچے یتیم کیئے، سہاگ اجاڑے، ماؤں کی گودیں خالی کر
دیں، بوڑھوں کی جھکی ہوئی کمر توڑ دی، لاہور کے والٹن سٹیشن نے خون سے لت
پت ٹرین کا بھی استقبال کیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کتنی نوجوان مسلمان لڑکیوں
کو اس وقت کے سکھوں اور ہندؤں نے اغوا کر لیا تھا اور آج وہ کلمہ گو ہماری
بہنیں کتنے رام، شنکر، کلدیپ، کلونت، داس، بھگوان اور سنگھ کے بچوں کی
مائیں ہیں؟ کیا آپ کو لاہور کی بادشاہی مسجد کے داخلی دروازے کے ساتھ ایک
دیوار پر اپنے بزرگوں کے خون کے چھینٹے جو آج بھی موجود ہیں نظر نہی آتے؟
جب میں اپنے ایسے عزیز رشتہ داروں کو دیکھتا ہوں جو قیام پاکستان کے وقت
اپنی بیش قیمت جاگیریں کشمیر میں چھوڑ کر چلے آئے، کافروں کے ہاتھون مرنے
کی بجائے اپنے ہاتھوں اپنے ننھے ننھے بچوں کو کنؤیں میں پھینک دیا، نوجوان
عورتوں کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں، اور پھر 1971 میرے اجداد کے نقصان اور
شہادت کی داستان اپنے والد سے سن کر خون کھولتا ہے مگر عین اس لمحے دل کہتا
ہے کہ اگر اس قربانی سے وطن کو کوئی فائدہ پہنچے تو یہ کوئی بڑی قرربانی
نہی تھی۔اللہ کرے یہ ہجرت اور مصائب بخشش کا سبسب بن جائیں۔
پاکستان میں موجود منافقت کے اڈوں، منافرت کے مراکز اور شیطانی قوتوں کا
خاتمہ صرف اور صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم انفرادی طور پر اپنی اپنی ذمہ
داری نبھائیں اور برائی کی نشاندہی کریں۔ قابیل نہی ہابیل بنیں، ہابیل اللہ
کا مقرب تھا کہ اس نے حق کا راستہ نہی چھوڑا تھا اور قابیل بھگوڑا تھا کو
اس نے حق کو نہیں پہچانا اور حرص و حوس میں مبتلا ہو کر ہمیشہ کے لئیے نشان
عبرت بن گیا۔ ۔ حق کا ساتھ دیں اور باطل کو بھاگنے پر مجبور کریں۔ ملک و
ملت کے خلاف قائم سیاسی و مذہبی منافقت کی آماجگاہیں جو عصر حاضر کی "مسجد
ضرار" ہیں انہی تباہ و برباد کر دیں، ان "مساجد ضرار" کو گرا دیں تا کہ
ہمارا پاکستان ہمارے ہاتھ میں آ جائے، سب منافق، شیطان، نفرتیں پھیلانے
والے بھاگ جائیں اور پاک لوگوں کا پاکستان قائم ہو جائے۔ |