آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا

پاکستان کا بننا ایک معجزہ تھا، حقیقتاََایک معجزہ کہ آٹھ دس کروڑ مسلمانوں نے اپنے سے کئی گناہ زیادہ ہندوئوں اور اپنے وقت کی سپر پاور تاج برطانیہ جس کا سورج نصف النہار پر چمکتا ہی رہتا تھا کو شکست سے دو چار کیا اور بے ملک و بے وطن مسلمانوں کو ایک نام اور نشان ملا، پائوں رکھنے کو زمین اور سر چھپانے کونیلگوں چھت میسر آئی اپنی زمین اوراپنا آسمان۔ اگر چہ یہ دنیا کے کسی بھی خطے کے رہنے والوں کی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کا بھی حق تھا کہ وہ آزاد ملک میں اور اپنی زمین پر سانس لے سکیں لیکن بھارت نے اس نئی مملکت کو کسی طور قبول نہ کیا اور اس کے وجود میں آتے ہی اس کے خلاف کھلی جارحیت کا مرتکب ہوا ۔کشمیر پر بھارت کا قبضہ ، پاکستان پر پانی کی بندش، اس کے اثاثوں کی روک، اس پر لٹے پٹے مہاجرین کا بے اندازہ بوجھ ، غرض ہر طرح سے اس نوزا ئیدہ مملکت کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی گئی لیکن صرف اور صرف اس کے عوام کا جذبہ ایمانی تھا جو اس ملک کی حفاظت کرتا رہا۔ اور صرف ایک کلمے کی برکت تھی جس نے اس وطن کے ہر محافظ کو وہ زور بازو اور قوت عطا کی جس نے چھ ستمبر 1965 کے دن اُسے سر خرو کیا۔ دشمن تو اپنی فتح کے جشن کا پروگرام بھی مرتب کر چکا تھا لیکن اُسے دوپہر کا کھانا لاہور میں تو کیا خود بھارت کے اندر اپنے میس میں بھی کھانا نصیب نہیں ہوا اور وہ جس بھگدڑ اور افراتفری کا شکار ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔سترہ دنوں کی اس جنگ میں کبھی عزیز بھٹی کے ہاتھوں ، کبھی ایم ایم عالم ،کبھی رفیقی، کبھی شامی اور کبھی سیلسل چودھری کے ہاتھوں ہزیمت اٹھاتا رہا ۔ ہماری لڑتی ہوئی فوج کا ہر سپاہی تو اپنی بندوق اور وردی کی لاج رکھتا ہی رہا اور آخری گولی اور آخری قطرے تک لڑنے کے عزم کو نبھاتا ہی رہا لیکن ساتھ ہی عوام نے جس ذمہ داری، ایثار اور جذبے کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ تھا اور ہے ،اور فوج کے پیچھے یہی عوامی طاقت تھی جس نے اُسے سرخرو کیا۔ کہنے والے کہتے ہیں عورتیں اپنا زیور، بچے اپنے غلے، جو ان اپنا خون، تاجر اپنا سامانِ تجارت، گھردار اپنا راشن لے لے کر آتے رہے اور وطن اور اس کے جانثاروں پر نثار کرتے رہے اور یوں چراغ روشن رہا اور جلتا رہا اور کامیابی اور فتح مندی ان کا مقدر بنتی رہی ۔ لیکن آج بھی ہم سے یہ کہتے ہیں فضا کے تیور،ہر گھڑی چوکس و چوبندو خبردار رہو کیونکہ کفر کی طاقتیں آ ج بھی ہمیشہ کی طرح آمادہ ئشر ہیں بلکہ حملہ آور بھی اور اب کا حملہ اس کھلے حملے سے زیادہ خطرناک ہے جو چھ ستمبر 1965 کو ہوا تھا ۔اب کی باردشمن نے دوسرا طریقہ کار اپنایا ہے اس نے ہماری بنیادوں میں پانی دیکر اُن کو کمزور کرنا شروع کیا ہے کہ دیوار خود بخود گر پڑے اور اپنے کارندے اُس نے خود ہمارے اندر سے نکالنے شروع کیے ہیں بس دکھ یہی ہے کہ آج وہ جذبہ مفقود ہے جو آج سے سنتالیس اڑتالیس سال پہلے تھا۔ آج جنگ چومکھی ہے حملہ ثقافتی بھی ہے، اخلاقی بھی، اقتصادی بھی ، نظریاتی بھی اور کھلی دہشت گردی بھی جس کے ذریعے پاکستان کا گھیرائو کیا گیا ہے لہٰذآج ہمارا دفاع بھی حملے کے مطابق کثیرالجہتی ہونا چاہیے ۔ لیکن ایمانداری سے سو چیے کیا ہم ایک بھی حملے کا جواب سنجیدگی سے دے رہے ہیں ۔ ثقافتی اور نظریاتی حملے کو ہم خود اپنی ثقافت کو دفن کرکے اور نظریے کی نفی کرکے کامیاب بنا رہے ہیں ۔ہم نے اپنا لباس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ آج کے گلوبل ویلج میں دوسرے کا اثر نہ لینا نا ممکن ہے لیکن سوچیے ہم خود اثرانداز ہونے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ ہم خود مسلکی جھگڑوں اور فرقہ واریت میں پڑ کر ’’ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ایک ہندو دوسرے مسلمان یعنی صرف مسلمان ‘‘کی نفی کرکے اپنے نظریے کو کمزور کر رہے ہیں اور کچھ لوگ تو ببانگ دہل اس کی تضحیک کرکے اس کا انکار کر رہے ہیں۔ ہمیں اتنے محاذوں پر الجھا دیا گیا ہے کہ ہم آپس میں ہی برسر پیکار رہیں کہ نہ اقتصادیات کی طرف توجہ دے سکیں نہ معاشیات کی طرف اور نہ ہی ترقی کی دوڑ، دوڑسکیں، وقت ہمیں آگے لے جانے کی بجائے پیچھے دھکادے رہا ہے ۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ نہ کوئی جوہر ہے نہ اقبال اور نہ جناح جو قوم کی نیاّ پار لگا دے لیکن ایک امید اب بھی ہے جو قوم کی توانائی بحال کرنے کو کافی ہے اور وہ ہے کہ’’ مایوسی گناہ ہے‘‘ یہ نہ رب کو پسند ہے نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔ اوریہ یقین کہ آج بھی ہماری یہ آگ گل و گلزار ہو سکتی ہے بات ایمانِ براہیمی کی ہے انداز گلستان خود بدل جائیں گے ۔اگر چھ ستمبر 1965 کو ہم سترہ سال کی کچی عمر میں دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے تھے تو آج ہم تجربات کی بھٹی میں اتنے کندن بن چکے ہیں کہ اب نا خالص مادے کی پہچان آسان ہونی چاہیے اور دفاع وطن کا تجربہ بھی پختہ ہونا چاہیے آج حملے کی نوعیت کے مطابق ہر فردِقوم کو سپاہی بننا پڑے گا ۔اپنا اپنا میدان جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نی ہوگی۔ سرحدوں کی حفاظت تو فوج کی ذمہ داری ہے وہ خندقیں خون سے بھر کر بھی اسے ناقابل عبور بنا دے گی لیکن جنگ ملک کے اندر بھی ہے جس کے لیے حکومت کے انداز کو خدمت میں بدلنا ہوگا اور عوام کے انداز کو جہاد میں ۔ اپنے اپنے میدان میں جہاد، اپنے اپنے معرکے میں فتح اور پھر یہ تمام فتوحات پاکستان کی جھولی میں ڈال دینا ہوں گی تو پھر تو شکست اور ہز یمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قومیں انہی قربانیوں کے سہارے عظیم بنتی ہیں انسانی جسموں سے نکلا ہوا پسینہ اس کے کھیتوں کو سینچتا ہے بالکل اُسی طرح جس طرح انسانی رگوں کا خون اُسے ناقابل تسخیر بناتا ہے ۔ یوم دفاع پاکستان منانا اپنی جگہ اہم ہے لیکن دفاع پاکستان اُس سے بڑھ کر اہم ہے اور اگر یوم دفاع تجدید عزم اور تکمیل عزم کے ساتھ منایا جائے تو ہی کچھ حاصل ہے ورنہ یہ ساری مشق لا حاصل ہی رہے گی اور ہم آزادی کے پینسٹھ سال بعد ایسی لا حاصل مشقوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 510611 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.