قبل ازیں اس کے کہ ہم منتخب
موضوع کے متعلق بحث کریں مناسب ہوگا کہ اس سے پہلے ہم اس بات کا یقین کر
لیں کہ ہماری انگریزی زبان کا طریقہ تدریس فطری اور مناسب نہیں ہے۔
برصغیر پاک و ہندمیں برطانوی حکومت کا آغاز مغل شہنشاہ کے فرمان 1765 ءسے
ہوتا ہے مگر انگریزی یا جدید تعلیم کی تاریخ 1797 ءسے شروع ہوئی ابتداءمیں
فارسی تعلیم کی ترویج کی جاتی تھی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی نے اس
کی جگہ لے لی۔ انگریزی اسکولوں میں پڑھائی جانے لگی۔ 1711 ءمیں انگریزی کی
تعلیم کے لئے ایک ہندو کالج کلکتہ میں قائم ہوا اسکے بانی راجہ رام موہن
رائے نے انگریزی زبان اور ادب کی تعلیم پر زور دیا۔ 1834 ءمیں گورنر جنرل
کی کونسل میں لارڈ میکالے کوشامل کیا گیا۔ اس نے اس ضمن میں کہا کہ:
”انگریزی آداب کی ایک الماری تمام دنیا کے مشرقی علوم کے کتب کے برابر ہے۔“
انگریزی کی اہمیت کے بارے میں اس نے لکھا : خود اپنی زبان کے استحقاق کا
اعادہ کرنا ضروری ہے مغربی زبانوں میں بھی اسکی اپنی حیثیت ہے۔ یہ یونان کے
چھوڑے ہوئے بہترین ترکے سے کسی طرح بھی کم نہیں اس میں ہر قسم کے مضامین کے
نمونے موجود ہیں جو لازوال ہیں اس تخلیق میں انسانی فطرت اور حیاتِ انسانی
کی حقیقی نظریات کی منظر کشی کی گئی ہے۔ حکومت، قانون اور تجارت سے متعلق
انتہائی راسخ نظریات انسان کی ذہنی نشو نمااور آرائش سے متعلق تجرباتی
سائنس کی تمام معلومات کا ایک ذخیرہ جو بھی اس زبان کو جانتا ہے کہ کرہ ارض
کی تمام ذہین قوموں کے اس سرمائے تک اسکی پہنچ انتہائی آسان ہے ۔ پاکستان
اور ہندوستان میں حکمران طبقے کی زبان انگریزی ہے اور اسکا بہت امکان ہے کہ
یہ تجارتی زبان کی حیثیت سے مشرقی سمندروں کے گوشے گوشے میں پھیل جائے۔
1835 ءمیں اعلان کیا گیا کہ اعلیٰ تعلیم انگریزی زبان کے ذریعے دی جائے گی۔
انگریزی میں تعلیم دینے کا مقصد وفادار سرکاری ملازمین کی تلاش تھی۔لارڈ
ہارڈنگ نے اپنے عہد حکومت میں یہ قانون بنا دیا کہ جو شخص انگریزی نہ جانتا
ہوگا اسے سرکاری ملازمت نہیں ملے گی ۔
1854ءمیں بورڈ آف ایجوکیشن کنٹرول کے صدر چارلس نے ایک تجویز پیش کی جس میں
کمپنی کی تعلیمی پالیسی پر روشنی ڈالی گئی تھی اس تجویز کو منظور کر لیا
گیا اور 1960ءتک برصغیر میں اس تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد ہوتا رہا۔
انگریزی پڑھانے کے لئے ہائی اسکول کھول دیئے گئے اور ہر صوبے میں کالج قائم
کیا گیا۔ 1857ءمیں ممبئی، کلکتہ، مدراس میں یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور
ان کی بدولت تعلیم کو فروغ حاصل ہوا۔ اس تعلیم نے برصغیر میں مغربی خیالات
کا اظہار کیا جسکی وجہ سے ہر طبقہ فکر کے لوگوں میں خاص کر نوجوانوں کے
خیالات میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی تعلیم یافتہ اشخاص میں نئی امنگ
جاگی، لیکن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ اپنے اتحاد کو فوقیت دینے لگے
اوریوں وہ اپنے ثقافتی ورثے سے محروم ہونے لگے۔ان ہی حالات کے پیشِ نظر سر
سید احمد خان نے اپنی قدر و خدمات کے ذریعے مسلمانوں کو ابھارنے کی کوشش کی
انہوں نے علی گڑھ میں مسلم اینگلو اورینٹل کالج قائم کر دیا تاکہ مسلمان
بھی انگریزی تعلیم حاصل کر سکیں اور ہندﺅوں کے مقابلے پر کھڑے ہو
سکیں۔قیامِ پاکستان کے بعد جو نظام تعلیم ہمیں ورثے میں ملا وہ زیادہ
انگریزی تعلیم کی عکاسی کرتا تھا ملک کے طور و عرض میں تعلیمی اداروں میں
تعلیمی حالات تسلی بخش نہیں تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ تقسیمِ ہند کے بعد قابل
اور لائق ہندو اساتذہ ہندوستان چلے گئے جس کی وجہ سے یہاں کے اسکولوں میں
اعلیٰ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی تھی ان اسکولوں میں انگریزوں نے ایسا نظام
تعلیم چھوڑا جس میں معیار بہتر نہ تھا اس کا مقصد صرف انگریزی زبان کے
ماہرین پیدا کرنا تھا اسکی خاص وجہ یہ تھی کہ تقسیم ہند کے بعد وہ ذہنی طور
پر فرنگیوں کے ماتحت رہے آئے دن ان میں نئے نئے انقلابات تجربات ہو رہے
تھے۔ طرح طرح کی تبدیلیاں روز بروز ہوتی جا رہی تھیں۔ دنیاوی تعلیم چھوڑ کر
فنی تعلیم کی جانب رغبت بڑھتی جا رہی تھی یہاں کا نصاب جدید تقاضوں کو پورا
نہ کرتا تھا۔
انگریزی کی اہمیت کے پیشِ نظر انگریزی ذریعہ تعلیم کے ادارے روز بروز کھلنے
لگے۔ 1853 ءمیں سب سے پہلے انگریزی اسکول کھولا گیا اس اسکول کے بارے میں
سیٹھ نارمل لکھتا ہے کہ:۔ ”1853ءمیں کراچی میں انگریزی اسکول کھولا گیا اور
استدعا کی گئی کہ میں اپنے خاندان کے بچوں کو اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے
کے لئے بھیجوں ،میں نے اپنے پوتے عالم چنہ کو خاندان کے دس بارہ بچوں کے
ساتھ بھیجا۔“
کراچی کا یہ اسکول سندھ میں انگریزی تعلیم رائج کرنے کے لئے سنگِ میل ثابت
ہوا اور بہت جلد سندھ کے دوسرے اسکول بھی قائم ہونے لگے۔ انگریزی زبان کے
توسط سے ہم نے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا لیکن قیام پاکستان کے بعد
انگریزی تعلیم کی اہمیت گھٹتی چلی گئی اور قومی زبان کی ضرورت کا احساس
زیادہ ہوتا گیا مگر موجودہ دور میں انگریزی کی ضرورت و اہمیت عروج پر پہنچ
گئی آج ہر شخص انگریزی تعلیم کے لئے کوشاں ہے یہ ایثار کی سیاسی اور ثقافتی
زبان ہے اور موجودہ حالات میں انگریزی زبان کا علم اور اس بات پر قدرت حاصل
کرنا ایک قومی ضرورت ہے جس کو عام طور پر طالب علموں کو محسوس کرنا چاہیئے
خصوصاً ایسے طلبہ جو بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند ہوں اسکے علاوہ
بین الاقوامی تجارت خرید و فروخت لین دین سب کا واحد ذریعہ انگریزی زبان ہے
اس طرح مختلف صوبوں میں یہی زبان رابطے کی ہے۔ آجکل دنیا میں یہ فسارتی
زبان ہے اور اقوام متحدہ میں تبادلہ خیال کا واحد ذریعہ ہے۔ اقوام متحدہ کے
جتنے ضمنی ادارے ہیں ان کی زبان انگریزی ہے۔ ادب کا سب سے بڑا خزانہ
انگریزی زبان میں ہے جس کے ذریعہ ہم تمام دنیا کی تہذیب و ثقافت کا علم
بخوبی حاصل کرتے ہیں۔
” مارچ 1959 ءمیں بمقام لاہور میں ایک اردو کانفرنس ہوئی اس میں ایک ماہر
لسانیات نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل دنیا میں بین الاقوامی
رابطہ فقط انگریزی زبان سے کیا جا سکتا ہے۔“
مشرق بعید کے ایک انگریزی زبان کے ماہر نے اپنا موقف یوں بیان کیا ہے کہ: ”
امریکہ نے انگریزی ترقی اور برطانیہ کی دولت مشترکہ نے انگریزی کو جدید
زمانے کی سب سے زیادہ مروج زبان بنا دیا ہے جاپان اور چین میں مشرق بعید نے
انگریزی زبان کی تائید کی ہے اور اپنے ملک میں اسکو ثانوی حیثیت دی ہے۔“
آج انگریزی زبان نے دوسری زبانوں کی جگہ لے لی ہے اس زبان میں علوم کے بیش
بہا خزانوں کے باعث ہر قوم و ملک اس زبان کو ترجیح دیتی ہے تیسری دنیا کے
تو اکثر ممالک میں اسے بحیثیت زبان کا درجہ حاصل ہے اور تعلیمی اداروں میں
لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔انگریزی زبان دنیا کی وسیع زبانوں
میں سے ایک ہے یہ پوری دنیا میں رابطے کا ذریعہ ہے۔موجودہ دور میں دنیا
گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنے
کے لئے انگریزی زبان کا سہارا لینا ضروری ہے۔ انگریزی زبان میں معلومات کا
ذخیرہ ہے دنیا میں جو بھی ایجادات، معلومات، اور تحقیقات ہو رہی ہیں تمام
انگریزی زبان میں ہو رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام اعلیٰ پیشے جیسے انجیئنرنگ
کی تعلیم، میڈیکل زراعت اور سائنس کی معلومات انگریزی زبان میں دی جاتی
ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں معیاری فنی اصلاحات صرف انگریزی زبان میں
موجود ہیں ان اصلاحات کو مادری زبان میں استعمال کرنے سے ریسرچرز کے ذہن
الجھ سکتے ہیں اس لئے انگریزی زبان میں اصلاحات کو استعمال کیا جانا بہتر
ہے۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان کو ایک خاص مقام حاصل ہے یہی
وجہ ہے کہ کلاس one سے گریجویشن تک اسکو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پرائیوٹ
اسکولوں میں ابتداءہی سے تمام مضامین کی تدریس انگریزی میں ہوتی ہے انگریزی
ہمارے کلچر میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اسکے بغیر ہم ترقی کا سوچ بھی نہیں
سکتے ہمارے تمام کاروباری معاملات ، خط و کتابت، پبلک امتحانات، پیشہ ورانہ
امتحانات مثلاً ایسوسی ایٹس، کورس آف انشورنس، انسٹیٹیوٹ آف بزنس
ایڈمنسٹریشن، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ٹریننگ پروگرام، (ICTP) امتحانی پرچہ جات
انگریزی ہی میں بنائے جاتے ہیں۔ CSS کے امتحانات، ICMAP، CA کے تمام پرچہ
انگریزی میں ہوتے ہیں۔ تمام شعبہ جات میں انگریزی زبان بہت اہمیت رکھتی ہے
اور اس سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔ تمام پرچے انگریزی میں ہوتے ہیں۔ تمام
شعبہ جات میں انگریزی زبان بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس سے واقفیت بے حد
ضروری ہے۔ تمام پاکستانی بینکوں میں بشمول اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تمام
رسیدیں Cash Book، چیک بُک، ڈرافٹ ، تمام جمع شدہ رقوم اور نکالی جانے والی
رقوم کا حساب بھی انگریزی میں ہی ہوتا ہے، حتی کہ درخواست بھی انگریزی میں
لکھنی پڑتی ہے۔
انگریزی زبان ایک ایسی چابی ہے جو کہ ادبی خزانہ کو کھولتی ہے اور یہی وہ
چابی ہے جو کہ اس تالے میں فٹ آتی ہے اس کے علاوہ معیاری ٹرمینالوجیز سائنس
میں اور ٹیکنالوجی صرف انگریزی زبان میں مہیا ہیں۔ انگریزی کی اہمیت کے
پیشِ نظر ہر طالب علم کے لئے لازمی ہے کہ وہ انگریزی زبان کے استعمال میں
مہارت رکھتا ہو تاکہ وہ حالات اور ضرورت کے مطابق انگریزی زبان میں دستیاب
سہولیات سے استفادہ کر سکے۔پاکستان کو انگریزی زبان ورثے میں ملی ہے اور
ہمارے معاشرے میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اب ہم اس سے چھٹکارا حاصل کرنا
نہیں چاہتے نہ صرف تمام شعبہ جات بلکہ ہماری معاشرت، سیاست، مذہب اور
نفسیات پر بھی اس کے گہرے اثرات نمایاں ہیں۔
انگریزی کی اس قدر اہمیت کے پیشِ نظر ہمارا معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا ہے
ایک اردو دان اور دوسرا انگریزی دان۔ انگریزی بولنے والا طبقہ اپنے آپ کو
ہر لحاظ سے برتر اور تعلیم یافتہ تصور کرتا ہے جبکہ اردو بولنے والے طبے کو
عام اور کمتر سمجھا جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی قابلیت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اس
معاشرتی تقسیم نے اردو دان طبقے میں احساسِ کمتری پیدا کر دی ہے جس کے باعث
ملکی افکار اور نظریات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔جب معاشرے میں طبقاتی تقسیم ہو
جاتی ہے تو اسکے نتیجے میں ذہنوں پر دباﺅ بڑھ جاتا ہے انسانی ذہن آہستہ
آہستہ مفلوج ہونا شروع ہو جاتے ہیں گھٹن اور دباﺅ ایک غیر یقینی کیفیت کو
جنم دیتے ہیں۔ انسان احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں
منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے غربتاور پسماندگی
کا خاتمہ نہ ہو سکا مگر یہ خیال صحیح نہیں کیونکہ معاشی خوشحالی مغربی تمدن
کی تقلید سے نہیں بلکہ قومی شعور ، قومی ذمہ داری، قومی یکجہتی اور قومی
طاقت پر منحصر ہے۔
لوگ اپنے بچوں کو انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ
یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر وہ اچھے عہدوں پر فائز ہوں گے کیونکہ اس سے
معاشی خوشحالی آتی ہے دوسرے نظام تعلیم اور انگریزی کے حامیوں کے درمیان
کھنچاﺅ پایا جاتا ہے۔ جس سے ملکی وحدت متاثر ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ انگریزی
تعلیم نے ہمیں ایک طرف جدید علوم کے خزانے دیئے ہیں تو دوسری طرف طبقاتی
تقسیم کھڑی کرکے احساسِ محرومی کا شکار بنا دیا ہے۔ہمارے ملک میں دوہرا
نظام رائج ہے اردو اور انگریزی جہاں انگریزی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے
انگریزی اداروں کے طلبہ مقابلے کے امتحانات پاس کرکے اعلیٰ ملازمتیں حاصل
کرتے ہیں جبکہ اردو ذریعہ تعلیم کے فارغ التحصیل طلبہ ڈگریاں اٹھائے ہوئے
حصولِ ملازمت کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور ادنیٰ ملازمتوں میں جگہ پاتے
ہیں۔ اس سے حاکم اور محکوم کے دو طبقے پیدا ہوگئے اور یہ بات قومی نقطہ نظر
سے تکلیف دہ ہے۔انگریزی زبان ہمارے ملک میں مغربی ثقافت اور مغربی نظریات
کو عام کر رہی ہے۔ ماضی سے گریز اور جدیدیت کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کے اداروں کا کمال یہ ہے کہ ہمارے طالب علموں کو
شیکسپئر، ملٹن، برنارڈ شاہ کا تو علم ہے لیکن معروف مسلمان شاعر حسان بن
ثابت، فلفی ابن رشید، سائنس داں ابن سینا، ابو ریحان البیرونی کے کارناموں
سے وہ ناواقف ہیں انھیں لاتعداد انگریزی مضامین اور نظمیں تو ازبر ہیں لیکن
قرآنی حدیث کا کوئی حصہ اور اسلامی تاریخ کے سورماﺅں کے کارناموں سے
ناواقفیت ہے۔مختصر یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم نے علم ثقافت کی بنیاد پر
کاری ضرب لگائی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ لندن
اور امریکہ کا اثر تو بہت جلد قبول کر لیتا ہے لیکن مذہب کی بات اور اثرات
اس لئے قبول نہیں کرتا کہ مغرب میں مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے اور
بدقسمتی سے اسکی نظر فساد پر نہیں پڑی جسے لامذہب نے جنم دیا مذہب کو قید
سمجھنے اور ضابطوں کو توڑنے کے باوجود ہر طرح کی مادی آسائشوں سے لبریز
مغرب کا انسان جس ذہنی کوفت اور قلبی عذاب میں مبتلا ہے وہ بھی اسکی نظروں
سے پوشیدہ نہیں۔
قومی سیاست کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انگریزی زبان اور
ذریعہ تعلیم سے سیاست دوسرے شعبوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ متاثر ہوتی ہے
جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قومی سیاست کے بارے میں ہمارے سیاستدانوں کے
افکار و نظریات مختلف ہیں کچھ ملک میں جمہوریت رائج کرنے کے حق میں ہیں کچھ
خالص اسلامی حکومت کے حامی ہیں۔ چند ایک سوشلسٹ نظام حکومت کے حامی ہیں۔ ہر
کوئی پاکستان کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے مغربی جمہوریت
کے حامیوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان ترقی یافتہ ملک بن جائے تو سوشلزم اور
کمیونزم پاکستان میں آجائے گا اور یہ معاشی خوژحالی کا دور دورہ ہوگا۔ اور
لوگوں کو معاشرتی و معاشی آزادی حاصل ہوجائے گی۔دراصل قومی ترقی اور
معاشرتی خوشحالی کا انحصار کسی واحد نظام پر نہیں بلکہ قومی شعور، قومی ذمہ
داری، یکجہتی اور قومی طاقت کے ان عناصر پر ہے جو قومی تعمیرِ نو میں
بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ان عناصر کو پیدا کرنے والے دریافت کرنے والے،
ان میں استحکام پیدا کرنے والے ہی ملک و قوم کے افراد ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں
کے درمیان قومی امور اور نظام حکومت پر اختلافات کی وجہ سے پاکستان کو ابھی
تک سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ان اختلافات کی
اصل وجوہات کیا ہیں۔
”نصاب Curriculum لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: ” وہ
راستہ جسے کوئی شخص منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے اختیار کرتا ہے نصاب
کہلاتا ہے اور یہ قومی مقاصد اور حاجات کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔“
زبان کسی بھی نصاب کی بنیاد ہوتی ہے لہٰذا اسے نصاب کے لوازمات پر پورا
اترنا چاہیئے جہاں تک انگریزی زبان کا بطور بین الاقوامی زبان تعلق ہے ہمیں
اسے اپنی معاشی، تعلیمی، سیاسی اور سماجی غرض سے سیکھنا چاہیئے اس کی عصرِ
حاضر کی ضرورت نے اسے ہمارے نصاب میں ایک اہم مقام دیا ہے۔سویٹ Sweetاس ضمن
میں کہتا ہے: ” زبان نظریات کے اظہار کا ذریعہ ہے جس میں صوتی آوازیں الفاظ
بنتی ہیں الفاظ ملکر فقرات بنتے ہیں اور فقرات کا حسین امتزاج افکار و
نظریات کا موجب بنتا ہے۔“
جہاں تک ہمارے نصاب کا تعلق ہے پرائمری سے ڈگری کی سطح تک انگریزی کو ایک
لازمی مضمون کا درجہ حاصل ہے لیکن انگریزی کے نصاب میں اس مقام کے باوجود
ہمارے طلبہ اس زبان کو رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرنے میں ناکام ہیں
یہاں تککہ اس زبان میں ایم اے کرنےکے باوجود وہ نہ تو انگریزی روانی سے بول
سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکھنے کے
باوجود وہ یہ زبان بولنے اور لکھنے سے قاصر کیوں ہیں اس جواب کے ضمن میں ہم
انگریزی میں ہم انگریزی کے نصاب میں درج ذیل خامیوں کا مشاہدہ کرتے
ہیں۔انگریزی کو نصاب میں بنیادی سطح پر عرصہ دراز تک شامل نہیں کیا گیا اب
اگر کیا گیا ہے تو جائزہ کی صورتحال ناقص ہے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں
ہے کہ جو چیز بھی ابتدائی زمانے سے لکھی جاتی ہے وہ فرد کی شخصیت پر دورس
اثرات مرتب کرتی ہے لہٰذا انگریزی کو ابتدائی جماعتوں سے لازمی مضمون کے
طور پر پڑھانا چاہیئے۔ اس طرح یہ مستقبل میں زبان سیکھنے میں سنگِ میل ثابت
ہوگا۔ |